• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”الحمرا ہال میں داخل ہوا تو ایک چیخ سنائی دی۔ ہم سب سہم گئے خدا کرے خیریت ہو، ذرا آگے آیا تو آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔ وہیل چیئر پر بیٹھا تھا یہ افضال احمد تھا ۔ تماثیل کا ڈائریکٹر ،فلم اور ٹیلی ویژن کا بڑا فنکار کہ جو گزشتہ 8برس سے بے زبانی کے عالم میں زندہ ہے۔ سب پرانے دوستوں کو دیکھ کر وہ جتنی زور سے چیخ مار سکتا تھا بس یہی اس کے بس میں تھا۔ اس کو دعوت دی گئی تھی عظیم فنکار کا انعام لینے کے لئے۔ الحمرا نے ایک روایت قائم کی ہے کہ ہر سال کانفرنس کے موقع پر ادب، اداکاری اور مصوری میں 2لاکھ کا انعام دیتے ہیں۔ جو اس طرح پانچ لاکھ کا ہو جاتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی طرف سے تین لاکھ کا اضافہ کر دیتے ہیں یہ اعزاز کسی اور آرٹس کونسل کو حاصل نہیں ہے اگر ہے تو مجھے معلوم نہیں۔لاہور آرٹس کونسل نے90/ادیبوں، صحافیوں اور شاعروں کو مدعو کیا تھا۔ موضوع بھی آپ سب کے سامنے جو صورت حال ہے، وہی تھا۔ عطا کا بس چلتا تو پورے ملک کے ادیبوں کو اپنی جھولی میں بھر لیتا۔ بس یہی ذرا سا نقص اس کانفرنس کا تھا ۔ اتنے بہت سے مقررین، اتنے بہت سے سننے والے مگر وقت تو کسی کے لئے ٹھہرتا نہیں۔ اصغر ندیم سید اور خود عطاء الحق قاسمی کی پابندی وقت کی گرفت کمزور پڑ جاتی تھی اور مقررین کبھی کبھی بے مزہ ہو جاتے تھے۔ اصل میں ہر مقرر ایک طویل مقالہ لکھ کر لے آتا ہے کہ ان میں سے بیشتر پروفیسر تھے۔ وہ 75منٹ سے کم بولتے نہیں ہیں، بس یہیں ذرا سا گھپلا ہو گیا کہ ہر سیشن میں کم از کم گیارہ بولنے والے تین …اور تین اظہار خیال کرنے والے۔ میری تو یہاں گنتی ختم ہو گئی مگر مجھے سننا ہر ایک کو تھا ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ چاہے میوزک کا سیشن ہو کہ ڈرامے کا کہ مشاعرہ، لوگ تھے کہ ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ کتنی پیاس تھی لوگوں کی، کچھ سننا چاہتے تھے ،خاص کر میڈیا کے سیشن میں تو زمین کا کوئی حصہ بھی نہیں بچا جہاں خواتین و حضرات نہ سمٹ کر بیٹھے یا کھڑے ہوئے تھے۔ میڈیا کے سیشن میں ایک نقص تھا کہ اب جبکہ اتنی خواتین اینکر ہیں ایک بھی خاتون کی نمائندگی نہیں تھی۔ دل کھول کے اپنے زخم صرف ایک شخص نے دکھائے اور وہ تھے سلیم صافی، باقی تو صفائیاں ہی پیش کر تے رہے۔
موسیقی کے سیشن میں سارہ زمان نے وہ سفارشات پیش کیں جو ایک بین الاقوامی درجے کی تھیں۔ ہم لوگ فیض صاحب کے زمانے سے کہتے آئے ہیں کہ میوزک کے استادوں کو گھر بیٹھے وظیفہ دو اور کہو کہ ایک سال میں کم از کم پانچ شاگرد تیار کرو کہ جن کا مظاہرہ ہر سال آل پاکستان میوزک کانفرنس میں ہوا کرے۔ مگر یہاں سنتا کون ہے۔ مجھے فخر بھی تھا اور ترس بھی آ رہا تھا جب میوزک کے اساتذہ ادھر اور ادھر تھیٹر کے فنکار سخت اداسی کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ ہمارے اندر اتنے سر ٹھہرے ہوئے ہیں۔ تھیٹر کے فنکاروں نے تو یہ تک پیشکش کی کہ ہم بہت کم ٹکٹ پر اچھا کام پیش کرنے کو تیار ہیں۔ ہمارے لئے یہ ملک بھر کی آرٹس کونسلیں کچھ تو کریں ۔غازی صلاح الدین نے بتایا کہ وہ ایک تھیٹر کے باہر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر نوجوانوں سے پوچھنے لگے کہ کیا وہ تھیٹر دیکھنے آئے ہیں۔ نوجوانوں نے کہا کہ یہاں ٹکٹ2ہزار ،ایک ہزار اور پانچ سو کا ہے۔ ہم صرف پانچ سو کا ٹکٹ لے سکتے ہیں ۔پوچھا دیکھنا ہی کیوں، بولے اور کیا کریں شام گزرتی نہیں۔ مجھے یاد آئے انڈونیشیا سے لیکر ارجنٹائن تک کے نوجوان لڑکے لڑکیاں جو چوراہوں کے اوپر، فٹ پاتھ کے اوپر بیٹھے گپیں لگا رہے ہوتے تھے مگر ہمارے ملک میں ایک فاطمہ جناح پارک یا لارنس گارڈن ہے۔ وہاں گھومتے نوجوان جوڑوں سے پولیس نما لوگ آ کر نکاح نامہ مانگتے ہیں یہ کیا ستم ہے کہ نوجوان آزادی سے گھوم نہیں سکتے ہیں۔ پانچ برس بعد ناہید صدیقی نے بن باس چھوڑا اور الحمرا میں پرفارمنس دی۔ کیا پرسکون لہروں کی طرح جھومتی اور آبشار کی طرح لہراتی اداؤں کے ساتھ، اتنا خوبصورت کتھک پیش کیا کہ سارا ہجوم داد دینے کے لئے کھڑا ہو گیا ، پیاسے لوگوں کو کچھ تو ملا۔ یہ حوصلہ تھا قاسمی صاحب کا کہ لاہور آرٹس کونسل کا اسٹیج جو اجڑا ہوا تھا۔ اس پر ناہید صدیقی نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اپنے فن کا مظاہرہ تو عبداللہ حسین نے بھی کیا جب کہا کہ میں نے کبھی کسی سیاست دان کو اپنی کتاب پیش نہیں کی مگر میں شہباز شریف کی ہزار خوبیوں کو سلام پیش کرتا ہوں اور اپنی نئی کتاب بھی ان کی نذر کرتا ہوں۔ سارے لوگ انگشت بدنداں رہ گئے مگر عبد اللہ حسین تو اپنی مرضی کا مالک ہے اس کو اپنے ناول کے ترجمہ کرنے سے کوئی نہیں روک سکا۔
آرٹس کونسل کی یہ کانفرنس تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوئی۔ آئندہ اگر اتنا ہجوم عاشقاں تو ہو مگر ہجوم بولنے والا نہ ہو تو کانفرنس کا مقصد نکل سکتا ہے۔ بہت اچھا یہ لگ رہا تھا کہ کانفرنس کے آخر میں وہ سفارشات تھیں کہ ادیبوں کو جہاز کے آدھے ٹکٹ ملیں اور ایوان صدر میں بلایا جائے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ لاہور کی گرمی کو ایک دم بادلوں نے آکر چھما چھم میں بدل دیا۔ نزلہ گرا ہم لوگوں پر جو جہازسے آنا چاہتے تھے۔ پانچ گھنٹے کے انتظار کے بعد اعلان ہوا کہ فلائٹ کینسل ہو گئی ہے مت پوچھئے کہ کیا بیتی۔ وہی حال ہوا جو مشاعرہ سن کر بے مزہ ہو کرہوا تھا، ہر وہ خوش نصیب جو خود کو شاعر کہلانے کا متمنی تھا اس کی آرزو پوری ہوئی اور مجھے استاد ناطق یاد آتے رہے۔ منیر بادینی مسلسل مجھ سے ان شاعروں کی سند مانگتے رہے اور میں نفی میں گردن ہلاتی گئی، یہاں عطا کی مروت بھی بے بس دکھائی دی اور ہم تھے مجبور محض!
تازہ ترین