• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں میری بھتیجی نوشین نے کہا ، انکل! ایک سوال بہت دنوں سے کھٹکتا ہے کہ جس قوم کے پاس زکوۃ جیسا سسٹم موجود ہے میں نہیں سمجھ پاتی کہ وہ قوم غریب کیوں ہے؟ کیونکہ میرا مطالعہ تو یہ ہے کہ زکوۃ جس قوم کے پاس ہو وہ غریب نہیں رہنی چاہئے۔آپ کےپاس اس کا تشفی بخش جواب کیا ہے ؟‘‘
میں نے نوشین کو بتایا کہ جس طرح ادھار محبت کی قینچی ہے اسی طرح دولت انسانیت کی قینچی ہے، علم دین کا تعلق جب تک روٹی ،روزی، سے نہ جڑے گا انسان علم دین سے غافل ہی رہے گا کہ بیشتر لوگ اپنے مفادات کیلئے مذہب کو تو مانتے ہیں لیکن مذہب کی بات کو نہیں مانتے، موجودہ زمانے میں علم دین کے شعبے میں مادی فوائد بہت کم ہوگئے ہیں اس کے بجائے دینوی اور مادی شعبوں میں مالی فوائد بے پناہ حد تک بڑھ گئے ہیں اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ اعلیٰ ذہن اور اعلیٰ صلاحیت کے لوگ غیر دینی شعبوں کی طرف بھاگ گئے ۔ میں نے اس طویل تہمید کے بعد نوشین کو بتایا کہ نظام زکوۃ اسلام کا وہ مستحکم نظام ہے جس کے صحیح طور پر رائج ہونے سے پورے مسلم معاشرے کی معاشی حالت درست ہوسکتی ہے اور مسلمان مالی پس ماندگی سے اوپر اٹھ سکتے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مسلم معاشرے میں زکوۃ کا نظام مکمل طور پر رائج نہیں ہے بہت سے صاحب ثروت اور صاحب نصاب زکوۃ ادا نہیں کرتے اور جو لوگ زکوۃ ادا کرتے بھی ہیں ان کا مصرف مناسب نہیں ہوتا اس لئے زکوۃ کی رقومات نکلتی بھی ہیں ان کا بڑا حصہ ضائع ہوجاتا ہے ۔وطن عزیز میں اجتماعی زکوۃ کے نظام پر کام نہ ہونےکے برابر ہے میرے حساب سے بہت سے صاحب نصاب تو زکوۃ کے مسائل سے بھی ناواقف ہیں۔ میں نے مزید تفصیلات میں جاتے ہوئے اسے بتایا کہ زکوۃ ہر مسلم پر فرض ہے جس کے پاس نصاب کے بقدر مال ہو، زکوٰۃ کا نصاب87گرام(480ملی گرام) سونا یا اسکی قیمت کے بقدر چاندی، رقم یا سامان تجارت ہے۔ ایسا نصاب جب سال بھر کسی ملکیت میں رہے تو اس پر زکوۃ فرض ہوجاتی ہے، صاحب نصاب اگر کسی سال کی زکوۃ پیشگی دے دے تو یہ بھی جائز ہے البتہ اگر بعد میں سال پورا ہونے سے پہلے مال بڑھ گیا تو اس اضافی مال کی زکوۃ بھی دینا ہوگی جس قدر مال ہے اسکا40واں حصہ دینا فرض ہے یعنی ڈھائی فیصد، سونے یا چاندی یا جس مال تجارت پر زکوۃ فرض ہے اسکا 40واں حصہ دینا بھی صحیح ہے مگر قیمت خرید نہ لگے گی بلکہ زکوٰۃ فرض ہونے کے بعد بازار میں جو قیمت ہوگی اس40واں حصہ دینا ہوگا ۔ کسی فقیر کو اتنا مال دے دینا کہ جتنے مال پر زکوۃ فرض ہوتی ہے مکروہ ہے، مقروض کواس کے قرضہ کے بقدر یعنی جس سے اس کا قرض ادا ہوسکتا ہے دینا جائز ہے خواہ قرض کتنا ہی ہو زکوۃ ادا کرنے کیلئے ( یاہونے کیلئے) پہلی شرط یہ ہے کہ جورقم کسی مستحق زکوۃ کودی جائے وہ اسکی کسی خدمت یا عمل کے معاوضہ میں نہ ہو صرف اللہ کیلئے ہو ایسا کرکے آدمی اپنے دل سے مال کی محبت کو نکالتا ہے وہ اس یقین کو تازہ کرتا ہے کہ اس کے پاس جو مال ہے وہ خدا اور اس کے بندوں کی امانت ہے نہ کہ اسکی ذاتی ملکیت اس طرح وہ اپنے اندر اس احساس کو جگاتا ہے کہ اس کے اوپر دوسروں کا حق ہے زکوۃ کی ادائیگی کیلئے یہ بھی شرط ہے کہ زکوۃ کی رقم مستحق زکوۃ کو مالکانہ طور پر دی جائے جس میں اسکو ہر طرح کا اختیار ہو اسکے مالکانہ قبضے کے بغیر زکوۃ ادا نہ ہوگی جب ایک آدمی زکوۃ کے تحت کسی کو کچھ دیتا ہے تو بظاہر وہ کسی غیر کو دےرہا ہوتا ہے مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کا رخ خوددینے والے کی طرف ہوتا ہے دوسروں کو دے کر آدمی خود اپنی مددکا اہتمام کرتا ہے، زیور، برتن، فرنیچر حتیٰ کہ سچاگوٹہ واصل زری کاکام ( چاہے کپڑوں پر لگے ہوں) سونے چاندی کے بٹن اور انگوٹھی وغیرہ پربھی زکوۃ فرض ہے کسی کے پاس کچھ روپیہ ، کچھ سونا، کچھ چاندی اور کچھ مال تجارت ہے مگر علیحدہ علیحدہ ان میں سے کوئی بھی بقدر نصاب نہیں ہے تو سب کو ملا کر دیکھیں گے اگر مجموعی قیمت612گرام چاندی کے برابر ہو جائے تو زکوۃ فرض ہوجائے گی اور اگر اس سے کم رہے گی تو اس پر زکوۃ فرض نہیں۔ یاد رہے کہ نصاب میں چاندی کا اعتبار کیا گیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملت اسلامیہ میں زکوۃ کے اجتماعی نظم کا تصور نہیں ہے اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زکوۃ کی رقومات سے جن بڑے اور قابل قدر منصوبوں کوعملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے وہ تکمیل کے مراحل تک پہنچ ہی نہیں پاتے جب تک زکوۃ کا اجتماعی نظام اپنی جڑیں نہیں پھیلائے گا ہمیں کامیابی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ ہر صاحب نصاب کو سب سے پہلے یہ سوچنے اور اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ زکوۃ کا اسلامی نظام کتنا جامع اور سہمہ گر ہے اور اس سے ملت مسلمہ کو کتنا فائدہ ہوسکتا ہے۔ کشور حسین شادباد میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مسلمانوں کی تعداد19کروڑ سے زائد ہے اگر ان19کروڑ میں سے صرف ایک کروڑ مسلمان بھی زکوۃ ادا کرتے ہوں اور ان کی زکوۃ اوسطاً دوہزار روپے بھی ہوتی ہوتو یہ سمجھ لیجئے کہ ہر سال ہمارے پاس دوہزار جیسی خطیر رقم جمع ہوسکتی ہے ( جبکہ یہ محض ایک مثال ہے میرے حساب سے اس سے کئی گنا زیادہ رقم بطور زکوٰۃ نکالی جاتی ہے) ذرا سوچئے کہ یہ کتنی بڑی رقم ہے اور اگر یہ رقم ہمارے سامنے ہو توہم اسے صحیح طور پر گننا تودرکنار آنکھ بھر کے دیکھ بھی نہ پائیں گے ۔ اب یہ سوچئے کہ اگر اتنی خطیر رقم ( جبکہ18کروڑ مسلمانوں کو ابھی چھوا بھی نہیں گیا) جوکہ صرف ایک کروڑ مسلمانوں کی ادائیگی زکوۃ کی مد میں اکھٹی ہوئی اس سے مسلمانوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے کتنے اور کیسے حیرت انگیز کام کیے جاسکتے ہیں؟ آج مسلمان غریب اس لئے ہے کہ اس کے پاس روزگار نہیں ہے، علم نہیں ہے، روزگار اور علم حاصل کرنے کیلئے اسے در در کی ٹھوکریں بھی کھانی پڑتی ہیں اور فرصت وخواری کے مسائل سے بھی گزرنا پڑتا ہے میں جانتا ہوں مسائل کا رونا رونا ایک بات ہے اور مسائل کو پہچاننا اورانہیں بروئے کار لانا دوسری بات ہے ملک شاد باد کے باسی 70سال سے مسائل کارونا ہی روتے آئے ہیں اور وسائل کی تنظیم کی طرف کبھی راغب نہیں ہوئے اسکی کیا وجہ ہے؟ میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئے۔!
کررہا ہوں میں ایک پھول پر کام
روز ایک پنکھڑی بناتا ہوں

تازہ ترین