• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب، ایک ایسے وقت جب ایک نیا دن اور کئی نئی کہانیاں شروع ہوتی ہیں، مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنی پانچ سال کی آئینی مدّت مکمل کی۔ ملک کی تاریخ میں دوسری بار کسی جمہوری حکومت نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے مگر اس راہ میں رخصت ہونے والی حکومت پر کیا گزری، یہ ایک الگ داستان ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں پاکستان کی سیاست میں کئی بھونچال آئے۔ بار بار جیسے پورا نظام لڑکھڑانے لگے۔ عام لوگ سانس تھامے یہ تماشہ دیکھتے رہے۔ شیخ رشید جیسے سیاستدانوں کی لن ترانیاں ان کے کانوں میں گونجتی رہیں۔ ایمپائر نے ہاتھ تو دکھایا مگر انگلی نہیں اٹھائی۔ نواز شریف کو پہلے وزارت عظمیٰ کی کرسی چھوڑنا پڑی اور پھر تاحیات پابندی کی زنجیر ان کے پیروں میں ڈال دی گئی۔ بہت کچھ ہوتا رہا۔ کہانی اپنے موڑ مڑتی رہی اور آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کارواں لٹتا بھی رہا اور چلتا بھی رہا۔ اچھا، یہ جو میں کہانی کا استعارہ استعمال کر رہا ہوں تو سوچ سمجھ کر۔ کہانی یا ڈرامہ۔ ڈرامہ اس لئے بہتر ہے کہ یہ زندہ کردار اسٹیج پر کھیلتے ہیں۔ حاضرین سے براہ راست مخاطب بھی ہوتے ہیں، خودکلامی کے سے انداز میں۔ سیاسی لیڈر بھی جلسے میں اداکاری کرتے ہیں۔ ایک اور تمثیل جسے ہماری سیاست نے زیادہ قبول کیا ہے وہ کرکٹ ہے۔ عمران خان کرکٹ کے ایک عظیم کھلاڑی تھے اور بڑی حد تک یہی ان کی وجۂ شہرت ہے۔ سیاست میں ان کی ٹیم میں نیلام میں بکنے والے کھلاڑی تو بہت شامل ہو گئے ہیں لیکن وہ خود کبھی نو بال کرتے ہیں، کبھی کیچ چھوڑ دیتے ہیں، دو حیرت انگیز مثالیں اسی ہفتے کی ہیں۔ پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کیلئے جب ان کے بلکہ ان کی پارٹی کے نامزد امیدوار کا نام منظور ہو گیا تو اگلے دن انہوں نے یو ٹرن لے لیا۔ اسے آپ وعدہ خلافی کا ایک سنگین واقعہ کہہ سکتے ہیں لیکن دوسری مثال ایسی ہے کہ آپ سنجیدگی سے اس پر غور کریں تو لرز جائیں۔ میرے خدا!یہ باتیں کیسے ممکن ہیں۔ کسی بھی مہذب، جمہوری معاشرے میں ایسی کسی لغزش سے شاید پارٹی کا گراف بہت نیچے گر جاتا اور لیڈر کو اپنے عہدے سے دستبردار ہونا پڑتا۔ آپ سمجھ گئے کہ میں فاروق بندیال کی بات کر رہا ہوں۔ ان کی تصویر عمران خان کے ساتھ میڈیا میں آئی۔ اس اعلان کے ساتھ انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ ذرا سی دیر میں سوشل میڈیا میں اور نیوز چینلز پر بھی یہ طوفان اٹھا کہ ارے۔ ارے، یہ تو وہی شخص ہے جس نے ایک گینگ کے ساتھ 1978میں اس وقت کی سب سے بڑی فلمی اداکارہ شبنم کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ پہلے اسے فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی جو عمر قید میں تبدیل کر دی گئی اور پھر اپنے رسوخ اور دھمکی کے ذریعے اسے شبنم اور اس کے شوہر سے معافی دلوائی گئی۔ میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ فاروق بندیال کا راز افشا ہونے کے بعد پارٹی کو اسے فارغ کرنے میں اتنے گھنٹے کیسے لگے۔
معاف کیجئے گا، ایک تو موسم اتنا گرم ہے اور ہم کراچی والوں کو اس کی عادت بھی نہیں ہے پھر سیاست کی گرمی بھی ہوش اڑا دینے کیلئے کافی ہے۔ میرا مرکزی نکتہ تو مسلم لیگ ن کی حکومت کا اپنی میعاد پوری کرنا ہے۔ یوں جمہوریت کے تسلسل کے دس سال مکمل ہو گئے اور سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو گیا۔ اب آپ یہ دیکھئے کہ مسلم لیگ ن نے یہ کارنامہ کن حالات میں انجام دیا۔ میں نے کہانی یا تھیٹر اور کرکٹ کے کھیل کے استعاروں کا ذکر کیا۔ میرا خیال ہے کہ فلم یعنی سینما اس کی بہتر عکاسی ہے۔ اب یہ دیکھئے کہ کسی منتخب حکومت کا اپنی مدّت پوری کرنا کوئی خاص بات نہیں ہے، یہی ہونا چاہئے اور یہی ہوتا ہے لیکن ہمارا معاملہ دنیا سے الگ ہے۔ پہلے تو منتخب حکومت کا ہونا ہی ایک کمال کی بات ہے پھر اس کا اپنی مدّت پوری کرنا بھی ایک معرکہ ہے۔ ایک اور پہلو بھی ہے اس بات کا…حکومت کی بات چھوڑیئے، کسی وزیراعظم نے اب تک پانچ سال کی مدّت پوری نہیں کی۔ عام طور پر جب کوئی حکومت اپنی آئینی مدّت پوری کر رہی ہوتی ہے تو ملک میں سیاسی کشمکش کا غوغا مدہم پڑنے لگتا ہے اور زیادہ توجّہ آنے والے انتخابات پر مرکوز ہوتی ہے۔ یہاں صورتحال بالکل مختلف رہی۔ شروع ہی سے اس حکومت کو ہٹانے کیلئے دھرنے اور دوسرے سیاسی کرتبوں کا سہارا لیا گیا۔ مسلسل یہ پیش گوئیاں سننے کو ملتی تھیں کہ یہ حکومت اب گئی کہ تب گئی۔ یوں اس حکومت کے آخری دن ایک فلم کے کلائمکس یا نقطۂ عروج کا منظر پیش کرتے ہیں۔ یہ جو فلم کا آخری سین ہوتا ہے اس کی ایک فارمولا قسم کی تشکیل ہوتی ہے۔ اس کا ایک نام ’’چیز سیکیونس‘‘ بھی ہے یعنی کسی قسم کی دوڑ یا ریس۔ منیر نیازی تو ہمیشہ دیر کر دیتے تھے اور کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانے سے محروم رہتے تھے۔ فلم میں ہیرو یا ہیروئن کی عزت اور آبرو کا پرچم آخری منظر میں بلند ہوتا ہے۔ کسی بھی فلم اور خاص طور پر سنسنی خیز کہانی کا ایک انجام کافی جانا پہچانا ہے، وہ یہ کہ ہیروئن کو کسی نے ریل کی پٹری پر باندھ دیا ہے۔ ایک طرف سے ریل آ رہی ہے اور دوسری طرف سے اسے بچانے والے اپنے راستے کی رکاوٹوں سے الجھتے اسے بچانے کیلئے دوڑ رہے ہیں۔ تمام ناظرین اپنی اپنی سیٹوں کے کنارے پر ٹکے ہوئے سانس روکے اس منظر کو دیکھتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کے اسکرپٹ کے کچھ حصّے کسی نے بھی لکھے ہوں، کئی حقائق واضح ہیں ،گویا گزشتہ مہینوں کی حکایت ہمہ گیر سچّائیوں پر مبنی ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری دن مار دھاڑ سے بھرپور ہیں۔ حکومت کو ہر طرح کے خلفشار کا سامنا تھا۔ جب ہم انتخابات کی بات کرتے ہیں تو سب سے بڑا سوال یہ ہوتا ہے کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا؟ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کا اپنی مدّت پوری کرنا بھی اس کی ایک ایسی جیت ہے جس میں کئی ڈرامائی موڑ پنہاں ہیں۔ وہی فلم کے آخری سین والی مثال دی جا سکتی ہے۔ اگر کرکٹ کے کھیل کی مثال دی جائے تو جیسے آخری گیند پر آخری کھلاڑی کو ایک چھکّا لگانا ہے اور وہ کھلاڑی خود زخمی بھی ہے۔ شاید آپ کو ایسی کوئی فلم یاد بھی آ جائے۔ آپ کا جی چاہے تو آپ یہ رول شاہد خاقان عباسی کو دے دیں۔ یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ انتخابات سے پہلے کا سیاسی ماحول کیسا ہے؟ صرف دو خبروں کا حوالہ کافی ہے۔ ایک تو ملک کے معتبر تھنک ٹینک پلڈاٹ کی یہ رپورٹ کہ قبل از انتخاب جو سیاسی ماحول ہے وہ شفاف نہیں۔ دوسری خبر اخبارات کے مالکان کی تنظیم کی ایک تقریب سے متعلق ہے۔ میں صرف اس اخبار میں شائع ہونے والی سرخی نقل کر دیتا ہوں۔ ’’ملک میں آزادیٔ صحافت پر خطرناک حملے ہو رہے ہیں، صدر اے پی این ایس۔‘‘

تازہ ترین