• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا سوال تھا کتاب مشکل میں ڈال دیتی ہے۔ وطن سے دور کینیڈا کے شہر ملٹن میں دوستوں اور مہربانوں کی منڈلی میں میرا سوال کچھ لوگوں اور دوستوں کے لئے حیران کن تھا۔ اصل میں افطاری کے بعد یہ نشست جمی تھی۔ میرے ایک مہربان کا سوال جنرل(ر) اسد درانی کی حالیہ کتاب کے بارے میں تھا۔ ان کا سوال تھا’’جنرل اسد درانی کو ایسی کتاب کیوں لکھنی پڑی‘‘۔ میں نے سب لوگوں سے پوچھا اور سوال کیا’’کتاب مشکل میں ڈال دیتی ہے؟‘‘۔ سب لوگ خاموش تھے۔ اس نشست میں ہماری دوست شانتی دیوی بھی تھیں۔ وہ فوراً بولی، کتاب ہر جگہ مشکل میں ڈال دیتی ہے اور پھر مشکلات کا حل بھی دیتی ہے، اگر کتاب سمجھ میں نہ آئے تو مشکل اور اگر آپ کی پسند کی کتاب ہو اور پڑھ کر لطف بھی آئے، تو ایسی کتاب کا آپ دوسروں کو بھی بتاتے ہو۔ میں نے بھی اسد درانی اور بھارتی مصنف دولت کی کتاب کا کافی سنا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں شاید لکھی گئی ہے۔ ان کے اس جواب پر ایک نوجوان بولا، میں نے انٹرنیٹ پر کتاب کے کچھ حصے پڑھے ہیں۔ کافی دلچسپ لگی، جنرل مشرف کی کافی تعریف کی گئی ہے۔ میں نے اس کو ٹوکا اور پوچھا آپ کو ایسی کتابوں کا شوق ہے۔ اس نے میرا سوال سنا اور مجھے حیرانی سے دیکھا اور پھر آہستہ سے پوچھنے لگا ایسی کتابوں سے کیا ...... مطلب۔ شانتی دیوی نے میری مدد کی اور بولی۔ مطلب یہ ہے تم بین الاقوامی سیاست اور تعلقات کے بارے میں کتابوں کا شوق رکھتے ہو۔ اس کا جواب تھا، مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق ہے اور اگر معلومات سے بھرپور ہوں تو کیا کہنا اور جنرل اسد اور دولت کی یہ کتاب بہت مرچ مصالحہ والی ہے۔
ہماری یہ نشست کینیڈا کے شہر ملٹن میں ہورہی تھی میں کچھ دن کے لئے یہاں آیا ہوں تو پرانے دوستوں نے مل بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ ماہ رمضان کی وجہ سے افطاری کے بعد سب لوگ آئے۔ پھر اگلا دن چھٹی کا ہے اس لئے رات گئے تک محفل جمی۔ میں اور شانتی دیوی ایسے لوگ تھے جو مقامی نہیں تھے۔ شانتی دیوی کو کتابوں کا بہت شوق ہے وہ آج کل سائوتھ افریقہ میں رہتی ہے، وہ کل ہی مجھ سے نسیم زہرا کی کتاب ،کارگل کے حوالہ سے بات کررہی تھی اور اس کا تقاضا تھا کہ میں پاکستان جاکر اس کو کتاب روانہ کروں، نسیم زہرا کی کتابFrom Kargil to the coupکا کافی عرصہ سے تذکرہ سن رہا تھا وہ یقیناً ایک اچھی اور معلوماتی کتاب ہوگی۔ نسیم زہرا نے کافی تحقیق بھی کی ہے اور کافی وقت بھی لگایا ہے۔ اب ہم سب لوگ ایک دفعہ پھر اسد درانی اور دولت کی کتاب کی بات کرنے لگے۔ اسد درانی ذرا مختلف قسم کے جنرل نظر آتے ہیں۔ جنرل (ر) درانی پر الزام ہے کہ انہوں نے جنرل بیگ کے کہنے پر میاں نواز شریف کو الیکشن کے لئے پیسے دئیے اور آج کل اصغر خان کیس میں اس معاملہ پر تحقیق ہو رہی ہے۔ جنرل (ر) اسد درانی کو بینظیر بھٹو نے اپنے دور میں جرمنی میں پاکستان کا سفیر بھی لگایا۔ یہ تحقیق کے آدمی ہیں۔ بینظیر بھٹو کے ڈائریکٹر ایف آئی اے رحمٰن ملک نے جنرل (ر) اسد سے ایک دستاویز پر دستخط بھی کروائے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل (ر) اسد اور جنرل (ر) مشرف ایک زمانہ میں کوئٹہ کے عسکری ادارے میں انسٹرکٹر بھی تھے اور جنرل مشرف جو اس وقت کرنل تھے ان سے بہت تنگ تھے مگر بعد میں انہوں نے جنرل (ر) اسد درانی کو سعودی عرب میں سفیر بھی لگایا اور تقریباً دو سال کے بعد فارغ بھی کردیا، مگر جنرل (ر) مشرف جنرل (ر) اسد درانی کو پسند بھی کرتے ہیں اور پھر کبھی کبھی جب وہ دوبئی میں فوجیوں کی محفل ہو اور اسد درانی کا ذکر آئے اور جنرل مشرف محفل کے مزے میں ہوں تو پھر اسد درانی کے بجائے بڑی ادا سے ’’جنرل حسد درانی ‘‘کہتے اور بہت بلند قہقہہ لگا کر کہتے’’ کوئی شک نہیںHe is gentelman۔
گزشتہ چند سالوں میں چند ایسی کتابیں بھارت میں چھاپی گئی ہیں۔ میاں نواز شریف کے دوست اور سفیر حسین حقانی جو بعد میں بینظیر کے قریب ہوگئے اور پھر سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے ان کو امریکہ میں درجہ اول کا سفیر لگایا ان کی کتاب نے بھی کافی شورو غل مچایاPakistan between mosque and milltaryاگرچہ ان کی کتاب کافی حقائق پر مشتمل نہیں اور وہ آج بھی امریکہ میں مختلف اداروں میں پاک و ہند کے حوالہ سے مشاورت کرتے نظر آتے ہیں مگر ان کی کتاب کو انڈیا میں کافی پسند کیا گیا جبکہ اسد درانی کی کتاب پر بھارت میں تقریب بھی ہوئی اور بھارت نے اسد درانی کو ویزا دینے سے انکار کردیا۔ میری اس بات پر سارے دوست حیران تھے کہ بھارت نے ایسا کیوں کیا، میرا اندازہ ہے کہ بھارت میں بی جے پی کی سرکار کا خیال ہے کہ اس طرح سے بھارت کے بارے میں لوگ سوال پوچھتے اور اسد درانی اس معاملہ میں خاصے کھرے ہیں اور انہوں نے مودی سرکار پر تنقید کرنی تھی اور باور کروانا تھا کہ بھارت اس خطہ میں امن کے لئے سنجیدہ نہیں ہے۔ بھارت ایک جنونی کیفیت سے دو چار ہے وہاں بھی اگلے سال الیکشن ہونے جارہے ہیں اور مودی سرکار کو خطرہ ہے کہ لوگ ان سے مایوس نظر آرہے ہیں۔دوسری طرف جنرل درانی کو پاکستان نے بھی ای سی ایل میں ڈال دیا ہے۔
شانتی دیوی کہنے لگی ایک کتاب جنرل (ر) شاہد عزیز نے لکھی تھی ان کی کتاب کا نام ’’یہ خاموشی کہاں تک‘‘ بہت ہی شاندار کتاب ہے۔ اس کتاب کے چھپنے کے بعد جنرل (ر) مشرف بہت مشکل کا شکار تھے ان کی کتاب میں کارگل کا ذکر بھی ہے۔ اس وقت بھی کارگل کا معاملہ بھارت اور پاکستان میں متنازع ہے۔ جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں کارگل کا ذکر بھی کیا ہے مگر دونوں کے درمیان فرق بہت ہے۔ جنرل (ر) شاہد عزیز کی کتاب پر بھارت میں کافی تبصرے ہوئے۔ جنرل (ر) شاہد عزیز نے کتاب کے حوالہ سے کہا تھا کہ میں نے جنرل مشرف کا ساتھ دے کر غلطی کی تھی اور یہ کتاب میرا اعتراف جرم بھی ہے اور اس کی تلافی بھی۔ میں نے شانتی دیوی کو روک کر پوچھا۔ جنرل (ر) مشرف اور جنرل (ر) شاہد کی کتابوں میں سے کون سی بہتر تھی۔ وہ فوراً بولی جنرل (ر) شاہد عزیز کی کتاب تاریخی ہے۔ ایک اور دوست نے سوال کیا کہ آج کل جنرل (ر) شاہد عزیز کہاں ہیں اس پر خاموشی تھی، پھر مجھ کو ہی بتانا پڑا کہ اس خبر کی صداقت کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ جنرل (ر) شاہد عزیز کافی عرصہ سے لاپتہ تھے اور اب سننے میں آیا ہے کہ وہ افغانستان میں تھے اور شاید شہید ہوگئے ہیں۔ ان کے خاندان کے لوگ اور ہماری سرکار اس معاملہ پر بات کرنے کو تیار نہیں، میری اس بات پر سب حیران اور سوگ میں تھے۔ اب کافی رات ہوچکی تھی ایک دفعہ پھر کافی کا آرڈر دیا گیا۔ ہمارے ایک ساتھی کا سوال تھا کہ جنرل (ر) درانی کی کتاب کی اشاعت کا ٹائم بھی قابل غور ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے، وہ کہنے لگے اس وقت سابق وزیر اعظم نواز شریف شدید عدالتی مشکلات سے دوچار ہیں اور پھر ان کا بیانیہ جو انہوں نے ملتان میں خصوصی طور پر انگریزی اخبار کو دیا وہ بھی ان کے خلاف جارہا ہے اور انہوں نے فوج پر الزام لگایا تھا کہ وہ مداخلت کرتی ہے۔ اب جنرل (ر) درانی کی کتاب بھی ایسی زبان بولتی لگ رہی ہے، ایسے میں جنرل (ر) درانی کی کتاب ان کی مدد کرسکتی ہے۔
میرا جواب تھا جنرل (ر) درانی کو ان کے ادارے نے مدعو کیا ہے کہ اپنی صفائی پیش کریں۔ نواز شریف نے مطالبہ کیا ہے کہ ایک کمیشن بنایا جائے اب تک جتنے بھی کمیشن بنے ہیں ان کا کوئی نتیجہ نظر نہیں آتا۔ میرا خیال ہے کمیشن بنانے کا مقصد حقائق کی سچائی کو جاننا اور اس کے بعد سب لوگوں کے لئے معافی کا اعلان۔ اس طرح نواز شریف اور دیگر سیاسی لوگ بچ سکتے ہیں۔ میں نے کہا یہ سب کچھ ابھی قبل از وقت ہے۔ انتخابات کے بعد اس کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔ مجھ کو افسوس تھا کہ ان انتخابات میں بھی تارکین وطن کو ووٹ کا حق نہیں ملا۔

تازہ ترین