• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ریاست، جس کی بنیاد مسٹر جناح نے رکھی جبکہ انگریز حکومت نے بڑی فراخدلی سے اس کی تخلیق کے لیے راستہ دیا، اپنے وجود میں آنے کی منطق کھو چکی ہے۔ ہمیں اُن بنیادی حقائق ، جو اس کی تخلیق کا باعث بنے، کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے۔ اگر برِ صغیر پر برطانیہ کا قبضہ نہ ہوتا تو پاکستان بھی وجود میں نہ آتا۔ مزید یہ کہ برطانوی راج سے مسلمانوں کو اتنی تکلیف نہ تھی جتنی اس تصور سے کہ انگریز کے جانے کے بعد ہندو اکثریت تلے ایک سیاسی اقلیت بن کر رہنا پڑے گا۔ درحقیقت ہمارے آباؤ اجداد نے غیر ملکی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد نہیں کی ۔ کم از کم سرسید احمد خان کو برطانوی راج کے فوائد کے بارے میں کوئی مغالطہ نہ تھا۔ 16 مارچ 1888کو میرٹھ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے علی گڑھ تحریک کے بانی نے فرمایا تھا․․․”انڈیا میں امن اور ترقی کے لیے برطانوی حکومت کو مزید کئی سال ․․․ بلکہ ہمیشہ کے لیے․․․ قائم رہنا چاہیے ۔ “دراصل ہمارے آباؤ اجداد نے اپنے جداگانہ تشخص کی حفاظت کے لیے جدوجہد کی تھی اور برطانیہ، جس کا طریق کار ہی یہ تھا کہ ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ ، نے بھی اس کاوش میں ان کی حوصلہ افزائی کی۔
تاہم جب انگریز کا برصغیر سے جانا طے پاگیا تو مسلم رہنماؤں کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی ، چنانچہ اُنہوں نے عدم تحفظ کی وجہ سے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کردیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ ہم ہندوؤں سے الگ قوم ہیں اور ہمارا کلچر اور رہن سہن اُن سے مختلف ہے۔ آج ہم اس کی جتنی مرضی تشریحات کر لیں․․․ کوئی روک ٹوک نہیں ہے․․․ اور اس کو مذہب کا رنگ دے لیں مگر حقیقت یہی ہے نظریہ ٴ قومیت کو مذہب کا رنگ دے کر پیش کیا گیا۔ دلیل ، نہ کہ جذبات ، کی بات ہو تو اس سے جائے مفر ممکن نہیں ہے۔ چونکہ اس ریاست کی تخلیق کی بنیاد کے لیے جو اصول وضع کیے گئے، اُن کو مسلم قومیت کے جداگانہ تشخص کا رنگ دیا گیا تھا، اس لیے مذہبی حلقوں، جنہوں نے قیام ِ پاکستان کے وقت مسٹر جناح اور مسلم لیگ کی مخالفت کی تھی، نے ریاست کے قیام کے بعد یکا یک پینترا بدلہ اور اپنے مقاصد کی بجا آوری کے لیے محدود تشریحات کی روشنی میں ڈھالے گئے عقائد کو اس پر مسلط کرنا شروع کر دیا ۔تاہم بانی ِ پاکستان محمد علی جناح صاحب کا تصور اس سے مختلف تھا اور اس کا اظہار اُنہوں نے دستور ساز اسمبلی سے اپنے گیارہ اگست 1947 کے خطاب میں کیاتھا․․․”آ پ آزاد ہیں ، چاہے تو آپ مساجد میں جائیں، مندروں میں جائیں، ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔“ سیکولر تصورات کا اس سے واضح الفاظ میں اظہار ممکن نہیں ہے۔ تاہم ہم میں سے کتنے لوگ اس خطاب کی روح کو تسلیم کرتے ہیں؟
چونکہ پاکستانیوں کی اکثریت تحریک ِ پاکستان کے اصل مقصد سے نا بلد تھی اور آنے والے برسوں میں ملائیت نے اس کو یرغمال بنا لیا، اس لیے محترم قائد کے یہ الفاظ صدا بہ صحرا ثابت ہوئے۔ 1946 کے انتخابات ، جن میں مسلم لیگ کو فتح نصیب ہوئی، میں پارٹی نے یہ نعرہ بلند کیا تھا․․․”مسلمان ہے تو مسلم لیگ میں آ“۔ اس میں یقینا سیکولرازم کا کوئی شائبہ نہیں ہے مگر اس وقت تک جناح صاحب کی عمرکا سورج ڈھل چکا تھااور صورت ِ حال پر اُن کی گرفت ڈھیلی پڑچکی تھی۔ تاہم حالات کے دھارے میں مسٹر جناح ، جو کبھی ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے اور سروجنی نائیڈو اُن کے گن گاتی تھیں ، میں بھی تبدیلی واقع ہوئی اور وہ شیروانی اور ٹوپی میں ملبوس نظر آئے۔ یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ دو قومی نظریہ پاکستان کی تخلیق کی وجہ بننے کی حد تک ٹھیک تھا مگر اب موجودہ دور میں یہ اپنی اہمیت کھوچکا ہے۔ اسی لیے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ یہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے لوگوں کے مسائل کا حل پیش نہ کر سکا، بالکل جس طرح آج اس کے پاس بلوچ عوام کے لیے کوئی داد رسی نہیں ہے اور نہ ہی یہ انتہا پسند قوتوں کے مذموم عزائم کے راستے میں حارج ہے۔
روشن خیال اور لبرل سوچ رکھنے والے افراد آج نظریہ ٴ پاکستان کا از سرِ نو تعین کرسکتے ہیں تاکہ اسے موجودہ زمانے کی ضروریات سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ تاہم اس ضمن میں ہمارے دیس میں قحط الرجال نظر آتا ہے(گو آبادی کا کوئی قحط نہیں ہے)اور ہمارے سیاسی قائدین ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر آج کے سیاست دانوں سے موازنہ کیا جائے تو جناح صاحب کے جاں نشین بہت بلند پایہ افراد تھے مگر وہ معاملات کو نہ سنبھال سکے اور صورت ِ حال بگڑتی گئی یہاں تک کے فردا کے مسائل کو ماضی کے آئینے میں دیکھ کر جان چھڑانے کی پالیسی مسلم لیگی قیادت کا ”قومی شعار “ بن گئی۔ ملک کو ایک لبرل آئین کی ضرورت تھی مگر ہم نے شتر مرغ کی طرح اپنا سر ”قرارداد ِ مقاصد“ کی ریت میں چھپا لیا۔ جب قرار داد ِ مقاصد منظور ہوگئی تو ریاست کے اقلیتی ممبران نے اعتراض کیا تو یہ تاثر دیا گیا کہ ہندوستان سے ہجرت کرنے کی غرض وغایت ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا۔
جناح صاحب کے پاکستان کو ابھی بھی بچایا جا سکتا تھا مگر دو چیزوں نے اس کے وجود کو زہر آلود کر دیا: ایک تو امریکہ کے ساتھ مختلف معاہدوں (سیٹو اور سینٹو وغیرہ) میں شریک ہونا اور دوسراجمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر مارشل لا نافذکرنے کے عمل کو ”کامیابی “ سے جاری رکھنا۔ جنرل ایوب بالکل سیکولر ذہنیت کے مالک تھے مگر خدا ہی جانتا ہے کہ کیا ہوا، یکایک جناح ٹوپی پہننا شروع کر دی۔ اس سے پہلے تک تو ہمارے ملک کا نام ”ری پبلک آف پاکستان “ تھا مگر ایوب دور میں اسے ”اسلامی ری پبلک آف پاکستان “ قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد فیلڈ مارشل نے ایسی جنگ شروع کر دی جس کا انجام ان کے لیے ناقابل ِ تصور تھا۔ اس جنگ نے صدر صاحب کا انجام بھی واضح کر دیا اور اس کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ان کے چہیتے اور سحر انگیز شخصیت کے مالک مسٹر ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ اس سے پہلے پاکستان کسی حد تک ترقی کر رہا تھا مگر 1965 کی جنگ نے اسے مکمل طور پر پٹری سے اتار دیا۔
جنرل یحییٰ خان کا سر مستیوں سے عبارت دور آیا اور گزر گیا۔ پھر بھٹو صاحب نے صورت ِ حال کو قدرے سنبھالا، تاہم بلاوجہ اُنہوں نے بھی کئی مواقع پر مذہب کو سیاست میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد جنرل ضیا کا تاریک دور شروع ہوا․․․ اس کے اثرات و اثاثہ جات ابھی تک موجود ہیں۔جنرل ضیا کی مدد سے سی آئی اے اورایک برادر اسلامی ملک کے فنڈز سے افغان مہم جوئی شروع کی گئی۔ اس نے جناح صاحب کے پاکستان کو اندھیروں کا شکار کر دیا۔ ہم اس ضیائی ظلمت میں خود کو فاتح ِ عالم سمجھ کر خوش ہوتے رہے جبکہ انتہا پسندانہ رویے ہمارے معاشرے کو پیر ِ تسمہ پا کی طرح اپنی گرفت میں لیتے رہے۔طالبان کا ہمارے معاشرے میں نفوذ کوئی راتوں رات رونما ہونے والا سانحہ نہیں ہے۔ اس زہریلی فصل کو ہم نے خود کاشت کیا، خود آبیاری کی اور اب اس کے زہریلے پھل کا مزہ بھی ہم خود ہی چکھ رہے ہیں۔ اگر آج جناح صاحب اور علامہ اقبال یہاں آجائیں تو وہ اس پاکستان کو پہچان پائیں گے؟کیا یہاں چلنے والی انتہا پسند ی کی کالی آندھی ان کے تصورات کو حبس ِ دم میں مبتلا نہیں کردے گی؟کیا اُن کی روشن خیالی اس بات کی تفہیم کرپائے گی کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ممتاز قادری، کو مجاہد کیسے سمجھتی ہے ؟ہم نے روشن خیالی کی ثریا سے خود ہی اندھیروں کی سرزمین پر چھلانگ لگائی ہے، آسمان نے ہمیں دھکا نہیں دیا ہے۔
اب اس کجروی پر سینہ کوبی کرنے یا ماتم فغاں رہنے سے کیا حاصل ہوگا ؟اب مستقبل کے تقاضے ہمیں بلا رہے ہیں۔ ہمیں دو میں سے ایک راہ کا انتخاب کرنا ہے․․․ کیا ہم تاریک دور میں رہنا چاہتے ہیں یا ہم بانی ِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے تصورات پر مبنی لبرل معاشرے کا قیام چاہتے ہیں؟ایک راہ گم گشتہ قافلے کے لیے درست راہوں کو پانا اگر ناممکن نہیں تو بھی مشکل ضرور ہوتا ہے ۔ اس کے لیے نگاہ بلند میر ِ کارواں کی ضرورت ہوتی ہے۔ الجھنوں کا شکار، حواس باختہ موجودہ رہنما اس مشکل کام کے لیے نہیں بنے ہیں ۔یہ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ آج ہمیں قیادت کے بحران کا سامنا ہے۔ ہر چھ ماہ بعد ہمارے دفاعی اداروں کے افسران سنجیدہ نظروں سے میزائل کو آسمان کی وسعتوں میں چھوڑنے کی رسم ادا کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم نے میزائل ٹیکنالوجی میں بہت ترقی کرلی ہے مگر یہ استعمال کس کے خلاف کرنے ہیں؟ ہمیں بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات لاحق ہیں اور ان کے خلاف یہ میزائل غیر موثر ہیں۔ اگر جنگ شروع کرنے سے پہلے ہی فتح یا شکست کے التباسات ذہن میں آسیب کی طرح جم جائیں تو کوئی ہتھیار بھی کام نہیں دیتا ہے۔ ہمارے میزائل اور بم کافی تھے کہ ہم اپنے روایتی حریف بھارت کے مقابلے میں پراعتماد رہتے اور پھر ہمارے پاس ایٹمی صلاحیت بھی آگئی تھی۔ کیا یہ دفاع کافی نہ تھا ؟ مگر ہماری دفاعی قیادت ایسے بے بنیاد خوف و خدشات کا شکار رہی جس کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہ تھا۔ بے شک پاکستان 1971 میں دو لخت ہوگیا تھا مگر بھارت اُس وقت تک کچھ نہ کر سکا تھا جب تک نفرت کی دیوار نے ہمارے دلوں کو تقسیم نہ کر دیا تھا۔
ا ب حالات ہم سے کس طرزِ عمل کے متقاضی ہیں؟ جنرل اسٹاف کو یہ بات کون سمجھائے کہ اب ہمیں خطرہ مشرق سے نہیں بلکہ مغرب کی طرف سے ہے۔ ہم اپنے دشمن کی جگہ تلاش کرنے میں اتنی دیر کیوں لگا رہے ہیں ؟یہ بھی درست ہے کہ فوجی آپریشن افراتفری میں نہیں کیے جا سکتے اور نہ ہی اس کے لیے غیر ملکی ڈکٹیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ جنگیں دوسروں کے اشاروں پر ناچتے ہوئے نہیں ہونی چاہئیں۔ لیکن خدا کے لیے، ہمیں یہ تو پتہ چلے کہ ہمارا دشمن کون ہے اور کیا اب جناح کے پاکستان کو بچایا جا سکتا ہے یا سب کچھ اندھیروں کی نذر ہونے والا ہے۔
حرف ِ آخر !یہ کالم عید کی تعطیلات کے دوران شائع ہوگا اور عید پرہم پانچ یا چھ دن چھٹیوں پر ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان تعطیلات کے دوران اتنا ذہنی کرب درست نہیں۔ میں بھی اسی محاورے کو تسلیم کرتا ہوں․․․ ”موقع شناسی بہترین شجاعت ہے۔“
تازہ ترین