• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت نے تسلسل کے ساتھ 10سال مکمل کرلیے اورحکومت اور اپوزیشن کامکمل اعتماد کےساتھ نگران وزیراعظم پر اتفاق ہوجائے تو اس سے بہتر اختتام اورکوئی ہوہی نہیں سکتا۔ میری خواہش ہے کہ صوبائی وزرائےاعلیٰ کے ناموں کا اعلان بھی اسی جذبے کے ساتھ ہوجائے۔ ایک بات یقینی ہے کہ باقاعدہ الیکشن کے ذریعے نظام کا تسلسل ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے کیونکہ یہ احتساب اور تبدیلی لانے کا بھی ذریعہ ہے۔ جسٹس(ر) ناصرالملک 60دن کیلئے بطور نگران وزیراعظم آج حلف اٹھائیں گے کیونکہ شاہد خاقان عاسی اب سابق وزیراعظم ہوں گے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ اقتدارکی پُرامن منتقلی سے اکثر غیرجمہوری قوتیں اور وہ لوگ جو طویل غیرجمہوری حکمرانی دیکھناچاہتے ہیں وہ پریشان ہوجاتےہیں۔ ناصرالملک جیسے لوگوں سے امید کی جاتی ہےکہ وہ 25جولائی کو الیکشن کرائیں گے تاکہ تمام تاخیرسےمتعلق افواہیں اور شکوک شبہات ختم ہوجائیں۔ انھیں عبوری حکومت کے کردارکے حوالےسےبھی تمام غلط فہمیاں دور کرنے کی ضرورت ہےکیونکہ آزاداورشفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے، جو پہلے کی نسبت آج زیادہ طاقتور ہے۔ لیکن گزشتہ چند دنوں میں پنجاب اور خیبرپختونخوامیں جو کچھ ہوا ہے وہ زیادہ مایوس کن ہے کیونکہ دونوں ہی صورتوں میں الزام پاکستان تحریک انصاف پر آیا ہے جو گزشتہ 10برسوں میں ایک تیسرے متبادل کے طورپرسامنے آئی ہے اور اب آئندہ الیکشن جیتنےاور مرکز میں حکومت سازی کیلئےکیلئے پُرعزم ہے۔ عمران اور پی ٹی آئی کو اپنی فیصلہ سازی کی قابلیت پر غورکرنا ہوگاکیونکہ ناصر کھوسہ کیلئے جو دفاع انھوں نےکیاوہ بہت کمزورتھا۔ اس کیلئے لیڈرشپ کی خصوصیت ہونی چاہیے۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو کچھ حوصہ دکھاناچاہیےتھا اور نگرانی وزیراعظم کا مسئلہ جلدی حل کرکےپورے ملک میں ایک اچھا پیغام بھیجنا چاہیےتھا۔ سب سے زیادہ غیرجمہوری مطالبہ بلوچستان سے آیاجہاں اسکے وزیرسرفرازبگٹی 30دن کیلئےالیکشن ملتوی کرنےکیلئےایک قراردادلائے۔ تمام مرکزی سیاسی جماعتوں بالخصوص پی ایم ایل(ن)، پی ٹی آئی اور پی پی پی الیکشن کیلئےاچھی طرح تیارہیں اورمردم شماری، حلقہ بندیوں پراختلافات کےباوجود اب اعلان کردہ وزیراعظم اور وزراءاعلیٰ کی ساکھ کودیکھاناچاہیے۔ گزشتہ 10سال کو دیکھتے ہوئے نطام اوردوحکومتوں کی کارکردگی میں فرق کرناچاہیے۔ حکومت کی ساکھ کیلئےکسی بھی سطح پرکرپشن کااثرنقصان دہ ہوتاہےبالخصوص اگراس میں اعلیٰ سطح کے لوگ حتیٰ کہ وزراء اور سرکاری افسران شامل ہوجائیں۔ اس شعبے میں پی پی پی اور پی ایم ایل(ن) کا ریکارڈ کافی خراب رہاہے۔ جمہوریت آگے بڑھ گئی ہےاورحتٰی کہ نظام میں دو جماعتوں نے اپنی پوزیشن کھو دی ہے۔ پارلیمنٹ اپنے آخری اجلاس میں بھی فاٹا کاخیبر پختونخوا کےساتھ انضمام کا فیصلہ کرکےتاریخ رقم کی ہے۔ دواہم جماعتوں جمعیت علمائےاسلام جےیوآئی(ف) اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کی مخالفت کےسوا تمام دیگر جماعتوں نے اس جمہوری فیصلے کی حمایت کی اس سے قبائلی لوگوں کو مرکزی سیاست میں لانےکیلئےمددملےگی۔ گزشتہ دس برسوں میں جمہوریت اتنی بری نہیں رہی جتنی چند تنقید کرنے والوں کونظرآتی ہے، یہ لوگ حکومت کی بجائے جمہوریت پر تنیقد کرنےکا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ یہ سچ ہے کہ میڈیا کو مدعی کا کرداراداکرناہوگا لیکن جب ’نظام‘ کی بات کی جائے تو بھی اسے ایک کرداراداکرناہوگا۔ نظام میں تسلسل سے سیاسی پختگی آتے ہے اوراس کے باعث بالآخر معاشی استحکام اورقومی اور بین الااقوامی معاملات میں بھی پختگی آتی ہے۔ پی پی پی اور پی ایم ایل(ن) دونوں پُرامن منتقلی کا کریڈٹ لے سکتے ہیں اور طریقہ کار میں انھوں نے نظام کو مضبوط بنانے کیلئے اصلاحات بھی کیں۔ ہاں، پی ایم ایل(ن) نے اپنی مدت ایسے وقت میں پوری کی جب اس کے رہنما اور سابق وزیراعطم نواز شریف تاحیات نااہل ہوچکےہیں اور مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ اسی دوران یہ سیاسی رہنما کی حمایت میں جاتا ہے کہ اپنی ہی حکومت میں مقدمے کا سامنا کرنا جیسا کہ پی پی پی کی حکومت میں یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہو اانھیں بطوروزیراعظم نااہل کردیاگیاتھا۔گزشتہ دس سال پرغورسے پتہ لگتاہے کہ یہ حقیقت ہے کہ سیاسی عزم کے بغیرپاکستان ’دہشت گردی کےخلاف جنگ‘ نہیں جیتاپی ایم ایل(ن) کی حکومت نے وہاں سے شروع کیاجہاں سے پی پی پی حکومت نےسوات اور جنوبی وزیرستان کی صفائی کےبعدچھوڑاتھا، اس کے باعث پورے ملک میں گرینڈ آپریشن کیاگیا، جو شمالی وزیرستان سےشروع ہواتھا۔ جب پاکستان کی مسلح افواج کوان کی کامیابی اورقربانیوں کیلئے سارا کریڈٹ دیاجاتاتو پاکستان کی سیاسی قوتوں نے بھی قیمت چکائی ہے اور سابق وزیراعظم بے نظیربھٹو کوطالبان اوردہشت گردوں کےخلاف ہمارے ارادےکے باعث مار دیاگیا۔ 50ہزارسے زائد پاکستانیوں کی جانیں گئیں جس میں 20ہزار جوان اور افسران بھی شامل ہیں اس کے علاوہ رہنما، کارکن، وزیر، ایم پی اے اور ایم این اے بھی شامل ہیں۔ 2013 میں اس وقت تاریخ رقم ہوئی جب 70سال میں پہلی بار ایک منتخب حکومت نے دوسری حکومت کو اقتدار منتقل کیا۔ پی پی پی کے تحت اپنے پانچ سال کے دوران پارلیمنٹ کافی مضبوط ہوئی اور اگر پی پی پی نے وعدے کے مطابق ججوں کو نہ بحال کرنےوالی غلطی نہ کی ہوتی تو اس سے نظام میں مزید استحکام آتا۔ اسی دوران پی پی پی اور سابق صدر آصف علی زرداری کو تمام صداری اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کا کریڈٹ جاتاہے اور 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری اورانتخابات کیلئےنگرانی حکومت سے متعلق بنیادی معاملات بھی حل کرلیےگئے۔ یہ چند اقدامات ہیں جن کے باعث سیاسی استحکام آیااور جو مزید لینے کی ضرورت ہے۔ اول، 18ویں ترمیم کا شکریہ کہ نگران وزیراعظم اور وزراءاعلیٰ کی نامزدگی کیلئےایک جمہوری طریقہ کار تشکیل پاگیا۔ (1) وزیراعظم اور رہنما حزبِ اختلاف نام سے متعلق فیصلہ کرسکیں گے۔ (2) اگر وہ ناکام ہوتے ہیں تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گاجس میں حکمران جماعت اور اپوزیشن کے ارکان کی تعداد برابر ہوگی۔ (3) حتیٰ کہ اگر وہ بھی ناکام ہوجاتی ہیں تو الیکشن کمیشن فیصلہ کرےگا۔ غالباً یہ طریقہ کار بنانے والے جانتے تھے کہ سیاستدانوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پائی جاتی ہے۔ لیکن جو کچھ 28جولائی کوہوا اس سے مستقبل کیلئے مزید امید ملتی ہے۔ دوئم، پارلیمنٹ نے گزشتہ 10برسوں میں الیکشن کمیشن کو مزید مضبوط کیاہے اور نئے الیکشن رولز سے اسے مزید مضبوطی ملی ہے۔ اب یہ جسٹس(ر) سرداررضا کی زیرقیادت الیکشن کمیشن اوران کی ٹیم پرمنحصر ہے کہ وہ ’آزاد اور شفاف‘ انتخابات کو یقینی بنائیں بالخصوص الیکشن پٹیشن کوجلد فارغ کریں اور ان کا نفاذ یقینی بنائیں۔ الیکشن کمیشن کویقینی بناناہوگاکہ انتخابات صرف آزاداورشفاف نہ ہوں بلکہ آزاد اور شفاف نظربھی آنےچاہیے۔ سوئم، ایک مشترجہ جدوجہد کے نتیجے میں اعلیٰ عدلیہ مضبوط اورمزید بااختیار ہوئی۔ اگرچہ گزشتہ دس برسوں میں پی پی پی اورپی ایم ایل(ن)دونوں کی حکومتوں نے بالخصوص اس طریقہ کارپرتحفظات کااظہار کیاہے کہ جس کے ذریعےوزیراعظم نوازشریف کونااہل کیاگیااوراب وہ مقدمات کا سامنا کررہے ہیں، نظام کوپٹری سے نہیں اترنے دیاگیا۔ تاہم یوسف رضا گیلانیا ور میاں نواز شریف کی برطرفی سے یقیناً سیاسی بے یقینی پیدا ہوئی تھی۔ جوتھا، نظام کے استحکام کیلئے یہ ضروری ہے کہ انتخابات سے قبل اور بعد میں ’سیاسی انجینئرنگ‘ کا عنصر ختم ہونا چاہیے۔ گزشتہ چند ماہ میں جوکچھ ہوا ہے بالخصوص سینٹ الیکشن میں، وہ اچھا نہیں ہوا، کیونکہ بلوچستان میں اورچیئرمین سینٹ کےانتخاب میں ’انجینئرنگ‘ کےعنصرسےسنجیدہ سوالات اٹھ گئے ہیں۔ پانچواں، نیب ایک آئنی ادارہ ہے اور اسے الزامات اور شکایات پر تحقیقات کرنے کاپورا اختیار ہے۔ لیکن احتساب کے نام پر انتقام کے باعث احتساب کی ساکھ کو نقصان پہچناہے۔ لہذا نیب چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال کیلئے یہ بہت اہم ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ یہ سب یک طرفہ نہیں ہونا چاہیے۔ چھٹا، سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ افسوس ناک ہے کہ ہماری مرکزی سیاسی جماعتوں میں جمہوری کلچرکا فقدان ہے اور اس کے نتیجے میں جب وہ اقتدار میں آتی ہیں تو گورننس اور احتساب کی اچھی مثال قائم کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں۔ یہ نظام کی خوبصورتی ہے اور تسلسل کی وجہ سے ایک تیسرا متبادل بھی سامنے آیاہےیعنی عمران خان اور پاکستان تحریک اںصاف۔ ان کی پارٹی نے 2008 میں انتخابات کا بائیکاٹ کیاتھالیکن 2013میں اچھی کارکردگی دکھائی اور کے پی میں حکومت بنائی۔ چونکہ ہم مکمل طورپرمضبوط جمہوری ملک نہیں ہیں لہذا تمام سیاسی جماعتوں کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ ’لوٹاکریسی‘ کی حوصلہ شکنی کیلئے ایک مشترکہ حکمتِ عملی بنائیں اس کا بہترین راستہ یہ ہے کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں ترمیم کی جائے، اس کے تحت گزشتہ حکومت کے دوران کسی بھی موجودہ ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر کو وفاداری تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سیاسی استحکام اور پُرامن اقتدارکی منتقلی کیلئےیہ ضروری ہے کہ سول ملٹری معاملات کوحل کیاجائے، جو نیشنل سیکیورٹی کونسل کی تشکیل کے باوجود ایک مسئلہ ہے یہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے انٹرویو سے بھی ظاہرہوا۔ ہمیں وجوہات کو جاننا ہوگا کہ پی پی پی اور پی ایم ایل(ن) کی حکومتوں کےدس سال کے دوران کتنے جائز اور ناجائز تحفظات موجود تھے۔ آرٹیکل VI کے تحت سابق صدرجنرل(ر)پرویز مشرف کا ٹرائل کرکے پی ایم ایل نے یقیناًایک بڑا اقدام کیایہ یقیناً اسٹیبلشمنٹ میں بےچینی کاباعث بنا۔ غالباً اس سےاسٹیبلشمنٹ اور بعدمیں آنے والے آرمی سربراہان، جنرل کیانی سے جنرل قمرجاویدباجوہ تک، ان کی سوچ میں بڑی تبدیلی آئی کہ جمہوریت کو چلنے کی اجازت دی جائے، جب سیاسی انجینئرنگ کی بات ہوتی ہے تو انھیں سول ملٹری معاملات بھی طے کرنے کی ضروررت ہے یہ اگر ختم نہیں ہوئی تو اس کے باعث ’مسائل‘ پیدا ہوتے رہیں گے۔ ماضی کے برعکس جب نہ صرف وزیراعظم بلکہ 58-2(b)کے تحت پارلیمنٹ بھی برطرف کردی جاتی تھیں تو حکومتیں اپنی مدت پوری کرتی ہیں حتیٰ کہ اگر وہ اب آرٹیکل 62-1(F) کے تحت ایک یا دوسرا وزیراعظم کھو بھی دیتی ہیں۔ عدلیہ نہ صرف آزاد ہے بلکہ مضبوط بھی ہے اور باربار چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار یہ یقین دہانی کراچکے ہیں کہ حکومت کوہٹانے کا کوئی بھی غیرآئنی اقدام برداشت نہیں کیاجائےگا۔ 2014میں معاملات حل کرنے کیلئےاگرنواز شریف نے سابق آرمی چیف جنرل(ر) راحیل شریف کی بجائے پارلیمنٹ سے مددلی ہوتی تو پی ایم ایل(ن) کی حکومت زیادہ مشکلات کے بغیر ہی اپنی مدت پوری کرلیتی۔ جمہوریت کیلئے طویل سفرطے کیاہے اوراب ہم جمہوریت کے 10سال پورے ہونےاور نظام کے تسلسل پرخوشی منارہےہیں تو ماضی سے بہت کچھ سیکھنےکی ضرورت ہے۔ آئندہ انتخابات جو بھی جیتے انھیں اپنے سے پہلے والوں کی غلطیاں نہیں دہرانی چاہیے، بلکہ ان کی کامیابیوں کا اعتراف کرناچاہیے۔

تازہ ترین