• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کیا محض اتفاق ہے کہ فیشن شوز اور کیٹ واک کو ذوالحج کے مقدّس مہینے کے پہلے عشرہ میں ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں منعقد کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کی طرح ذوالحج کے پہلے عشرہ کو اسلامی شریعت میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ عام دنوں کے مقابلہ میں ان مقدّس ایام میں مسلمانوں کو اجرو ثواب کمانے اور آخرت میں جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو اسپیشل پیکج آفر کرتے ہیں مگر ہماری حالت دیکھیں کہ ہم اس خاص موقع پر فیشن شوز اور کیٹ واک کے نام پر عریانیت اور بے حیائی کا دھندا کرتے ہیں۔ دو سال قبل ذوالحج کے پہلے عشرہ میں ہی کراچی کے ایک ہوٹل میں فیشن شو منعقد کیا گیا جس کی ٹی وی چینلز نے خوب نمائش کی۔ نہ صرف ذوالحج کے تقدّس کو پامال کیا گیا بلکہ پاکستان کی سماجی اور معاشرتی اقدار کواس انداز میں روندا گیا کہدیکھنے والوں کے سر شرم سے جھک گئے اور بہت سے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کس قسم کا پاکستان بنانے جا رہے ہیں۔ اس سنگین مذاق پر میں نے 22 نومبر 2010 (15ذوالحج 1431) کو ایک کالم بعنوان ”اگر حیا نہ رہے........“ لکھا جس کو قارئین نے بے پناہ سراہا اور جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ ایسے بیہودہ کاموں کی نمائش سے عام پاکستانی بہت تکلیف محسوس کرتا ہے۔ فحاشی و عریانیت کے موضوع اور اس سلسلے میں میڈیا کے منفی کردار پر بھی میں نے گاہے بگاہے کئی کالم لکھے جس کے نتیجے میں نہ صرف سپریم کورٹ میں اس مسئلہ کو اٹھایا گیا بلکہ قومی اسمبلی نے بھی ایک متفقہ قراردار کے ذریعہ فحاشی و عریانی کی روک تھام کے لیے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے تا کہ پاکستانی معاشرہ کی اسلامی اور سماجی اقدار کو پامال ہونے سے بچایا جا سکے۔ اس سلسلے میں اسپیکر قومی اسمبلی سے مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ پالیمنٹ کی ایک کمیٹی تشکیل دیں جو اس سلسلے میں حکومت کے لیے سفارشات بھی تیار کرے تاکہ پاکستانی معاشرہ کو عریانیت اورفحاشی جیسی لعنتوں سے بچایا جا سکے۔
مگر اس سب کے باوجود ماہِ رواں ذوالحج کے پہلے عشرہ میں ایک بار پھر کراچی کے ایک ہوٹل میں فیشن شو منعقد کیا گیااور تقریباً تمام ٹی وی چینلز نے روزانہ کی بنیاد پر اس فیشن شو کو دکھایا بھی۔ بعض اخبارات نے تو اس فیشن شو میں شرکت کرنے والی ماڈلز کی نیم عریاں تصاویر بھی شائع کیں۔ اس سب کے باوجود تمام حکومتی ذمہ دار خاموش تماشائی بنے رہے۔ حکومت سندھ نے کوئی ایکشن لیا نہ ہی کراچی کی انتظامیہ اور پولیس کے کانوں پر جوں تک رینگی۔ گویا اسلامی تعلیمات اور پاکستان کے آئین اور قانون کو کوئی اہمیت دی گئی نہ ہی حال ہی میں قومی اسمبلی میں پاس کی گئی متفقہ قراردار پر کوئی عملدرآمد ہوا۔ بے حیائی اور عریانیت پھیلانے والے، ریاست اور حکومت سے بھی طاقت ور ہو کر سامنے آئے۔ اور طاقت ور بھی اتنے کہ اپنے دھندے کے لیے مقدس ترین دنوں کا چناؤ کرتے ہیں اور کوئی ذمہ دار کچھ کر نہیں سکتا۔افسوس کا مقام ہے کہ ٹی وی سکرینز پر بیہودگی دیکھنے کے باوجود کسی نے اس کی مذمت کی اور نہ ہی کوئی احتجاج ہوا۔میں پہلے بھی لکھ چکا کہ میرے پیارے نبی کا فرمان ہے کہ ہر دین کا ایک مخصوص شعار ہوتا ہے اور اسلام کا شعار ”حیا “ ہے۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہماری اسلامی اقدار کو تباہ کیا جا رہا ہے اور ہمارے نئی نسل کو ایسے رنگ میں رنگنے کو کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم بھی مغربی معاشرہ کی طرح جانوروں کی سی زندگی بسر کرنا شروع کر دیں جس میں حیا نام کی کوئی شے باقی نہ بچے۔ وہ زندگی جس میں حرام کے بچوں کی پیدائش ایسا معمول بن جائے کہ اُن بچوں کو اپنے باپ کے نام تک کا پتا نہہو اور اُن کو جننے والیوں کو بھی معلوم نہ ہو کہ اُن کے بچے کا باپ کون ہے۔ وہ زندگی جس میں بغیر شادی کے مرد اور عورت کا ساتھ رہنا رواج بن جائے اور شادی کرنا ایک درد سر۔ وہ زندگی جس میں ہم جنس پرستی یعنی عورت کا عورت اور مرد کا مرد کے ساتھ جنسی تعلق بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا جائے۔پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ ایسی جانوروں والی زندگی کو ترقی گردانتا ہے۔ اس طبقہ کو خود کوئی حیا ہے نہ شرم ۔ یہاں ایک بڑی تعدادایسے افراد کی بھی ہے جو پرائی عورتوں کو عریانیت اور فحاشی کے لیے معاشرہ کے سامنے پیش کرتے ہیں یا اُن کو بڑے شوق سے دیکھنے کے لیے جاتے ہیں مگر اپنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کے لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ نیم برہنہ ہو کر دوسرے مردوں کے سامنے کیٹ وا ک کریں ۔ ایسے افراد یاد رکھیں کہ اگر اُن کی یہ بے حسی اسی طرح جاری رہی تو کل اُن کی بیٹی کیٹ واک کر رہی ہو گی اور تماش بین دوسرے ہوں گے۔ یہاں تو ہمارے درمیان ایک ایسا ”کُپی گروپ“ بھی ہے جو فحاشی کے خلاف آواز اُٹھانے والوں کا مذاق اڑاتا ہے اور عریانیت کے دفاع میں ایسی بے شرمی پر اُتر آیا ہے کہ ”کوٹھوں“ کی گندگی کو بھی بڑی عزّت اور شان سے یاد کرتا ہے۔
تازہ ترین