• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بظاہر حکومت ختم ہو چکی ہے مگر تادم تحریر صوبوں کے نگران وزرائے اعلیٰ کے ناموں پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے نام پر دو جماعتیں بے نقاب ہوئیں، کچھ ایسا ہی پنجاب میں ہوا، جہاں پی ٹی آئی نے نام دے کر واپس لیا۔ یہ تحریک ِ انصاف کے پنجاب میں اپوزیشن لیڈر کی ناپختگی کا کھلا اظہارہے۔ ویسے ان کی پانچ سالہ کارکردگی بھی کوئی قابل رشک نہیں۔ مبینہ طور پر چند سہولیات کے عوض وہ بطور چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی بھی چپ رہے۔اس صوبے میں ان کی خاموشی انتہائی معنی خیز تھی جس سے نیب دھڑا دھڑ کیس برآمد کر رہی ہے گویا کرپشن کا ایک دریا محمود الرشید کے سامنے بہتارہا اور وہ چپ رہے۔ اب نگران وزیراعلیٰ کے نام پر انہوں نے تحریک ِ انصاف کی ساکھ کو خراب کیا۔ ہوسکتا ہے انہیں یہ نام پارٹی نے دیا ہو مگر اس سے پارٹی کی ساکھ تو خراب ہوئی۔ عمران خان کی پارٹی میں اب سینئر لوگوں کی کوئی کمی نہیں، انہیں ان لوگوں سے مشاورت کرنی چاہئے۔ عمران خان کو نوجوان اور جعلی ارسطوئوں سے پرہیز کرنا ہوگا۔ انہیں ڈھنگ کے آدمیوں سے مشاورت کرنا ہوگی۔ مشاورت کے وقت شخصیات کا قد کاٹھ دیکھنا ہوگا۔ انہیں گلوکاروں سے گانے ضرور سننے چاہئیں مگر سیاسی منصوبہ بندی کرتے وقت سیاستدانوں ہی سے بات کرنا ہوگی۔ ان کی پارٹی میں بعض ایسے لوگ ہیں جو اپنے انتخابی حلقوں میں ’’مہمان اداکار‘‘ کے طور پر جاتے ہیں ۔انہیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ لوگ ایسے اداکاروں کو ووٹ نہیںدیتے۔
آج کل افطاری کے بعد رات گئے تک اسلام آباد کے ریستوران آباد رہتے ہیں۔ اس رونق کی بڑی وجہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے خواہش مندوں کی بھرمارہے۔ اس مرتبہ تحریک ِ انصاف ایک حوالے سے خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس امیدواروں کی بہتات ہے مگر دوسرا حوالہ ذرا مختلف ہے۔ اس حوالے سے عمران خان کو بہت غور کرنا ہوگا مثلاً ان کی پارٹی میں نوجوانوں کی اکثریت ہے۔ انہیںایسے نوجوانوں کو نظرانداز نہیں کرناچاہئے جن کے پاس ووٹ ہیں اور وہ جیتنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ انہیں ایسے لوگوں سے پرہیز کرنا ہوگا جو مشکل وقت میں پارٹی کو چھوڑ گئے تھے۔ انہیں بائیس سالہ رفاقت کا خیال بھی کرناہوگا مگراس ساری صورتحال میں عمران خان کو ایک بات ضرور مدنظررکھنا ہوگی کہ امیدوار کس حد تک جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے تحریک ِ انصاف کے پارلیمانی بورڈ میں ایک شخص ایسا بھی ہے جسے اپنے حلقے کی یونین کونسلز کا بھی پتہ نہیں۔ ایسے مہمان اداکار خطرات کی علامت ہیں۔ عمران خان کی پارٹی میں خواتین کی تعداد دوسری پارٹیوں کی نسبت زیادہ ہے۔ انہیں اس طبقےکا بھی خیال کرنا ہوگا۔ انہیں ایسی خواتین کارکنوں کو آگے لانا ہوگا جنہوں نے تحریک ِ انصاف کی جدوجہد میں قربانیاںدیں، جنہوں نے مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا۔ پی ٹی ا ٓئی کو سمندر پار پاکستانیوں کے حقوق کا بھی خاص خیال رکھنا ہوگا۔
جس شہر میں ٹکٹوں کے حصول کے لئےپی ٹی آئی کا رش لگا ہواہے، سنا ہے وہاں سے اسد عمر کے مقابلے میں ن لیگ مریم نوازکو امیدوار بنائے گی۔ اگر مریم نواز نااہلی سے بچ گئیں تو وہ یقیناً اسد عمر کومشکلات سے دوچارکردیں گی۔ وہ اسد عمر سے زیادہ نپی تلی بات کرتی ہیں۔ تقریر میں فنی مہارت بھی مریم نواز کی زیادہ ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پی ٹی آئی کا ’’ارسطو‘‘ الیکشن ہار جائے۔
الیکشن کی تمام تر تیاریوں کے باوجود ہنوز الیکشن سوالیہ نشان ہیں۔ قرین قیاس یہی ہے کہ الیکشن وقت پر نہیں ہوں گے اگرچہ یہ بات پی ٹی آئی والوں کوبہت بری لگتی ہے مگر یہی حقیقت ہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ کیا لوگ سیکرٹری الیکشن کمیشن کی اس بات کو نظرانداز کردیں جس میں انہوں نے کہا کہ وہ اِ ن کیمرہ سیشن میں بتا سکتے ہیں کہ کس طرح الیکشن التوا کے لئے بین الاقوامی سازش ہوگی۔ کیا اس وجہ کو بھی نظرانداز کردیا جائے کہ بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے اسمبلی سے ایک قرارداد کیوں منظور کروائی ہے؟ کیا اس بات کوبھی صرف ِ نظر کردیا جائے کہ انہوںنے حج اور مون سون کا حوالہ دے کر الیکشن اگست کے آخر میں کروانے کی بات کیوں کی ہے؟ کیاممنون حسین اس وقت صدر ہوںگے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ اس وقت سب کے پسندیدہ صادق سنجرانی قائم مقام صدر بن چکے ہوں گے اور اس وقت صدر کا الیکٹورورل کالج بھی مکمل نہیںہوگا یعنی صدر کو منتخب کرنے والی اسمبلیاں ہی نہیں ہوں گی۔ ابھی تو صرف اسلام آباد ہائی کورٹ سے فیصلے سامنے آئے ہیں ابھی حلقہ بندیوںکے حوالے سے باقی ہائی کورٹس کے فیصلے بھی سامنے آئیں گے۔ کیا الیکشن کمیشن کے لئے ڈیڑھ دومہینوںمیں نئی حلقہ بندیاں کرلینا ممکن ہوگا؟ کیا اتنے بڑے پیمانے پر پھر سے حلقہ بندیاں کرنا مشکل نہیں ہوگا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ ایم کیو ایم کی طرف سے سینیٹر فروغ نسیم نے الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ میں ایک درخواست دے رکھی ہے کہ کراچی کی مردم شماری د وبارہ کروائی جائے اور اس مردم شماری کے مکمل ہونے سے پہلے الیکشن شیڈول جاری نہ کیا جائے۔ 2011اور 2012میں یہ جج منٹ کیسے آگئی تھی کہ کراچی کی آبادی ایک کروڑ 80لاکھ اور پھر دو کروڑ ہے اور اب چھ سال بعد مردم شماری کے معجزاتی عمل نے کراچی کو کیسے ایک کروڑ 60لاکھ کا شہر بنا دیا؟ کیا آئین کے آرٹیکل 218(تین) میں یہ درج نہیں کہ الیکشن صحیح، دیانتدارانہ اور شفاف ہونے چاہئیں؟نیا نامزدگی فارم بھی ہائیکورٹ میں چیلنج ہوچکاہے اور اصغر خان کیس کے حوالے سےسپریم کورٹ بھی بہت متحرک ہے۔
آپ اس بات کو کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں کہ جون میں جب ن لیگ کی قیادت سے متعلق نیب کے فیصلے آئیں گے اور کچھ لوگوں کو توہین عدالت کے فیصلے سنائے جائیں گے تو کیا ان کا ردعمل نہیں ہوگا؟ کیا جب عرصہ ٔ دراز تک حکومتیں کرنے والوں کو سزائیں ہوںگی تو خاموشی رہے گی؟ پھر ایک سوال اور بڑا اہم ہے کہ کیا نیب کا دائرہ پورے ملک میں وسیع نہیں ہوگا؟ اگر ایسا ہوا تو پھر کون کون بچے گا؟ اب جب اقامہ ہولڈروں کی نااہلی کا سوال پیدا ہوچکا ہے تو پھر یہ بات ضرور مدنظر رہنی چاہئے کہ حال ہی میں تحلیل ہونے والی اسمبلیوں کے اکثر اراکین کے پاس اقامے ہیں۔
ملک کے اندر امن و امان کا مسئلہ درپیش ہوگا۔ کئی چھوٹی تحریکیں جنم لے سکتی ہیں۔ پاکستان میں بیٹھے ہوئے بیرونی طاقتوں کے آلہ کار خاموش نہیں رہیں گے۔ ن لیگ کو پنجاب کے اندر تحریک لبیک کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس دوران خدانخواستہ ہنگامے بھی پھوٹ سکتے ہیں۔ پھر اک سوال اور بڑا اہم ہے کہ کیا میچ کے لئے گرائونڈ اور موسم سازگار ہے؟ تو صاحبو! ایسا نہیں ہے۔ ابھی پچ گیلی ہے جب تک پچ میچ کے قابل نہ ہوجائے اس وقت تک میچ نہیں ہوگا۔ کوئی بھی ہوم کرائوڈ اور ہوم گرائونڈ پر میچ نہیں ہارنا چاہتا۔ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی حالات الیکشن کی اجازت دینے سے قاصر نظر آ رہے ہیں مگر پھر بھی میں جب ٹکٹوں کے خواہشمندوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے حفیظ جالندھری کا یہ شعر بے اختیار یاد آ جاتا ہے کہ؎
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین