• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کو بہت بہت مبارک ہو۔ دوماہ کے لیے عظیم مملکت کی وزارتِ عظمیٰ آپ کے سپرد کی گئی ہے۔ ایک عظمیٰ کے سرتاج آپ پہلے ہی رہ چکے ہیں۔ آپ ہر چند خود منتخب نہیں ہیں۔ لیکن آپ عوام کی منتخب سیاسی جماعتوں کا حسن انتخاب ہیں۔ سوشل میڈیا۔الیکٹرانک میڈیا۔پرنٹ میڈیا اور عام پاکستانی سب نے ہی آپ کی تقرری کا خیر مقدم کیا ہے۔اس مملکت خداداد میں اس کشیدگی تنائو اور تنازعات کے زمانے میں کسی ایسی شخصیت کی موجودگی بہت ہی غنیمت ہے۔ جو سب کو قابل قبول ہو۔ پاکستانی قوم تو اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کررہی ہے۔ آپ بھی یقیناََ خدائے بزرگ و برتر کے حضور سجدۂ شکر بجا لائے ہوں گے کہ آپ حکمرانوں اور اپوزیشن دونوں کی مشترکہ پسند ہیں۔ آپ کی شہرت اب تک بہت اچھی اور پیشہ ورانہ اعتبار کی حامل رہی ہے۔ آپ کی شخصیت پر کوئی داغ نہیں ہے۔ حالانکہ ہمارے ٹی وی اشتہارات کے مطابق داغ اچھے ہوتے ہیں۔ داغ لگنا ضروری ہے کیونکہ داغ دھونے والی مصنوعات اسکے بعد ہی بکتی ہیں۔
پاکستان میں چشم فلک چند ماہ سے دیکھ رہی ہے کہ داغ لگ جائے تو حکمراں نظریاتی ہوجاتے ہیں۔ داغ لگ جائے تو بیانیے بہت مقبول ہونے لگتے ہیں۔
آپ کو انتہائی حساس جغرافیائی حیثیت رکھنے والے اس اہم ملک کا عبوری وزیرا عظم بننا اس وقت نصیب ہورہا ہے جب اداروں میں لڑائی اپنے عروج پر ہے۔ مملکت کے سارے ستون لرز رہے ہیں۔ سب ادارے اپنے اختیارات سے تجاوز کررہے ہیں۔ آئین میں عبوری وزیر اعظم کے تقرر کے طریقِ کار پر تو صراحت موجود ہے۔ لیکن عبوری وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کے ارکان کے پاس کتنے اختیارات ہوں گے۔ وہ کیا کرسکتے ہیں۔ کیا نہیں کرسکتے۔ اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے اس لیے عام خیال ہے کہ عبوری حکومت جو انتظامی تسلسل جاری رکھنے کے لیے قائم کی جاتی ہے وہ منتخب وزیرا عظم والے انتظامی اختیارات رکھتی ہے۔ اور وہ ان مشوروں پر عملدرآمد کے لیے دستخط کریں گے۔
ایک بات واضح ہے کہ آپ ۔ آپ کے وزرا انتخاب میں حصّہ نہیں لے سکیں گے۔ آپ کے قریبی اہل خانہ بھی نہ انتخاب لڑ سکیں گے نہ ہی کسی امیدوار کی انتخابی مہم میں شریک ہوسکیں گے۔ کوئی ایسا حکم جاری نہیں کریں گے۔ جس سے کسی امیدوار کو یا پارٹی کو انتخابی فائدہ پہنچ سکے۔
تاریخ ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ پنجاب سے پہلی بار کوئی لیڈر مقتدر اداروں کو للکار رہا ہے۔اس سے پہلے یہ ادارے ہمیشہ پنجاب کے سیاستدانوں کے سرپرست قرار دئیے جاتے رہے۔ پنجاب پہلے دوسرے صوبوں کے رہنمائوں میں غداری کے سر ٹیفکیٹ بانٹتا تھا۔ کسی کو سرحدی گاندھی۔ کسی کو سندھی گاندھی تو کسی کو بلوچی گاندھی کا لقب دے کر پنجاب کے لوگوں کو ان سے لین دین کرنے پر خبردار کیا جاتا تھا۔ پہلی بار پنجاب کے کسی لیڈر پر غداری کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ یہ چھوٹے صوبوں کی مہربانی ہے کہ وہ اس ’’غدار‘‘ کو ’’پنجابی گاندھی‘‘ نہیں کہہ رہے ہیں۔پہلے پنجاب میں غداروں کا داخلہ روکا جاتاتھا۔ ان کا بائیکاٹ کیا جاتا تھا۔ ان کی خبریں شائع نہیں کی جاتی تھیں۔ اب ایک ’’غدار‘‘ پنجاب میں مقبول ہورہا ہے۔ اس سے محبت میں شدت آرہی ہے۔ اس کی صاحبزادی سے بھی اشتیاق کا یہی عالم ہے۔ بلکہ یہ سمجھا جارہا ہے کہ پاکستان کو ایک خوش شکل۔ خوش گفتار۔ اور بلند حوصلہ قیادت میسر آرہی ہے۔
جناب نگراں وزیر اعظم۔ یہ بالکل ایک تاریخی منظر نامہ ہے۔ آپ کی ذمہ داری غیر جانبدار رہ کر الیکشن کے لیے سازگار اور پُر امن ماحول پیدا کرنا ہے۔ اس لیے پنجاب کی یہ حساس صورتِ حال سامنے رکھنا ہوگی۔ دوسرے صوبوں میں بھی سیاسی تصادم کے خطرات ہیں۔ دو ماہ کے لیے ملنے والے اس اقتدار کے آپ امین ہیں۔ پُر امن منصفانہ آزادانہ الیکشن کے انعقاد کے بعد آپ یہ امانت عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے کریں گے۔
پنجاب سے پہلی بار مقتدر اداروں کو چیلنج کے ساتھ ساتھ غیر معمولی صورتِ حال دوسرے شعبوں میں بھی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان سرگرم ہیں فعال ہیں۔ پاکستانیوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیاں ختم کرنے کے لئے سرگرداں ہیں، فیصلے کیے جارہے ہیں۔ سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ ایک سابق چیف جسٹس نیب کے سربراہ کی حیثیت سے بہت جراتمندانہ کارروائیاں کررہے ہیں۔ ابھی رُخصت ہونے والے وزیرا عظم اپنی الوداعی تقریر میں ان دونوں سرگرم اداروں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی سربراہی بھی ایک سابق چیف جسٹس کررہے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان اس وقت منصفوں کے ہاتھوں میں ہے یعنی محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ لیکن اس طرح عدلیہ کا امتحان بھی ہورہا ہے۔ عوام اور تاریخ عدلیہ کو سرخرو دیکھنا چاہیں گے۔
خزانے کی صورتِ حال بہتر نہیں ہے۔ خسارے بہت زیادہ ہیں۔ دو ماہ میں آپ بڑے فیصلے نہیں کرسکتے لیکن سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بر وقت ادا کرنا۔ پھر عید آرہی ہے۔ اس کی مطابقت میں کچھ پیشگی دینا بھی آپ کی ذمہ داری ہوگی۔ ڈالر بہت سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ پاکستانی روپیہ اس حد تک پہلے کبھی نہیں گرا ہے۔ آج آپ کا وزارتِ عظمیٰ سنبھالے تیسرا دن ہے۔ آپ دیکھ چکے ہوں گے کہ کتنے بوجھ آپ کو اُٹھانے ہوں گے۔ آپ بڑے فیصلے نہیں کرسکتے۔ لیکن ہمارے دشمن تو اس وقفے کے پیش نظر اپنی سازشیں اور کارروائیاں نہیں روکیں گے۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری ان خطرات کا احساس دلاچکے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ بعض بین الاقوامی طاقتیں الیکشن کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ اُمید ہے کہ آپ اس خدشے کا جائزہ لے چکے ہوں گے۔ آپ کی ٹیم کتنی جاندار ہے ۔ کتنی مستعد ہے اور ان کے ذہنی آفاق کتنے وسیع ہیں۔ یہ بھی آپ بہتر سمجھتے ہوں گے سب کی خواہش ہے کہ ادارے آپ سے تعاون کریں۔ سب کی تمنّا ہے کہ ملک سیدھے راستے پر چلے۔ آپ تاریخ کا مطالعہ کرنے کے عادی ہیں۔ عالمی تاریخ پر آپ کی گہری نظر ہے۔ تاریخِ اسلام بھی آپ نے بہت غور سے پڑھی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے تو آپ عینی شاہد ہیں۔ تاریخ اور منطق آپ کے فیصلوں کی بنیاد ہونی چاہئے۔
پاکستان میں پہلے تو سیاسی پارٹیوں کی باریاں لگی رہی ہیں۔ سب کو پتہ ہوتا تھا اب کس کی باری ہے۔ اس بار یہ نہیں کیا جاسکتا ۔اتنے ہنگامے برپا ہیں۔صف بندیاں بار بار تبدیل ہورہی ہیں۔ ایک حلقہ انتخابات کے انعقاد پر شک ظاہر کرتا ہے۔ طویل ٹیکنو کریٹ عبوری حکومت کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ملک میں کوئی ایسا مسلمہ قومی لیڈر نہیں ہے۔ جو ملک کے ہر حصّے میں یکساں طور پر مقبول ہو۔ اس لیے علاقائی قیادتیں ابھر رہی ہیں۔ اس الیکشن کے نتیجے میں بھی کسی قومی سیاسی قیادت کے سامنے آنے کا یقین نہیں ہے۔ لیکن قومی قیادت اس ملک کو ایک سمت میں لے جانے کے لیے ضروری ہے۔
عظیم مملکت کے بے کراں وسائل آپ کے پاس ہیں۔ خزانے کی چابی آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ کوئی وزیر بھی اپنے عہدے کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال نہ کرے۔
غیر ملکی دورے صرف وزیر خارجہ کو کرنے چاہئیں دیگر وزراء اپنے عہدوں کا فائدہ نہ اٹھائیں۔جمہوریت کے تسلسل کے لیے سینیٹ۔ ایوان بالا موجود ہے۔ آپ کی حکومت اپنے اقدامات سے سینیٹ کی متعلقہ کمیٹی کو با خبر رکھے گی۔
آپ نے رمضان کے مبارک مہینے میں یہ مسند سنبھالی ہے ہماری دُعا ہے اس ماہ کی برکتوں رحمتوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے مقاصد میں کامیابی دے۔ آپ کو کچھ قوتوں کے خوف سے بے نیاز کرے۔ آپ کو اتنی طاقت دے کہ آپ پُر امن منصفانہ الیکشن کے انعقاد میں کسی لینڈ مافیا۔ واٹر مافیا۔ ڈرگ مافیا۔ ٹرانسپورٹ مافیا۔فرنس آئل مافیا۔ وکلا مافیا کو رُکاوٹ نہ بننے دیں۔
آپ کو عدل کا تجربہ بھی ہے۔ انتخابات کے انعقاد کا بھی۔ پاکستانی قوم کو پوری اُمید ہے کہ ان دو ماہ میں ہر قدم میرٹ کے مطابق اٹھے گا۔ اقبال آواز دے رہا ہے۔
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین