• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوں تو مسلمان اور ہندو برصغیر میں ہزار سال سے بھی زیاد اکٹھے رہے لیکن مسلمانوں نے ہندوستان پر حکومت تقریباً سات سو سال کی۔ مسلمانوں کے 76بادشاہوں نے ہندوستان پر بادشاہت کی جن میں اکثر عقیدے اور عمل کے حوالے سے مسلمان تھے لیکن ان میں کچھ صرف نام کے مسلمان بھی تھے۔ ہزاروں سال اکٹھے رہنے کے باوجود مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان مذہب کی وسیع خلیج حائل رہی کیونکہ ہندو بنیادی طور پر بت پرست ہیں۔ مسلمان انہیں مشرک سمجھتے ہیں۔ مغلوں نے اپنے دور حکومت کو طول دینے کے لئے مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اکبر کا دین الٰہی اور اکبر سمیت چند مغل حکمرانوں کی غیر مسلمان خواتین سے شادیاں اسی حکمت عملی کا حصہ تھیں۔ آپ کو شاید حیرت ہو کہ مغل خاندان کے دو حکمران ہندو ماؤں کے بطن سے تھے، مغل حکومت کے کمزور ہوتے ہی ہندوؤں، جاٹوں، مرہٹوں اور سکھوں نے جس طرح مسلمانوں سے انتقام لیا اور مسلمان نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کیا، وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ حکمران اقتدار اور تلوار کے زور پر دوسرے مذاہب کی خواتین سے شادیاں کرتے رہے لیکن مسلمان علماء کا ہمیشہ اس نکتے پر اتفاق اور اجماع رہا کہ مسلمان کی ہندو یا سکھ عورت سے شادی خلاف شرع ہے اور ناجائز ہے۔ سیاسی چالوں کے باوجود مسلمان علماء نے ہندوؤں کو ہمیشہ اہل کتاب ماننے سے انکار کیا اور ان کی بغاوتیں کبھی مجدد الف ثانی اور کبھی شاہ ولی اللہ کے خانوادے کی شکل میں ظاہر ہوتی رہیں۔ حکمرانوں کی حد تک، میری محدود اطلاع کے مطابق، نہ صرف مغل حکمرانوں نے غیر مسلمان خواتین سے شادیاں کیں بلکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بھی ایک مسلمان خاتون کو اپنے حرم میں شامل کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس خاتون کا تعلق ناچنے والی کلاس سے تھا۔ اس حوالے سے جس شادی پر خاصا ہنگامہ ہوا اور مسلمان علماء نے کھل کر فتوے دیئے وہ شادی تھی مہاراجہ کشن پرشاد کی ایک سیّد زادی سے۔ مہاراجہ کشن پرشاد حیدرآباد دکن کے وزیر اعظم تھے جبکہ حکمران مسلمان تھا۔ کشن پرشاد نعتیں بھی لکھتا تھا۔ مسجد میں آتا تو نماز کی صف میں بھی شریک ہو جاتا لیکن مندر میں جاتا تو خالص ہندوانہ رسوم ادا کرتا۔ حیدر آباد کے نظام میر عثمان علی کی صاحبزادی کی نماز جنازہ میں امیر ملت حضرت پیر سیّد جماعت علی شاہ نے کشن پرشاد کو دیکھ کر فرمایا تھا ”اس کو مسجد سے نکالو ورنہ سب کی نماز پلید ہو جائے گی۔“ اس موضوع پر محترم محمد صادق قصوری نے اپنی کتاب اقبال اور امیر ملت میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ چند دہائیاں قبل جب ممتاز ادیب رشید صدیقی مرحوم کی بیٹی نے مشہور افسانہ نگار کرشن چندر سے شادی کی تو اس پر بھی علماء کا ردعمل شدید تھا۔ اسی طرح چند برس قبل جب ممتاز پاکستانی مورخ عائشہ جلال نے ایک ہندو پروفیسر سے شادی کی تو اسے بھی علماء نے ناجائز قرار دیا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر مرحوم نے بھی ایک سکھ خاتون سے شادی کی تھی جس کے خلاف علماء نے فتویٰ جاری کیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد سے مسلمان اور ہندو فلمی اداکاروں میں شادیاں ہوتی رہیں اور ان کے خلاف فتوے بھی دیئے جاتے رہے۔ حال ہی میں ہندوستان کے ایک مسلمان اداکار نے ہندو اداکارہ سے شادی کی تو اس پر مختلف تبصرے سننے کو ملے۔ اس موضوع پر جناب ڈاکٹر بابر اعوان کا مکتوب پیش خدمت ہے ۔
برادرِ محترم ڈاکٹر صفدر محمود صاحب
سلام مسنون!
بھارت میں ہندو مسلم ایکٹرز کی حالیہ شادی کے تناظر میں بعض ایسے مباحث چھڑ گئے ہیں جس کے نتیجے میں کئی علمی مغالطے جنم لے سکتے ہیں۔ شریعت، ثقافت اور تاریخ کے حوالے سے ریکارڈ درست رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے اس لئے میں یہ سطور آپ کے ذریعے نئی نسل تک پہنچانا چاہتا ہوں، اس سلسلے کا پہلا مغالطہ یہ ہے کہ کیا ہندو اہلِ کتاب ہیں؟
اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ بہت سارے ویدوں کے علاوہ ہندو مذہب کی کتابوں میں رامائن، مہا بھارت، بھگوت گیتا وغیرہ قابل ذکر ہیں چنانچہ پہلا اور انتہائی بنیادی سوال یہ ہے کہ ہندو مذہب کی ان کتابوں میں سے کونسی کتاب وحی کی یا صحیفے کی شکل میں کس پیغمبر رسول یا نبی پر اُتری؟ مذاہب اور سماجیات کی معلوم تاریخ میں اس سوال کا جواب ابھی تک کوئی نہیں دے پایا۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہندو گاؤماتا، لکشمی دیوی، ہنومان، گنیش، کرشنا ، کالی ماتا اور موہن داس کرم چند گاندھی سمیت محتاط اندازے کے مطابق ہزاروں بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق بتوں کی پوجا کھلا شرک ہے۔ یہ خدا کی وحدانیت اور اس کی ذات و صفات کی بے باکانہ نفی ہے چنانچہ ایک منطقی سوال یہ ہے کہ کوئی مشرک اہل کتاب ہوسکتا؟
اس کے دو ممکنہ جوابات ہیں، پہلا یہ کہ بالکل نہیں …اور ددوسرا یہ کہ جس کتاب کو وہ مانتا ہے اسے خدا کے کلام کے علاوہ کچھ بھی اور کہا جا سکتا ہے۔
اس مختصر ابتدایئے کے بعد اب آیئے اس پہلو کی جانب کہ مذہب اسلام کے دو معلوم اور مستند ذرائع یعنی قرآن و حدیث کی رُو سے شادی اہل کتاب سے جائز ہے جبکہ ابراہیمی سلسلے کے مذاہب میں صاحب تحقیق اور تاریخ عیسائیوں اور یہودیوں کو اہل کتاب گردانتے ہیں جن سے مسلمان مرد کو شادی کی اجازت ہے۔ ہندو مت کو ماننے والے اہل کتاب نہیں ہو سکتے لہٰذا ہندو لڑکیوں کے ساتھ مسلمانوں کی شادیاں جائز قرار نہیں پا سکتیں۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ ہندو مذہب کے ہزاروں فرقوں میں سے کوئی فرقہ بھی مسلمانوں کے ساتھ نکاح کر کے شادی کو جائز ہی نہیں سمجھتا اور اگر کوئی مسلمان سنت ِ محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے اگنی ماتا کے گرد سات پھیرے لگانے کو شادی کہتا ہے تو یہ مسلم روایات، محمڈن لاء اور شرعی حیثیت سے منکوحہ بیوی لانے کا عمل ہرگز نہیں ہو گا۔ البتہ لٹریچر کی زبان میں اسے سہولت کی شادی یعنی میرج آف Convenience اور ضرورت کی شادی میرج آف Necessity کہا جائے گا۔
پھر اس حقیقت سے کون نظریں چُرا سکتا ہے کہ پاکستان میں جب بھی کوئی ہندو لڑکی اسلام قبول کر کے مسلمان سے شادی کرتی ہے تو ہندو اسے اپنے مذہب پر حملہ قرار دیتے ہیں۔
مذاہب کا باہمی رشتہ ایک دوسرے کی مقدس مذہبی ہستیوں کے برابر احترام پر مشتمل ہے۔ اس میدان میں بھی اسلام کا دامن زریں عقیدے کے موتیوں سے بھرا ہوا ہے کیونکہ جب تک کوئی شخص آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ اللہ کے دوسرے سچے انبیاء اور قرآن حکیم کے علاوہ دیگر کتابوں پر ایمان نہ لائے تو بطور مسلم اس کا ایمان ہی مکمل نہیں ہو سکتا اور ادیانِ عالم کے درمیان دوسرا رشتہ یہ ہے کہ وہ سوائے علمی مباحث اور تقابلی مطالعہ کے ایک دوسرے کے عقائد اور نظریات کو نہ چھیڑے۔
اس وقت ہندی فلموں کے اثرات کے علاوہ ہندی زبان و بیان اور تکلم کا وسیع نفوذ مختلف چینلوں کے اینکرز کی گفتگوؤں سے واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اردو کو بگاڑ کر ہندی لہجے میں بولنا ماڈرن ازم نہیں بلکہ یہ ہماری مادری زبان کی شناخت کی گمشدگی کی ”ایف آئی آر“ ہے۔
جناب ڈاکٹر صاحب … خدا کے فضل سے میں ہمت ہارنے والا نہیں ہوں۔ اولادِ علی ہوں لیکن دل گرفتہ ہو کر کہہ رہا ہوں کہ میرا ملک پہلے ہی تاریخی بحرانوں، نسلی لہجوں کی تقسیم در تقسیم، فیڈریشن کی کمزوری اور رٹ آف سٹیٹ کے ضعف جیسی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ میری دھرتی ماں کی کروڑروں بیٹیاں ہاتھ پیلے ہونے کی منتظر ہیں۔ معاشرہ خانہ جنگی کی طرف دوڑ رہا ہے۔ غربت کے جزیرے مزید گہرے اور محلات اور سرمایہ داروں کی فصیلیں مزید اونچی ہو رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں میں نے ایک لیکچر میں کہا تھااس پاک سرزمین میں دو چیزیں سب سے زیادہ مظلوم ہیں، ایک میری مادر وطن اور دوسرا اسلام۔ کیا ضروری ہے کہ وہ کام جو اکبر اعظم کا سیاسی دین ”دین اکبری“ نہ کر سکا اور جو کام کمزور ترین سلاطین دہلی اور سرہند کا قیدی حضرت مجدد الف ثانی چھاتی کے زور پر روکتے رہے وہ ہم سہولت یا ضرورت کی شادی سمجھ کر مجبور یا مظلوم بن کر ہونے دیں…؟؟؟
میں اپنی بات کو یہاں پر ختم کرتا ہوں کہ کیا اس مظلوم دھرتی میں بت شکنوں کا اسلام اس قدر مظلوم ہے کہ اسے اپنی حفاظت کے لئے بت پرست ادیان اور ان کی وکالت کرنے والوں کی دلہنوں کی سپاہ کی ضرورت آن پڑی ہے…؟
اے وطن کیسے یہ دھبے در و دیوار پہ ہیں
کس شقی کے یہ طمانچے تیرے رخسار پہ ہیں
خاکسار: ڈاکٹر بابر اعوان
اسلام آباد
تازہ ترین