• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے نظیر بھٹو برطانیہ میں نوازشریف کے ساتھ چارٹرڈ آف ڈیموکریسی پر دستخط کرکے چپکے چپکے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ دبئی میں ملاقاتیں کر رہی تھیں۔ پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان خفیہ معاہدے کی تفصیلات بے نظیر کی طرف سے سینیٹر رحمان ملک ، فاروق ایچ نائیک وغیرہ طے کررہے تھے اور پرویز مشرف کی طرف سے طارق عزیز اور جنرل اشفا ق پرویز کیانی مستقبل کے نقشے میں رنگ بھر رہے تھے ۔
مشرف اور بے نظیر کو ایک دوسرے کی ضرورت بھی تھی مگر بیک وقت وہ ایک دوسرے پرمکمل اعتماد سے بھی گریزاں تھے۔ اقتدار کے کھیل میں اعتماد کیا بھی نہیں جاتا اور شاید کرنا بھی نہیں چاہئے۔ اسی فضا میں سارے امور اس وقت کی امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ کونڈو لیزا رائس کی سرپرستی حاصل کئےہوئے تھے ۔ بے نظیر اور مشرف اپنے باہمی معاہدوں کی تفصیلات فون پر کونڈو لیزا رائس کے ذریعے طے کرتے ۔ جس کا اعتراف خود کونڈو لیزا رائس اپنی خودنوشت سوانح عمری میں بھی کرچکی ہیں۔
کھیل اس لئے بھی دلچسپ ہوچکا تھا کہ اس وقت اقتدار میں موجود مسلم لیگ قائد اعظم کو یقین تھا کہ وہ مجموعی طورپر پاکستان اور خصوصی طور پر پنجاب میں چوہدری پرویز الہٰی کی قیادت میں کئے گئے کاموں کے باعث انتخابات جیت کر با آسانی دوبارہ اقتدار میں آجائیں گے۔ بالکل ایسے ہی جیسے آج شہباز شریف یہی امید باندھے کھڑے ہیں۔
بے نظیر نےاس وقت اسٹیبلشمنٹ کے بظاہر سربراہ جنرل پرویز مشرف سے ہاتھ تو ملا لیا تھا مگر اصل اسٹیبلشمنٹ کو شاید بے نظیر قبول نہیں تھیں۔ مسلم لیگ قائد اعظم کے آخری دنوں میں پارٹی کے کبوتر اڑ اڑ کرپیپلزپارٹی میں داخل ہورہے تھےاور واضح نظر آرہا تھا کہ اگلی وزیراعظم بے نظیر ہی ہوں گی۔ بالکل ایسے ہی جیسے آج کبوتراڑ اڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہورہےہیں اور نظر آرہا ہے کہ اگلے وزیراعظم عمران خان ہی ہوں گے۔
ملک کے اندر اسٹیبلشمنٹ کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ ایک ایسی قومی جماعت کی ضرورت تھی جو اقتدار میں آئے مگر رہے بھی طے شدہ دائرہ کار کے اندر۔ مگر آکسفورڈ سے پڑھی بےنظیر کو کنڑول کون کرے گا ؟ سوال اہم تھا بالکل ایسے ہی جیسے آج سوال کیا جاتا ہے کہ آکسفورڈ سے ہی پڑھے عمران خان کو کنٹرول کون کرے گا۔
ملک کے اندر لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید وکلا تحریک اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اسٹیبلشمنٹ کے لئے کوئی چیلنج بنیں گے کیونکہ وہ تو بحالی کے بعد 3نومبر کو دوبارہ گھر بھیجے جاچکے تھے ۔ تاہم وہ مشرف کے ساتھیوں سے دوبارہ مذاکرات کررہے تھے او ریہ کہتے سنے گئے تھے کہ ، ’’مشرف کو کہیے کہ مجھے بحال کرے میں اسے اسپورٹ کروں گا اور وہ مجھے اسپورٹ کرے،‘‘۔ یعنی اندر خانے افتخار چوہدری کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھے۔مسئلہ تھے تو خود پرویز مشرف جو لا ل مسجد اور وکلا تحریک کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ کے طورپر خود پوری اسٹیبلشمنٹ پربوجھ بنے ہوئے تھے۔ دوسرے نمبر پر گجرات کے چوہدری جو بہت رازوں کے امین تھے اور پنجاب میں پرویز الٰہی کی کارکردگی کی بنا پر درست طور پر وزارت عظمیٰ کے امیدوار بھی ۔ بالکل ایسے ہی جیسے اسٹیبلشمنٹ کے پالے پوسے نوازشریف آج خود اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کررہے ہیں اور اس پر بوجھ بن گئے ہیں اور شہباز شریف جو پنجاب میں اپنی کارکردگی کی بنا پر وزارت عظمیٰ کے طلبگار ہیں۔
اس وقت کوئی مشرف کو روک سکتا تھا نہ گجرات کے چوہدریوں کو کیونکہ دونوں خود اعتمادی کے ساتویں آسمان پر براجمان تھے۔
پھر ہوا یہ کہ اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملانے والی بے نظیر جو واضح طور پر وزیراعظم بننے جارہی تھیں ، راستے سے ہٹا دی گئیں۔ بے نظیر کے قتل کا سب سے پہلا الزام اس وقت اسٹیبلشمنٹ پر بوجھ بننے والے پرویز مشرف اور خود اعتمادی کا مظاہرہ کرنے والے چوہدری برادران پر آن پڑا۔ پرویز مشرف کمزور سے مزید کمزور ہوئے اور ق لیگ قاتل لیگ بن گئی۔
انتخابات میں ایک ماہ کی تاخیرہوئی اور لوگوں نے بے نظیر کی شہادت پر اپنے ووٹ سے ان کو سلامی دی اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آگئی۔ تاہم اس کھیل میں پرویز مشرف اور خود چوہدری برادران کچھ کہنے اور کرنے کے قابل نہ رہے۔ وہ جو سب سے زیادہ بااعتماد تھے، قتل کے کیس سے بچتے پھررہے تھے ۔ ق لیگ ، قاتل لیگ بنا دی گئی تھی۔ باقی سب تاریخ ہے۔
2007 کا سال ہم جیسے صحافتی طالبعلموں کے لئے بڑی اہمیت کا سال رہا۔
اس سال افتخارچوہدری کی معزولی اور وکلا تحریک کی بحالی ، لال مسجد آپریشن ، دہشت گردی میں ہوشربا اضافہ ، چارٹر آف ڈیموکریسی ، بے نظیر مشرف خفیہ معاہدہ ، بے نظیر کی وطن واپسی ، نوازشریف کی واپسی ،جلاوطنی اور پھر واپسی اور پھر بے نظیر کا قتل ۔ یہ سب ایک بڑے کھیل کے چھوٹے چھوٹے واقعات تھے مگر ہر واقعے پر کئی کتب لکھی جاچکی ہیں اور نجانے کتنی لکھی جائیں گی ۔
آج ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ سال دوبارہ آگیا ہے ۔ محض کرداروں کو آگے پیچھے کردیجئے۔ طاقت کی روانی بالکل ویسی ہی ہے ۔ عمران خان کے لئے راہیں کھولی جارہی ہیں مگر شاید مکمل اعتماد ان پر بھی نہیں ہے ۔ نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کا بوجھ ہیں اور شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے امیدوار۔ دعا صرف یہ ہے کہ اس بار کوئی قتل نہ ہو اور کوئی لیگ قاتل لیگ نہ بنے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین