• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی کچھ دیر میں شریف خاندان کے اقتدار کا آخری سورج غروب ہوجائے گا۔قرائن کہہ رہے ہیں کہ یہ سورج پھر کبھی طلوع نہیں ہوگا ۔ تماشا ختم ہوگیا ہے۔اہلِ نظرتاریخ کے پردہ سیمیں پر ’’THE END ‘‘لکھا ہوا دیکھ رہے ہیں مگر کچھ کردار ہیں کہ ابھی تک فلم ’’تقدیر‘‘کی اسکرین سے باہر نکلنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں ۔ابھی تک شہباز شریف کی آنکھیں محمود الرشید کے چہرےپر مرتکز ہیں ۔انہیں طارق کھوسہ اور ناصر کھوسہ میںکوئی فرق محسوس نہیں ہورہا تھااور پھر اعلان ہوگیا کہ ناصر کھوسہ کے نام پرشہباز شریف اورمحمود الرشید متفق ہو گئے ہیں ۔پی ٹی آئی کے کارکنوں میں شور پڑ گیا ۔کہ ایک اور’’احد چیمہ ‘‘ کیسے نگران وزیر اعلیٰ ہو سکتا ہے ۔ایک اور فواد حسن فواد کو کیسے پنجاب سونپا جا سکتا ہے ۔ہر شخص حیران تھا کہ اُس کا نام پی ٹی آئی کے ہونٹوں سے کیسے برآمدہوا۔زبان پر چھالے کیوں نہیں پڑ گئے ۔وہ جو ایک مرتبہ پیش ہو چکا ہے وہ جسے دوسری مرتبہ کے سمن مل چکے ہیں ۔ اُس نام ِ نامی ،اسم ِ گرامی اور لبِ محمود الرشید ۔اللہ خیر کرے ۔حیرت اس بات پر تھی کہ جب یہ طے ہو چکا ہے کہ کوئی بھی نیب زدہ شخص نگران حکومت میں شامل نہیں کیا جائے گاتو پھریہ معجزہ کیسے رونما ہو گیا ہے۔ہوتے ہوتے معاملہ عمران خان تک پہنچا ۔ا عتراف کرنا پڑا محمود الرشید کوکہ وہ سیدھا سادہ آدمی ہےاور دنیا بہت چالاک ہے۔ سو ناصر کھوسہ کا نام واپس لے لیا گیا۔
دیکھئے دیکھئے اُس طرف ۔وہ صاحبان ِنون لیگ کلب روڈ پردانت پیس رہے ہیں ۔شکار جال سے نکل گیا ہے ۔مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسےنون لیگ ناصر کھوسہ کے نام پر ڈٹ جائے گی ۔کہے گی سمری جا چکی ہے اب کچھ نہیں ہو سکتا۔نون لیگ کا میڈیا سیل اس واقعہ کوپی ٹی آئی کا ایک اور یو ٹرن قرار دے رہاہے ۔میرے خیال میں تو یہی عمران خان کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ اپنی غلطی پر کسی انا پرست شخص کی طرح کبھی ڈٹے نہیں ۔انہیں معلوم ہے کہ غلطی پر کھڑا رہنا اُس سے بڑی غلطی کرناہے ۔وہ فوری طور پررجوع کرلیتے ہیں۔ یہی رجوع سچائی کی طرف رجوع ہے ۔اللہ کی طرف رجوع ہے اوریہی رجوع انہیں مسلسل فیروزمندیوں سے ہمکنار کررہا ہے ۔
دوسری طرف اپنی غلطی پر ڈٹ جانے والے چند ملازم حواریوں کے ساتھ اپنے غلط بیانیے کی صلیب پر لٹک رہے ہیں ۔نون لیگ اُن کا ساتھ چھوڑ چکی ہے حتیٰ کہ شہباز شریف بھی ۔اندازہ لگائیں کہ پنجاب میں پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کیلئے 24 ارکان پارلیمانی بورڈ بنا یاگیاہے جس میں راجہ ظفر الحق، شاہدخاقان عباسی، خواجہ محمد آصف، احسن اقبال، غلام دستگیر خان،راجہ اشفاق سرور، چوہدری شیر علی، رانا ثناء اﷲ ، حمزہ شہباز شریف، مریم نواز شریف، رانا تنویر حسین، پرویز ملک، بیگم عشرت اشرف، بلیغ الرحمان، سعود مجید، ملک ندیم کامران، ارشد لغاری، سائرہ افضل تارڑ، حنیف عباسی، برجیس طاہر، شاہ نواز رانجھا، جاوید لطیف اور منشاء اﷲ بٹ اور شہباز شریف شامل ہیں ۔اس فہرست میں ایک مریم نواز کے سوا نواز شریف کا کوئی وکیل موجود نہیں ۔ایک چشم دید گواہ کے مطابق شہباز شریف کا دستخط شدہ یہ نوٹیفکیشن جب ایک وفاقی وزیر کے ہاتھ میں آیا تو اسے ایسا لگا جیسے اُس نے انگارہ اٹھا لیاہو۔اگرچہ اس فہرست میں نثار علی خان اور پرویز رشید کے نام بھی شامل نہیں مگر میں خواجہ سعد رفیق کی بات کررہا ہوں جنہیں نواز شریف نے پنجاب میں نئے امید واروں کی تلاش کی ذمہ داری سونپی تھی۔ابھی دو دن پہلے وہ حنا پرویز بٹ کے گھر تشریف لے گئے کہ انہیں لاہور کی ایک نشست سے باقاعدہ الیکشن لڑایا جائے مگر حنا کے والدپرویز بٹ نے معذرت کرلی کہ آپ جنرل سیٹ پر الیکشن لڑنے کی بات کرتےہیں میں تواب اسےمخصوص نشست پر بھی دوبارہ ایم پی اے بننے کی اجازت نہیں دونگا۔حنا پرویز بٹ نون لیگ کی واحد پڑھی لکھی شخصیت ہیں ۔ہاورڈ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہیں۔پچھلے دنوں شوکت خانم اسپتال کسی کی عیادت کےلئے گئیں تو حیران ہو گئیں کہ پاکستان میں ایسے اسپتال بھی ہیں۔ انہوں نے ٹویٹ میں لکھاکہ ’’مجھے پہلی بار شوکت خانم اسپتال جانے کا اتفاق ہوا ہے ۔ڈاکٹر فیصل سلطان اور ان کی ٹیم بہت اچھا کام کررہی ہے اور میں یہ ضرور کہوں گی کہ میں شوکت خانم میں دی گئی سہولتیں اور انتظامات سے متاثر ہوئی ہوں ‘‘یقیناً اس ٹویٹ پر مریم نواز کو خاصی تکلیف ہوئی ہوگی انہوں نے حنا پرویز بٹ کو ٹویٹ واپس لینے کا مشورہ بھی دیا ہوگا مگر حنا اپنی بات پر کھڑی رہیں ۔سوری ،بات اُس خواجہ سعد رفیق کی ہورہی تھی جو نون لیگ کے لئے نئے امیدوار تلاش کر نے کے کام پر مامور کئے گئے تھے ۔ہائے ان کا اپنانام بھی پارلیمانی بورڈ میں شامل نہیں ہو سکا ۔خواجہ سعد رفیق ایک بار پہلے بھی تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے ۔وہ معروف کالم نگار اور عمران خان کے ذاتی دوست ہارون الرشید کے ساتھ چلے گئے تھے ۔تمام باتیں طے ہو گئی تھیں تحریک انصاف میں جو عہدہ چاہتے تھے وہ تو انہیں نہیں مل سکا تھا لیکن ایک اچھے عہدے پر راضی ہو گئے تھے ۔اب وہ دن گئے ۔اب تحریک انصاف میں شاید ان کےلئے کوئی جگہ نہیں ۔افسوس کوئی سفارش کرنے کےلئے تیارنہیں ۔البتہ پی ٹی آئی گوجرانوالہ سے عثمان ابراہیم (وزیر مملکت ) کو خوش آمدید کہنے پر تیار ہے۔گزشتہ روز افطاری خورشید قصوری کے گھر کی انہوں نے بہت باتیں بتائیں مگر ابھی آف دی ریکارڈ ہیں۔وہاں سے علیم خان کے پاس گیاوہاں بہت باتوں کی تصدیق ہوئی ۔بس دیکھتے جائیے ۔نون لیگ کو تاش کے پتوں کی طرح بکھرتاہوا ۔نون لیگ دراصل ایک غیر فطری پارٹی ہے ۔مارشل لا کی کوکھ سے نکلی ہوئی پارٹی۔مارشل لا سے برآمد ہونے والی جمہوریت پر کوئی کتنی دیر ایمان رکھ سکتا ہے ۔ایسی پارٹیاں قاف لیگ کی طرح موسمی جھیل بن جاتی ہیں ۔موسم آ ئے جہاں نخل ِ آب پر پانیوں کا بور آجاتا ہےاورموسم جاتا ہے تو ذراسی دھوپ میں پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے پھر وہی حال ہونے والا ہےجو 1999میں ہوا تھا ۔یہ وہ بدقسمت درخت ہے جس پر پرندے اپنے گھونسلے نہیں بناتے شاخوں پر بیٹھے رہتے ہیں اور جیسےہی رُت آتی ہے پرواز کر جاتے ہیں ۔سنا ہے چوہدری نثار علی خان نے بھی اپنے حمایت یافتہ امیداروں سے کہہ دیا کہ نون لیگ کا ٹکٹ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔آزاد ی مرد کا زیور ہے ۔شہباز شریف بھی چوہدری نثار کومناتے مناتے تھک گئے ۔کہا تو یہی ہے کہ انہیں بچوں کی طرح منانا پڑتا ہے مگر وہ راضی ہوتے ہوئےلگتے نہیں انہوں نے بھی شاید آسماں پر لکھا ہوا پڑھ لیا ہے ۔The End
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین