• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماضی میں کراچی کے مستقل طور پر ابتر رہنے والے حالات کے تناظر میں یقینا یہ سچ ہضم کرنا مشکل ہے کہ 1988سے 2013تک اسمبلیوں میں شہری سندھ کی نمائندہ جماعت ہونے کے باجود متحدہ قومی موومنٹ کے مطالبات خاص طور پر منتخب حکومتوں کے ہاتھوں نظر انداز کئے جاتے رہے۔ منتخب ایوانوں میں منتخب نمائندوں کی موجود گی بھی پارٹی کے لئے بحیثیت ’’سیاسی قوت‘‘ کبھی موثر ثابت نہ ہوسکی! نہ کراچی و حیدرآباد میں پارٹی کا غیر معمولی اسٹریٹ پاور صحیح معنوں میں پارٹی کی سیاسی قدر میں اضافے کا سبب بن سکا اور نہ ہی متحدہ کی جانب سے مذاکرات کے مطالبے کا شورو غل اِس کے ووٹرز کے حق میں کبھی کسی بہتر تبدیلی کا سبب بن پایا۔ ہڑتال اور بائیکاٹ البتہ وہ واحد ہتھیار ہیں جن کے ذریعے متحدہ قومی موومنٹ حکومت وقت، سیاسی مخالفین اور ریاست سمیت کسی بھی مخالف کو جب چاہے بھنبھوڑ ڈالتی تھی۔ گزشتہ تیس برسوں میں پارٹی کے خلاف کئے گئے آپریشنز کے باجودپارٹی کا یہ خوفناک ’’ہتھیار ‘‘ مکمل طور پر نا قابل تسخیر رہا۔ اگرچہ گزشتہ چند برسوں میں سیکورٹی فورسز کی مسلسل کارروائیوں کے ذریعے متحدہ کی سیاسی سرگرمیوں اور اثرو رسوخ کو لندن سیکرٹریٹ تک محدود کردیا گیا ہے لیکن تازہ خبروں سے تاثر ملتا ہے کہ بائیکاٹ کا یہ خطرناک ہتھیار آج بھی متحدہ کے پاس محفوظ ہے۔ قوم کو پیغام پہنچایا گیا ہے کہ اگر بانی ایم کیو ایم کی زبان بندی ختم نہیں کی گئی تو پتنگ کے روایتی ووٹرز انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔
بظاہر یہ پیش رفت ایم کیو ایم میں پہلے سے جاری ٹوٹ پھوٹ کا ایک غیر اہم سا حصہ دکھائی دیتی ہے لیکن گزشتہ تیس دہائیوں میں ایم کیو ایم دو بار پہلے بھی انتخابات کا بائیکاٹ کرچکی ہے۔ رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاریوں، قید، ماورائے عدالت قتل، زیرحراست تشدد، عدم مساوات اور دھاندلی کے سبب پارٹی نے پہلی بار1993 میں قومی اسمبلی اور پھر 2001میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ دونوں بار بائیکاٹ کا فیصلہ ووٹرز کے حق میں براہ راست کوئی مثبت تبدیلی نہیں لا سکا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں بار پولنگ کے دن کراچی او ر حیدر آباد کی سڑکیں سنسان پڑی رہیں اور بیشتر پولنگ اسٹیشنز پر تعینات پولنگ اہلکار سارا دن ووٹرز کو کم و بیش ڈھونڈھتے پھر رہے تھے۔ لہذا ایم کیو ایم لند ن کا سیاسی طور پر پس منظر میں گم ہوجا نا اس بات کی ضمانت نہیں کہ بائیکاٹ کے حتمی اعلان کی صورت میں اس بار پولنگ کے دن حالات مختلف ہو ں گے۔
بانی ایم کیو ایم پریہ پابندیاں شاید بہت سوں کے لئے نئی بات نہ ہو! ا سّی کی دہائی کے آخری برسوں تک پی ٹی وی پر بانی ایم کیو ایم کے ذکر پر غیر اعلانیہ پابندی رہی۔ جنر ل ضیا الحق کی ہوائی حادثے میں ہلاکت کے بعد عام انتخابات سے قبل عبوری حکومت میں مولانا کوثر نیازی کے وزیر مواصلات مقرر ہوتے ہی پہلی بار بانی ایم کیو ایم سے متعلق خبریںپی ٹی وی پر نشر ہونا شروع ہوئیں۔ ٹیلیویژن پر ایم کیو ایم کا نام لینے والے پہلے سیاست دان محمد خان جونیجو تھے ۔ وہ اُس وقت وزیراعظم پاکستان کے عہدے پر فائز تھے۔ پھر سال 1988کے انتخابات قریب آتے ہی پی ٹی وی نے پہلی بار بانی ایم کیو ایم کاایک طویل سولو (Solo)انٹرویو پیش کیا ۔
لند ن کی جانب سے فی الحال کہا جارہا ہے کہ آئندہ انتخابات کے بائیکاٹ کا حتمی اعلان بانی کی جانب سے توثیق کے بعد کیا جائے گا۔ لندن میں منعقدہ ایک طویل ویڈیو کانفرنس میں سال 1992سے اب تک ایم کیو ایم کے خلاف مبینہ زیادتیوں اور ریاستی جبرکے ساتھ ساتھ بانی ایم کیو ایم کے نام، بیانا ت اور تقاریر کی نشریات پر پا بندیوں کے خلاف شدید نکتہ چینی کی گئی۔ لہٰذا اِس غیر متوقع پیش رفت کے تناظر میں انتخابات سے قبل حالات حکمرانوں ، سیاست دانوں اور مقتدر حلقوں کی جانب سے کسی غیر سنجیدہ روئیے کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔
چند تجزیہ کار اور صحافی اِس بات پر ہمیشہ سے متفق ہیں کہ ایم کیو ایم کا روایتی ووٹر نا مساد حالات سے خوفزدہ رہنے کے سبب خاموشی سے اِس کھوج میں ہے کہ ایم کیو ایم پی آئی بی، ایم کیو ایم بہادر آباد اور پی ایس پی میں سے کون سا دھڑا بانی تحریک کے قریب ترہے ۔ متحدہ کے روایتی ووٹرز کو امید ہے کہ الیکشن قریب آتے آتے یہ دھڑے ایک بار پھر نائن زیرو کے پلیٹ فارم تلے جمع ہو کر انتخابات میں حصہ لیں گے۔
رابطہ کرنے پر ایم کیو ایم پی آئی بی کے رہ نما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ اگر انہیں سیاست کرنے کی آزادی میسر ہوتی، چھاپے اور گرفتاریوں کا سلسلہ ختم ہوچکا ہوتا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں موجود کارکنان و اسیر واپس آجاتے اور شہر بھر میں پارٹی کے دفاتر کھل چکے ہوتے تو ایم کیو ایم لندن اب تک غیرموثر ہوچکی ہوتی! فاروق ستار نے اِس خدشے کا کھلا اظہار کردیا کہ اس صورت حال میں لندن کی جانب سے بائیکاٹ کا اعلان پولنگ کی صورتحال پر واضح اثر ڈال سکتا ہے۔
اُدھر ایم کیو ایم بہادر آباد نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر لندن سیکرٹریٹ بائیکاٹ کا اعلان کردیتا ہے تو اس کے ممکنہ اثرات شہر کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی گرفت مضبوط کرسکتے ہیں۔ فیصل سبز واری کا خیال ہے کہ تمام دھڑوں کے مقابلے میں ایم کیو ایم پاکستان (یعنی بہادر آباد) کے ووٹرزکی تعداد سب سے زیادہ ہے۔’’متحدہ لندن سے بائیکاٹ کا اعلان پتنگ کے روایتی ووٹرز پراثر ڈال سکتا ہے : انہیں بانٹ سکتا ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے عمر چیمہ کے ٹوئٹ میں لکھا دیکھا کہ کراچی اور حیدر آباد میں ووٹرز کی اکثریت اب بھی بانی متحدہ کے ساتھ ہے۔ رابطے پر عمر چیمہ نے بتایا کہ اس قسم کے سرویز چند خاص تجزیات پر مبنی ہوتے ہیں جو خاص حقائق کی روشنی میں اَخذ کئے جاتے ہیں۔ اِن کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات کے نتائج مقتدر حلقوں اوراسٹیبلشمنٹ کی توقعات کے برخلاف بھی ہو سکتے ہیں!
عوام یقینا طاقت کا بنیادی سرچشمہ ہوتے ہیں ۔ اس لئے اِن کی طاقت کو ہر بار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اعلان ہڑتال کا ہو یا کسی بائیکاٹ کا، کامیابی صرف عوامی حمایت کی صورت میں ہی ممکن ہے ۔ بائیکاٹ کے ممکنہ اعلان کی صورت میں انتخابات کے دن پولنگ اسٹیشنز پر ووٹرز کی تعداد ، بائیکاٹ کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کردے گی ۔اور یہی فیصلہ اگلے پانچ برسوں کے لئے پارٹی کے حوالے سے ’’خاص‘‘ پالیسیوں پر نظر ثانی کا جوازبھی بن سکتا ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین