• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئندہ عام انتخابات 25جولائی کو ہو سکیں گے یا نہیں؟ آج کل یہ سوال بوجوہ بہت شدت کے ساتھ پوچھا جا رہا ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں غیریقینی کی صورت حال ہمیشہ رہی ہے۔ یہ سوال وہ لوگ بھی کر رہے ہیں، جو یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ آئین کے تحت انتخابات کے انعقاد میں کسی قسم کی تاخیر کی کوئی بھی گنجائش نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ عام انتخابات کے التواکی باتیں اور اس کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی نے اپنی تحلیل سے ایک دن قبل قرارداد منظور کی ہے ، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ عام انتخابات ایک ماہ کے لیے ملتوی کیے جائیں ۔ دوسری طرف خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے بھی اپنی سبکدوشی سے ایک دن قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان کو خط لکھ کر عام انتخابات ملتوی کرنے کی تجویز دی ہے ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ مردم شماری کے نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا ہے ۔ کچھ حلقوں کا خیال یہ ہے کہ عام انتخابات سے قبل مردم شماری کے نتائج کا اعلان نہ ہونے کے معاملے کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور عدالت سے یہ استدعا کی جا سکتی ہے کہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق نئی حلقہ بندیاں کی جائیں اور اس کام کی تکمیل تک انتخابات ملتوی کیے جائیں ۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید 6 اضلاع کی حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے ۔ 4 اضلاع کی حلقہ بندیاں پہلے ہی کالعدم قرار دی جا چکی ہیں ۔ ان کے علاوہ دیگر کئی اضلاع کی حلقہ بندیوں پر اعتراضات کی سماعت جاری ہے ۔ ان اضلاع میں ازسر نو حلقہ بندیاں کرنے سے بعض حلقوں کے خیال میں انتخابی شیڈول نہ صرف متاثر ہو سکتا ہے بلکہ انتخابات کے التواکا قانونی جواز بھی پیدا ہو سکتا ہے ۔ بعض دیگر وجوہ بھی ہیں ، جنہوں نے انتخابات بروقت ہونے یا نہ ہونے کا سوال پیدا کیا ہے ۔ ان وجوہ کا تعلق ملک کے ماضی کے تجربات کی روشنی میں پیدا ہونے والے خدشات سے ہے ۔
اس سے پہلے کہ اس سوال کا کوئی حتمی جواب حاصل کیا جائے ، دیکھنا یہ ہو گا کہ عام انتخابات کے التواکا مطالبہ کہاں سے آ رہا ہے اور کن بنیادوں پر یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے یا انتخابات کے التوا کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان گزشتہ چند مہینوں سے اپنی پریس کانفرنسز میں بڑے یقین کے ساتھ یہ پیش گوئی کر رہے تھے کہ عام انتخابات دو ڈھائی مہینے کے لیے ملتوی ہو سکتے ہیں ۔ ان کی اس بات پر بہت کم لوگوں نے توجہ دی تھی ۔ عمران خان کی باتوں کا لوگوں کو اس وقت احساس ہوا ، جب بلوچستان اسمبلی کی طرف سے انتخابات کے التوا کا مطالبہ باقاعدہ طور پر قرار داد کی صورت میں سامنے آیا ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے میر ثناء اللہ زہری کی حکومت کا تختہ الٹنے اور آزاد رکن اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کی حکومت قائم کرنے میں پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے مل کر کام کیا ۔ ان دونوں سیاسی جماعتوں کا بلوچستان کی حکومت اور صوبائی اسمبلی میں گہرا اثرو رسوخ ہے ۔ پیپلز پارٹی تو انتخابات کا التوا نہیں چاہتی ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ تحریک انصاف نے بلوچستان اسمبلی کی قرار داد منظور کرانے میں اپنا اثرورسوخ استعمال کیا ہو گا ۔ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے سبکدوش ہونے والے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی طرف سے الیکشن کمیشن کو ایک خط کے ذریعہ عام انتخابات ملتوی کرنے کی تجویز سے بھی یہ ظاہر ہو گیا ہے کہ تحریک انصاف ہی بوجوہ عام انتخابات کے التواکی حامی ہے ۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے ابھی تک ایسا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا ہے ۔ صرف تحریک انصاف کی اتحادی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اس مطالبے یا تجویز کی حمایت کر رہے ہیں اور وہ بھی یقین کے ساتھ انتخابات کے التوا کی پیش گوئی کر رہے ہیں ۔ تحریک انصاف کے اس مطالبے یا تجویز کو پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں محض سیاسی مطالبہ یا تجویز قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ازسر نو حلقہ بندیوں اور مردم شماری کو بنیاد بنا کر کن حلقوں کی طرف سے عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے ۔
جہاں تک عام انتخابات کے التوا کے جواز کی بات ہے ، بلوچستان اسمبلی نے اپنی 30 مئی 2018 ء کی قرار داد میں ٹھوس جواز پیش کیا ہے ۔ وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی کی پیش کردہ اس قرار داد میں کہا گیا ہےکہ جولائی میں بلوچستان کے اکثر علاقوں میں شدید گرمی پڑتی ہے، جس کی وجہ سے ووٹرز کا انتخابی عمل میں حصہ لینا تقریبا ناممکن ہو جاتا ہے ۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پولنگ اسٹیشنوں میں پولنگ اسٹاف کا بیٹھنا بھی محال ہے ۔ بلوچستان اسمبلی کی اس قرار داد میں صرف بلوچستان کے علاقوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے اکثر میدانی علاقوں میں بشمول پنجاب ، سندھ اور خیبر پختونخوا جولائی میں شدید گرمی پڑتی ہے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ سیلاب اور بارشوں کا بھی موسم ہے ۔ پاکستان میں کبھی بھی اس موسم میں انتخابات نہیں ہوئے ۔ یہاں اکتوبر سے مارچ تک کے مہینے انتخابات کے لیے موزوں قرار دیئے جاتے ہیں ۔ دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں عام انتخابات کے لیے کوئی ایک ماہ اور اس کی ایک تاریخ ہوتی ہے۔ پاکستان کو بھی اسی نظام پر آنا ہو گا ۔ خیبر پختونخوا کے سبکدوش ہونے والے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا یہ مطالبہ بھی جائز ہے کہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے فاٹا کے علاقوں میں بھی صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ کرائے جائیں۔ صوبے میں عموماََ اتحادی حکومتیں بنتی ہیں ۔ فاٹا کے 21حلقوں میں ایک سال بعد پولنگ سے صوبے میں غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص حلقہ بندیوں یا مردم شماری کےنتائج کو بنیاد بنا کر عدالت میں انتخابات کے التوا کی درخواست دائر کرتا ہے تو بھی یہ ٹھوس جواز ہو گا ۔
جو سیاسی جماعتیں انتخابات کے التواکی مخالفت کر رہی ہیں ، وہی دراصل اس صورت حال کی ذمہ دار ہیں ۔ انہوں نے مردم شماری میں تاخیر کی ۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے آج اگرچہ یہ بیان دیا جا رہا ہے کہ عام انتخابات وقت پر ہوں گے لیکن مردم شماری کے نتائج میں تاخیر پر الیکشن کمیشن کئی بار خبر دار کر چکا ہے کہ اس تاخیر کی وجہ سے الیکشن متاثر ہو سکتے ہیں ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ مردم شماری میں تاخیر کی وجہ سے حلقہ بندیاں مکمل نہیں ہوسکی ہیں یا مکمل ہوئی ہیں تو متنازع بن گئیں اور ان کے خلاف کیس عدالتوں میں ہیں ۔ انہی سیاسی جماعتوں نے انتخابی اصلاحات کے بل کے مسودے کو حتمی شکل دینے میں غیر ضروری تاخیر کی ۔ اس کی وجہ سے بھی حلقہ بندیوں میں تاخیر ہوئی ۔ انہی سیاسی جماعتوں نے فاٹا اصلاحات کی منظوری میں تاخیر کی اور خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے فاٹا کے علاقوں میں ایک سال بعد صوبائی حلقوں کی پولنگ کا فیصلہ ازخود انتخابات کے التوا کا قانونی جواز پیدا کرتا ہے ۔ اگر کسی بھی وجہ سے انتخابات ایک یا دو ماہ کے لیے ملتوی ہو تے ہیں تو پھر انہیں مزید ملتوی کرنے کا جواز بھی موجود رہے گا ۔ دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں، جہاں جنگوں اور قدرتی آفات کے باوجود انتخابات وقت پر ہوتے ہیں۔ دعا ہے کہ پاکستان کا شمار بھی ان ملکوں میں ہونے لگے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین