• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے تمام عناصر جو کسی نہ کسی طریقے سے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے التوا کیلئے مختلف کوششیں کر رہے ہیں اور حربے استعمال کر رہے ہیں کے کریکٹر پر غور کریں تو ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ ان کا اپنا انیشی ایٹو نہیں ہے کیونکہ وہ ’’فری ایجنٹ ‘‘ نہیں ہیںبلکہ یہ کسی دوسرے کا ایجنڈا ہے جس کیلئے وہ ہمیشہ کام کرتے رہے ہیں۔ مختلف ایکٹرز جو یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر کچھ ہفتوںکیلئے الیکشن ملتوی کر دئیے جائیں تو آسمان نہیں گر پڑے گا کی تار ایک ہی جگہ سے ہل رہی ہے۔ الیکشن کی تاریخ مقرر ہونے سے کافی عرصہ قبل اسی طرح کے کچھ سیاسی رہنما یہ کہہ رہے تھے کہ انتخابات دو تین مہینے کیلئے ملتوی کئے جائیں گے جن میں شیخ رشید پیش پیش تھے۔ آخر الیکشن کے التواکا مقصد کیا ہے ؟ بہت سے حضرات کا یہ کہنا ہے کہ اس دوران ان کوششوں کو مزید تقویت دی جائے گی جو کہ کافی عرصہ سے نون لیگ کو توڑنے کیلئے جاری ہیں اور انتظار اس بات کا ہو رہا تھا کہ مرکز اور پنجاب میں اس کی حکومت ختم ہو جائے تاکہ اس کا اثر ورسوخ حکومت میں باقی نہ رہے۔ کوئی عقل کا اندھا ہی یہ کہے گا کہ نون لیگ کے جتنے لوگ بھی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے اور ان کا ضمیر انہیں اس جماعت کے ساتھ مزید چمٹے رہنے پر ملامت کر رہا ہے۔ عام آدمی کو بھی معلوم ہے کہ یہ ایک منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے تا کہ کسی صورت بھی نون لیگ کو جیتنے نہ دیا جائے مگر اس ساری مارا ماری کے باوجود بھی جو سروے آرہے ہیں وہ یہی بتا رہے ہیں کہ یہ جماعت الیکشن جیت جائے گی اور کوئی بھی پارٹی اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پی ٹی آئی میں اتنی اٹریکشن کہاں سے آگئی ہے کہ اس میں لوگ دھڑا دھڑ شامل ہو جائیں جبکہ عام تاثر یہ ہے کہ اس کی حالت 2013ء کے انتخابات کے مقابلے میں اچھی نہیں ہے۔
شاید ہی کوئی باخبر فرد ہو یا عوامی رائے کا ادارہ جو یہ کہہ رہا ہو کہ پی ٹی آئی اگلے انتخابات میں کامیاب ہو جائے گی اور نہ ہی اس جماعت کو اس بات کا خود یقین ہے مگر وہ بظاہر یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ جیت جائے گی۔ اس کے بارے میں اس کے ہینڈلرز بھی ایسا ہی تاثر دینے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ مگر پھر بھی انتخابات کے التوایا اس سارے عمل کو متنازع بنانے کیلئے پہلا کردار پی ٹی آئی کا ہی ہے۔ یہ تو اس کا بڑا پرانا رول ہے مگر جوں جوں عمران خان اپنے ہی پیدا کئے ہوئے تاثر کہ وہ وزیراعظم بننے والے ہیں کو مضبوط کر رہے ہیں تو ان میں فیصلہ سازی کا عمل بری طرح ایکسپوژ ہو رہا ہے۔ کبھی بھی اس جماعت میں ٹھوس طریقے سے اور سنجیدگی سے غور وخوض کے بعد اہم فیصلے نہیں کئے گئے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس پوزیشن میں ہی نہیں ہے کہ یہ کوئی ایسا کام کرسکے اور اس کو ہر چیز ریڈی میڈ مل جاتی ہے۔ جب دوسروں کے ایجنڈے پر عمل کیا جاتا ہے تو پھر عوامی سطح پر بڑی بڑی شرمندگیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں اور بڑے عجیب عجیب تماشے کرنے پڑتے ہیں جو بعض اوقات سیاسی طور پر سخت نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ تازہ ترین مثال ناصر محمود کھوسہ کی بطور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نامزدگی ہے۔ یہ پی ٹی آئی کی چوائس تھی اور صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمودالرشید جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے نے وزیر اعلیٰ شہبازشریف پر زور دیا کہ کھوسہ صاحب کو ہی نگران مان لیا جائے شہبازشریف اس پر متفق ہو گئے۔ جب یہ سارا آئینی پراسس خوش اسلوبی سے طے ہوگیا تو اچانک پی ٹی آئی کو ’’الہام‘‘ ہوا کہ کھوسہ صاحب تو نوازشریف کے فیورٹ ہیں۔ ان کا نام واپس لیتے ہوئے پی ٹی آئی نے یہ کہا کہ سابق وزیراعظم نے چونکہ کھوسہ صاحب کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ وہ ان کے پرنسپل سیکرٹری رہے ہیں لہذا وہ متنازع ہو گئے ہیں۔ اس سے بڑی بودی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے۔ کیا پی ٹی آئی کو کھوسہ صاحب کے نام پر اصرار کرنے سے قبل معلوم نہیں تھا کہ وہ نوازشریف کے پرنسپل سیکرٹری رہے ہیں اور انہوں نے ہی بطور وزیراعظم ان کو ورلڈ بینک میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر لگانے کی منظوری دی تھی۔ لگ یوں رہا ہے کہ کھوسہ صاحب کی سلیکشن پی ٹی آئی کا اپنا آزادانہ فیصلہ تھا مگر اس کا نام واپس لینے کا فیصلہ کہیں اور سے آیا اور اس نے حسب معمول سر تسلیم خم کر دیا۔ اب یہ قانونی بحث جاری ہے کہ کیا ایک بار نگران وزیر اعلیٰ کا نام فائنل ہونے کے بعد واپس بھی لیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ ایک ایسے عمل کو جس کو بہترین انداز میں مکمل کیا گیا تھا خواہ مخواہ متنازع بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور الیکشن کے بروقت انعقاد پر سوالات کھڑے کئے گئے ہیں۔ اس تماشے سے قبل ایسا ہی ڈرامہ خیبر پختونخوا میں بھی پی ٹی آئی نے رچایا جب عمران خان نے پرویز خٹک کو ہدایت کی کہ منظور آفریدی کا نام بھی بطور نگران وزیر اعلیٰ کے واپس لیا جائے اور ان کی جگہ کسی دوسرے پر اتفاق رائے کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس جماعت کی عقل پر حیرت ہوتی ہے کہ کیا فیصلے کرتی ہے اور کس طرح اس نے پاکستان پر حکومت کرنی ہے اگر یہ کبھی الیکشن جیت بھی گئی۔
ایک اور بھر پورکردار جو انتخابات کے التواکے لئے سامنے آیا ہے وہ ہے سرفراز بگٹی کا۔ ان کے بارے میں کسی کو بھی رتی برابر شک و شبہ نہیں کہ وہ کہاں سے بولتے ہیں۔ انہوں نے بلوچستان اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی کہ انتخابات ایک ماہ کیلئے ملتوی کر دئیے جائیں جس کو ان کی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے بھرپور حمایت کی جبکہ اپوزیشن جماعتیں بشمول نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے بھرپور مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن اس لئے ملتوی کئے جائیں کہ جولائی میں شدید گرمی اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پولنگ اسٹاف کا بیٹھنا محال ہوگا اور بہت سے لوگ جو حج کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب گئے ہوں گے اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کرسکیں گے۔ اتنا بڑا ’’انکشاف‘‘ ان پر اس وقت ہوا جب الیکشن کی تاریخ دی جا چکی ہے اور کم از کم پچھلے ایک سال سے بھر پور تیاری جاری ہے کہ انتخابات ہر صورت مقررہ وقت پر منعقد ہوں۔ کیا شدید گرمی صرف بلوچستان میں ہوگی اور باقی پاکستان اس سے مبرا ہو گا اور کیا حاجی صرف بلوچستان سے ہی اس فریضے کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب گئے ہوں گے۔ قرارداد میں انتہائی ناقص دلائل دئیے گئے ہیں۔ ایسے ماحول میں ایم کیو ایم کے لیڈر فیصل سبزواری نے بھی انتخابات کے التوا کا مطالبہ کر دیا ہے۔ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ الیکشن بروقت چاہتی ہیں اور پی ٹی آئی بھی اسی طرح کی بات کرتی ہے مگر اس کے ایکشنز اس کی نیت کے بارے میں شدید شکوک پیدا کرتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین