• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب سے پہلے اک شعر پڑھیں اور اپنی اپنی پسند کا مطلب نکالیں۔چکور خوش ہے کہ بچوں کو آ گیا اُڑنااُداس بھی ہے کہ رُت آگئی جدائی کی معصوم، بے ساختہ، برجستہ، مصلحتوں، منافقتوں سے پاک بچپن ریاکاری سے بھرپور بلوغت سے کہیں بہتر ہوتا ہے ورنہ گورے یہ نہ کہتے:"Babies are angles whose wings grow shorter as their legs grow longer."باتوں باتوں میں ’’بچپن بچپن‘‘ کھیلنے کا سلسلہ چوہدری نثار علی خان نے تب شروع کیا جب بچوں کے ’’غیرسیاسی‘‘ ہونے کا اعلان کیا یا طعنہ دیا حالانکہ یہ طعنہ نہیں خراج تحسین ہے اور بچوں کو غیرسیاسی قرار دینے کا مقصد دراصل انہیں غیرمنافق کہنا ہے۔ بات کو پوری طرح سمجھنے کے لئے وہ گھسی پٹی بہت پرانی کہانی یاد کریں جس میں ایک مکار درزی بادشاہ کو بیوقوف بناتا اور اک ’’خصوصی لباس‘‘ پہنانے کی اداکاری سے پہلے دربار میں یہ اعلان کرتا ہے کہ اس لباس کی خاصیت یہ ہے کہ احمقوں اور بے وقوفوں کو دکھائی نہیں دیتا۔ بادشاہ بھی ’’مٹھ‘‘ رکھ لیتا ہے اور لباس کی تراش خراش پر دل کھول کرداد دیتا ہے اور درباری بھی واہ واہ کے ڈونگرے برساتے ہوئے درزی کے فن کی تعریف میں زمین و آسمان ایک کردیتے ہیں۔ پھر بادشاہ اپنے خیالی لباس کو سنبھالتے ہوئے جلوس کی شکل میں باہر نکلتا ہے تو ساتھ ساتھ اعلان بھی جاری ہے کہ آج بادشاہ سلامت نے ایک ایسا خصوصی لباس زیب تن کر رکھا ہے جو بے وقوفوں کودکھائی نہیںدے گا۔ مجمع کو بھی سانپ سونگھ جاتا ہے کیونکہ کوئی ’’بالغ‘‘ بھی خود کو احمق، کودن، گائودی، گھامڑ اور بےوقوف کہلانے پر تیار نہیں کہ اچانک ایک معصوم بچہ مجمع کو چیرتا ہوا آگے بڑھ کر پوری قوت سے شور مچانا شروع کردیتا ہے۔’’بادشاہ تو ننگا ہے‘‘’’بادشاہ تو ننگا ہے‘‘بچے واقعی ’’غیرسیاسی‘‘ہوتے ہیں جوننگے کو ننگا کہہ دیتے ہیں اور یہ کوئی برائی نہیں اچھائی ہے۔ یہ بہت بڑا کومپلی منٹ ہے جسے شاید ٹھیک سے سمجھا نہیںگیا۔ کبھی غور کریں کہ چند اتفاقیہ ایجادات یا دریافتوںکو چھوڑ کر ہر سوچی سمجھی عظیم دریافت، ایجاد کے پیچھے یہی بچپنا، بچگانہ معصومیت اور برجستگی ہی تو موجود ہے ورنہ کس ’’بالغ‘‘میں یہ جرأت تھی کہ اپنےعہد کے مذہبی ٹھیکیداروں کو سرعام جھٹلاتے ہوئے یہ اعلان کرنے کی جرأت کرتا کہ تمہاری تعلیمات و احکامات کے بالکل برعکس زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ یہ گلیلیو کے اندر کا بے خوف، بے ریا بچہ ہی تھا جس نے یہ عظیم آفاقی سچ سفاک جنونی مذہبیوں کے منہ پر دے مارا لیکن جب ۜ’’بالغ گلیلیو‘‘ کو نتائج نظر آئے تو اپنی سچی بات سے ہی مکر گیا کہ یہی فرق ہے ’’بچپنے‘‘ اور ’’بلوغت میں۔‘‘بچپنے والی بات کا کسی کو بھی برا نہیں منانا چاہئے سو اگر شہباز شریف نے چوہدری نثار علی خان کے بچپنے کی نشاندہی کی ہے تو چوہدری صاحب کو برا نہیں منانا چاہئے اور نہ ہی میاں شہباز کو دفاعی پوزیشن اختیارکرنے اور وضاحتیں پیش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی کے منہ پھٹ ہونے کی حد تک سچا ہونے کو اس سے بڑا خراج تحسین ممکن ہی نہیں۔شاعر تو بچپنا چھن جانے پر دُہائی دیتے ہیں؎اسیر پنجۂ عہدِ شباب کرکے مجھےکہاں گیا مرا بچپن خراب کرکے مجھے’’بچپن کی محبت کو دل سے نہ جدا کرنا‘‘ والی التجا کے پیچھے بھی دراصل یہی ہولناک حقیقت چھپی ہے کہ بلوغت کی محبتیں، محبتیں نہیں مجبوریاں اور ضرورتیں ہوتی ہیں، معاہدے اور سمجھوتے ہوتے ہیں، ان کے پیچھے دل کی دھڑکنیں نہیں، لمبی سوچ بچار اور برین سٹارمنگ ہوتی ہے۔شہباز اور نثار دونوں ہی اچھے سیاسی بچے ہیں جو ایک ضدی ہٹ دھرم بوڑھے کو قائل نہیں کرپا رہے تو خیر ہے.....کوئی بات نہیں، وقت جب چاہے گا خود قائل کرلے گا۔ کم از کم یہ دونوں تو انتشار کا شکار ہونے سے بچیں اور اس کی ضرورت کیا ہے؟ کیوں ہے؟ اس پر پھر کبھی روشنی ڈالوں گا۔ فی الحال یہ دونوں اچھے سیاسی بچے..... بچوں کے بارے میں مجھ جیسے بوڑھوں کی چند باتوں پر غور کریں۔"A perfect example of minority rule is a baby in the house."مندرجہ بالا مثال میاں نواز شریف کے لئے کارآمد ہوسکتی ہے۔اورسبحان اللہ Mark Twain کا کیا معرکتہ الآرا جملہ یاد آیا۔"Adam and Eve has many advantages. but the principal one was that they escaped teething."چارلس ڈکنز لکھتاہے۔"Every baby born into the world is a finer one than the last."شہباز شریف نے کہا ’’نثار میں بچپنا ہے اسی لئے کبھی کبھی اسے منانا پڑتا ہے‘‘ تو کاش شہباز نے ’فرینک اے کلارک‘‘کی یہ بات سنی ہوتی ۔"A baby is born with a need to be loved----- and never outgrows it."سیاستدانوں نے مخالفوں اور حریفوںکو خاک برداشت کرنا ہے کہ یہ تو اپنوںکو بھی برداشت کرنے کے اہل اور قابل نہیں۔

تازہ ترین