• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نواز شریف حکومت کے خلاف نومبر 92ء کے ٹرین مارچ میں جناب غلام مصطفی جتوئی بھی محترمہ بینظیر بھٹو کے ہمرکاب تھے ۔ لاہور میں خورشید محمود قصوری کے ہاں اخبار نویسوں سے گفتگو میں جتوئی صاحب بھی محترمہ کے بائیں جانب موجود تھے۔ محترمہ کا کہنا تھا کہ ان کی یہ تحریک 1990 کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف ہے۔ منہ پھٹ اور بے لحاظ اخبارنویس نے نکتہ اٹھایا، اس صورت میں آپ کو یہ تحریک ان صاحب کے خلاف اٹھانی چاہئے۔ اشارہ جتوئی صاحب کی طرف تھا۔ ”ان کے خلاف کیوں؟“ محترمہ نے استفسار کیا۔ ”کیونکہ یہ نگران وزیرِ اعظم تھے اور الیکشن انہی کی نگرانی میں ہوئے تھے۔ تب خورشید محمود قصوری کی ذہانت کام آئی، ”کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے“ اور یوں بات آگے نہ بڑھی۔ وضع دار اور ملنسار جتوئی سیاست میں مزاحمت سے زیادہ مفاہمت کے آدمی تھے ۔ 5جولائی 1977 کو زیادہ دن نہیں ہوئے تھے جب پیر صاحب پگارا (مرحوم) نے جنرل ضیاء الحق کو خوشخبری سنائی، جتوئی صاحب پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر مسلم لیگ میں شمولیت پر آمادہ تھے ، لیکن دوراندیش جنرل کے خیال میں ان جیسے اعتدال پسند لیڈر کا پیپلز پارٹی میں رہنا زیادہ مفید تھاکہ بھٹو صاحب کے بعد پارٹی انتہا پسندوں کے ہاتھ میں نہ چلی جائے۔ خوش گمانی سے کام لیتے ہوئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جتوئی صاحب ضیاء الحق کی قربت کا فائدہ اٹھا کر اپنے دوست کو برے انجام سے بچانا چاہتے تھے۔
جناب ِ جتوئی کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدگی ایک الگ موضوع ہے اور نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین کشمکش ایک علیحدہ کہانی جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں ۔ جنرل ضیاء الحق کے انتقال کے بعد نومبر 88 ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو اس کے اصل سائز میں رکھنے کے لئے بھٹو مخالف ووٹ ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی حکمت عملی کے تحت آئی جے آئی تخلیق ہوئی تو اس کی سربراہی کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی نظر پھر جتوئی صاحب پر تھی۔ سندھ سے اپنی آبائی نشست ہارنے کے بعد انہیں پنجاب سے ایک ضمنی انتخاب میں منتخب کرا کے قومی اسمبلی میں جناب غلام حیدر وائیں کی جگہ قائد ِ حزبِ اختلاف بنا دیا گیا۔ اگست 1990 میں بینظیر حکومت کی برطرفی کے بعداسٹیبلشمنٹ کا چوائس بھی وہی تھے لیکن نگران وزیراعظم انتخابات کے بعد وزیراعظم کیوں نہ بن سکا اور ہما ، نواز شریف کے کندھے پر کیوں آبیٹھا، جناب عرفان صدیقی یہ ساری کہانی اپنے گزشتہ کالم میں بیان کر چکے ہیں ۔
اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایک طوفان سا اٹھا دیا ہے ۔ آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل اسد درانی کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں میں تقسیم کیا جانے والا پیسہ آئی ایس آئی کا نہیں بلکہ کراچی کے تاجروں کا تھاجنہیں اقتدار میں پیپلز پارٹی کی واپسی کسی طور گوارہ نہ تھی۔ آئی ایس آئی نے صرف یہ رقم تقسیم کی اور اس کے لئے بھی فارمولا ایوانِ صدر سے آتا تھا ۔ یونس حبیب کی بیان کردہ کہانی کے مطابق میاں نواشریف کو رقم کسی خفیہ ایجنسی نے نہیں بلکہ خود انہوں نے ماڈل ٹاوٴن پہنچ کردی ۔ لیکن دلچسپ بات یہ کہ انہوں نے یہ بھاری عطیہ نذر کرنے کے لئے علیحدگی میں ملاقات کا وقت نہ لیا ان کے بقول میاں صاحب کے گرد بھیڑ لگی ہوئی تھی ۔ انہوں نے یہ رقم میاں صاحب کو دی اور میاں صاحب نے اسے حسین نواز کے سپرد کر دیا کہ اسے اندر رکھ دو۔ تب شاید ایک ہزار سے بڑا نوٹ نہیں ہوتا تھا۔ 35 لاکھ کتنے بڑے پیکٹ میں آئے ہوں گے اور اس کے لئے تنہائی کی ضرورت بھی دونوں میں سے کسی نے محسوس نہ کی ۔ نہ دینے والے کو احتیاط مانع ہوئی ، نہ لینے والے نے کوئی عار محسوس کی لیکن اس کے ساتھ ہی یونس حبیب ایک اور کہانی بھی بیان کرتے ہیں، یہ کہ انہوں نے 1990 کے اس ”گناہ“ کا کفارہ 1993 کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کو رقم دے کر ادا کیا۔ صوبہ سرحد میں پیر صابر شاہ کی مسلم لیگی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لئے بھی انہوں نے 10 کروڑ روپے دیئے۔ مسلم لیگ (ن)رقم لینے سے انکاری ہے اور خود میاں صاحب گزشتہ شب کیپیٹل ٹاک میں سختی سے تردید کر چکے ۔ جنرل اسلم بیگ کی گواہی بھی آگئی کہ میاں صاحب نے کوئی رقم نہیں لی تھی۔ نواز شریف کو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق رحمن ملک والی ایف آئی اے سے تحقیقات کروانے پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ جہاں تک اس حوالے سے جناب شہباز شریف اور قائدِ حزبِ اختلاف چوہدری نثار علی خان کی طرف سے تحفظات کے اظہار کا تعلق ہے، خود اصغر خان یہ کہہ چکے کہ موجودہ ایف آئی اے سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ اس سے اگلے روز جناب چیف جسٹس کے ریمارکس تھے کہ نیب اور ایف آئی اے سمیت کسی ادارے پر عوام کا اعتماد نہیں رہا۔ ارسلان افتخار کیس اسی لیے نیب سے لے کر سڈل کمیشن کے سپرد کیا گیا۔ چنانچہ اگر شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان نے اس حساس مسئلے کی تحقیقات ایف آئی اے کی بجائے اعلیٰ عدالتی کمیشن کے سپرد کرنے کی بات کی تو کیا برا کیا؟
کیا 1990 کے انتخاب واقعی چرائے گئے ؟اس کے لئے 1993 کے انتخابی نتائج پر بھی ایک نظر کیوں نہ ڈال لی جائے جو وفاق اور صوبوں میں ایسی نگراں حکومتوں کے زیراہتمام ہوئے جنہیں نواز شریف سے کوئی ہمدردی نہیں تھی بلکہ اسٹیبلشمنٹ کوبھی صرف چند ماہ بعد ہی نواز شریف کی واپسی فطری طور پر گوارہ نہ تھی۔ یہ حقیقت بھی یاد رہے کہ 1990 کا الیکشن 9 جماعتوں کے اتحاد ، آئی جے آئی ، نے لڑا تھا۔ جب کہ 1993 کا الیکشن نواز شریف کی زیرقیادت مسلم لیگ نے اکیلے لڑا بلکہ اب تو حامد ناصر چٹھہ کی زیرقیادت ایک دھڑا اس سے الگ بھی ہو چکا تھا۔ 1993 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اگرچہ مسلم لیگ سے 16 نشستیں زیادہ حاصل کیں لیکن اس کے مجموعی ووٹ مسلم لیگ سے 3 لاکھ کم تھے (پیپلزپارٹی کی 89 اور مسلم لیگ کی 73 نشستیں) مسلم لیگ کے ووٹ 3123244 (39.72فیصد) اور پیپلزپارٹی کے ووٹ 2819624(38.24 فیصد)۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ کی نشستیں 106جبکہ پیپلز پارٹی کی 94 تھیں ۔ یہاں نواز شریف کی مسلم لیگی حکومت کا راستہ روکنے کے لئے پیپلز پارٹی نے 18 نشستوں والے منظور وٹو کی وزارتِ اعلیٰ قبول کر لی ۔ 1990 کے انتخابات کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ منصفانہ ہوئے ۔ بینظیر جس دھاندلی کا شکوہ کر رہی ہیں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ این ڈی آئی کا کہنا تھا کہ تشدد کے چند واقعات سے انتخابی نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ کینیڈا کی چار رکنی ٹیم نے بھی انہیں منصفانہ قرار دیا۔ ٹائم ، نیوز ویک اور نیویارک ٹائمز نے بھی پیپلز پارٹی کی شکست کو دھاندلی کا نہیں بلکہ زبردست مخالفانہ پراپیگنڈہ مہم کا نتیجہ قرار دیا جس میں بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھنے اور کرپشن کے الزامات سرِ فہرست تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ اسی ”دھاندلی والی“ اسمبلی میں محترمہ بینظیر بھٹو فارن افیئرز کمیٹی کی چیئررپرسن بھی منتخب ہوئیں جس کے لئے ان کا نام امورخارجہ کے وزیر مملکت صدیق کانجو نے تجویز کیا اور شہباز شریف نے تائید کی ۔ نوابزادہ صاحب کا کہنا تھا کہ ایسی قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی سربراہی قبول کر لینا کہاں کی اصول پسندی ہے جسے بوگس قرار دے کر نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا جار ہا ہو؟
تازہ ترین