رہے نام اللہ کا
تھکی ہاری حکومت اپنی مدت پوری کر کے چلی گئی، اس قدر جانفشانی اور کارکردگی دکھانے کے بعد اس وقت وہ کس قدر آرام محسوس کر رہی ہو گی، سارے منصوبے وہ چاہے اپنے تھے یا عوام کے، مکمل کئے۔ جس نعرے پر آئی تھی، اسی نعرے پر ختم ہوئی، اور یہ بھی کہہ گئی اب لوڈ شیڈنگ جانے تم جانو، یہ ہے وہ عوام سے پیار جسے نبھاتے نبھاتے دو پیار بھرے لفظ بھی بھول گئی، بہرحال ایک کامیابی جس کا کریڈٹ نہ جانے کسی کو جاتا ہے، ضرور ملی کہ جمہوریت کا سفر جاری رہا، اور جاری ہے، اب عوام اپنے لئے کس کا انتخاب کرتے ہیں کیونکہ اب گیند ان کے کورٹ میں ہے، لگتا تو یہ ہے کہ وہی کچھ ہو گا جو ہر دور میں ہوتا رہا، جمہوریت کے سائے تلے بھی محرومیاں پلیں گی اور اگر عوام نے کوئی معجزہ دکھا دیا تو وہ سارا ریکارڈ سامنے رکھ کر فیصلہ کرے گی، سردست تو عوام کی عدالت سے اتنی استدعا ہے کہ انتخابات ملتوی نہ ہونے دیں۔ بروقت شفاف انتخابات ہی ان کے فائدے میں ہیں، اپنے نقصان سے بچیں، اچھی شروعات کریں، کاندھوں پر جبر و نا اہلی کو سوار نہ ہونے دیں، امن برقرار رکھنے میں تعاون کریں، کاش ہم بھی ان قوموں میں سے ہوتے جسے کیئر ٹیکر حکومت کی ضرورت ہی پیش نہ آتی مگر شاید ہم چاہیں تو کبھی یہ منزل بھی حاصل کر لیں، اب گلہ شکوہ، طعنہ زنی، گالم گلوچ سے اجتناب کرنا چاہئے، اللہ تعالیٰ سے دعا اور اپنی طرف سے دوا کے راستے پر چلیں، جتنی کوشش کریں گے اتنا ہی پائیں گے، ایک ہی معیار پر قائم رہیں کہ کرپٹ کو آگے نہ آنے دیں اور دیانتدار کو پیچھے نہ جانے دیں، اب تبصرے کرنا اور جو چلے گئے ان کو زیر بحث لانا غیبت ہو گی اور وقت کا ضیاع بھی، اس لئے مقررہ تاریخ سے انتخابات آگے پیچھے نہ ہونے دیں، اور سب سے ضروری بات یہ کہ اب تو اخلاق کا دامن پکڑ لیں، اللہ بھلی کرے گا۔
٭٭٭٭
پتا پتا، پتا جانے ہے
چوہدری نثار:شہباز شریف کو بچپنے اور سنجیدگی میں فرق نہیں پتا، شاید پتا ہوتا تو وہ کسی اور کو کہتے کہ اس میں بچپنا ہے، اور ممکن ہے سنجیدہ، کہنہ مشق اور ن لیگ کو مشکل وقتوں میں سنبھالنے والے چوہدری نثار سے کوئی بچپنا ہو گیا ہو، جس کا انہیں ریوارڈ دیا گیا۔ ویسے ہم سب بچپنے کے شوقین ہیں، اس لئے تو غموں سے نڈھال گاتے پھرتے ہیں
کہاں گیا میرا بچپن خراب کر کے مجھے
حقیقت تو یہ ہے کہ بچپنا ایک چناہ گاہ بھی ہے، جسے ہم بالغ ہو کر استعمال بھی کرتے ہیں، کیا پتا شہباز شریف نے چوہدری صاحب کو یا خود کو بچانے کی نیت سے انہیں بچہ کہہ دیا ہو، کہ بچوں سے غلطی ہو جائے تو ان پر گرفت نہیں ہوتی، جیسے ہمارا دل بھی ہم سے کیا کیا کراتا ہے اور پھر جب اوندھے منہ گرتے ہیں تو کہتے ہیں؎
دل تو بچہ ہے کچھ کچا ہے
کہیں نفس کو تو دل نہیں سمجھ بیٹھے، کہیں حبس کو تو ہوا نہیں جان بیٹھے، اور جب کچھ کرنے کی جرأت نہیں کرتے تو قناعت کی چادر اوڑھ لیتے ہیں، یہ قناعت ہے یا شتر مرغ پالیسی، بہرحال عرف عام میں تو شہباز شریف نے وہی کیا جو ایک کشمیری کسی راجپوت سے کرتا ہے، یہ بھی مشہور ہے کہ شہباز شریف، نثار چوہدری کو منانے کے ایکسپرٹ ہیں، یہاں سے ہمیں کچھ کچھ یقین ہونے لگتا ہے کہ شہباز شریف کے ریمارکس درست تو نہیں، بہرحال پتا پتا، پتا جانے جانے نہ جانے بچہ نہ جانے۔
٭٭٭٭
جو بچا ہے وہ لٹانے کے لئے نہیں آئے
جاتے جاتے یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ عدلیہ نے نیب نے حکومت مفلوج کر دی، عدلیہ کو اللہ نے زندہ کیا، اور اس نے نیب کو، اگر یہ دو ادارے بھی نہ ہوتے تو حکومت نہ جانے مزید کس کس شعبے پر فالج گراتی، اب کوئی آئندہ انتخابات میں یہ کہتے ہوئے پرچی نہیں ڈالے گا
جو بچا ہے وہ لٹانے کے لئے آئے ہیں
جیسے ایک کام نہ جاننے والا کاریگر اپنے اوزاروں سے لڑتا ہے، یہ باتیں سنائی دیں گی کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا گیا، ٹروتھ کمیشن بنے اور بتائے کہ ’’کونسے‘‘ کام نہیں کرنے دیئے گئے، کیا ابھی مزید کچھ کر گزرنے کی بھی خواہش تھی، تین بڑی جماعتیں میدان میں ہیں، عوام کے پاس اب ویٹو ہے، وہ جسے مناسب سمجھیں اپنی خدمت کا فریضہ سونپیں، آج میڈیا پل پل کی خبر دے رہا ہے، اب عیب پوشیدہ رہتا ہے، نہ اچھائی، اور اب میڈیا کا بھی امتحان ہے کہ نہ جھکے نہ بکے، اور اگر کوئی ایسا کرنا چاہے تو ایک پیج پر اس کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہو جائے میڈیا نے بڑی آگہی دی ہے، وہ اپنا چلن جاری رکھے گی، قوم سے مراد 70برسوں کی حکومتوں نے عوام قرار دے دیئے ہیں، عوام ہی قوم ہیں، اور یہ قوم محروم ہے۔ مجبور ہے، بیروزگار ہے، مگر یہ سب تنہا حکمرانوں کا کیا دھرا نہیں عوام بھی اس میں برابر کے شریک رہے، ووٹ جیسا ویٹو جب غلط استعمال کیا تو پھر 70برس استعمال بھی ہوئے معاوضہ بھی نہ ملا، ٹیکس وہ دیتے رہے جو ٹیکس دینے کی سکت نہیں رکھتے اور عیش وہ کرتے رہے جو ٹیکسوں کے پیسے سے عیش بھی کرتے رہے، اور اپنا ٹیکس چوری کرتے رہے، سب کچھ لٹا کے جاگنے پر بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭
سب کچھ تاریخی نہیں ہوتا
....Oنواز شریف:آج (یکم جون) کے دن سب کچھ ہی تاریخی ہے۔
تاریخی فقط کارنامے ہوتے ہیں اور ہم نے 70 برسوں میں سب کچھ دکھایا کارنامہ نہیں دکھایا۔
....Oنہ جانے ملوکیت کا نشہ کب اترے گا کہنے کو جمہوریت بھی پال رکھی ہے مگر ایک اینکر پرسن کو بھی ملکہ کہنے سے نہیں چوکتے، شاید ہم مبالغہ آرائی کے شوقین ہیں سچ سے پیٹ نہیں بھرتا، جھوٹ سے دل نہیں بھرتا، ملوکیت ایک ذہنیت ہے جمہوریت ایک طرز عمل۔
....O فاروق بندیال پی ٹی آئی میں قبول مگر ماضی کے داغ پر پی ٹی آئی اسے نکالنے پر مجبور، خان صاحب آپ کا مسٹر بندیال سے گرم جوش مصافحہ دیکھ کر فراز کا مصرع یاد آیا
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
....Oعمران خان:حکومت سے نجات پر قوم شکرانے کے نوافل ادا کرے۔
یہی ناپختہ کاریاں کہیں نو آموز کو ڈبو نہ دیں، اگر وہ حکومت کے جانے پر خاموش رہتے اپنے فیصلوں پر قائم رہتے تو ان کی پذیرائی میں اضافہ ہوتا، محتاط ہو جائیں کہیں پی ٹی آئی، پی ٹی گئی نہ ہو جائے۔
....Oوزیراعظم عباسی:علی جہانگیر کو میں نے میرٹ پر پاکستان کا سفیر تعینات کیا۔
اس میں کیا شک ہے۔