• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے چند دن پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف مختلف اسپتالوں کے دورے کرتے رہے اور خاصے سرگرم رہے بلکہ بعض دن تو ایسے بھی گزرے کہ ایک ایک دن میں دو دو اسپتالوں کے دورے بھی کئے۔غرض کے کوئی دن ایسا نہیں تھا کہ وہ کسی نہ کسی اسپتال میں جا کر کسی وارڈ ، کسی مشینری اور کسی عمارت کا افتتاح نہ کرتے ہوں۔ اس بات میں حقیقت ہے کہ وہ اپنے دور اقتدار میں پاکستان کے دیگر چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے مقابلے میں بہت ایکٹو اور صحت کے مسائل پر گہری نظر رکھنےوالے رہے۔ صحت کے شعبے میں ان کی کوششیں اور کاوشوں سے بہت زیادہ تبدیلیاں آئیں۔ نئے اسپتال بھی قائم ہوئے اور پرانے ہسپتالوں کو اپ گریڈ کیا گیا۔ لیکن صحت کے شعبے میں ابھی بھی کچھ ایسے مسائل ہیں جن پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پنجاب حکومت کے آخری روز شہباز شریف نے پی کے ایل آئی میں میڈیا کے سینئر لوگوں سے ایک بات چیت رکھی۔ میڈیا کے لوگوں سے یہ بات چیت وہ کہیں اور بھی رکھ سکتے تھے مگریہاں پر میڈیا ٹاک رکھنے کی دو وجوہات تھیں ۔ بطور وزیر اعلیٰ یہ ان کی آخری تقریب تھی۔
پہلی وجہ یہ تھی کہ اس میڈیا ٹاک سے صرف ایک روز قبل اور پھر اس سے ا گلے روز گردوں کی پیوند کاری کے دو کامیاب آپریشن کئے گئے یہ دونوں مریض غریب تھے اور ان کے گردوں کی پیوند کاری بالکل مفت کی گئی۔ تمام اخراجات حکومت نے برداشت کئے۔ یہی آپریشن پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر میں پندرہ سے بیس لاکھ بھارت میں پچاس سے ساٹھ لاکھ اور امریکہ میں ایک کروڑ روپے سے زائد میں ہوتا ہے جو یہاں بالکل مفت کیا گیا۔
گردوں کے اس پیوند کاری کے عمل میں پی کے ایل آئی کا کردار قابل ذکر ہے وہاں پر آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی (OTA) کے ڈائریکٹر جنرل اور معروف فزیشن پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود خراج تحسین کے لائق ہیں۔(OTA) انسانی اعضاء کی پیوند کاری سے پہلے تمام کیسوں کا جائزہ لیتی ہے اس کے بعد اجازت دیتی ہے۔
OTAکے قیام سے اعضاء کی پیوند کاری میں جو قباحتیں پہلے پیش آ رہی تھیں اور گردوں کی خرید و فروخت جو پہلے ہو رہی تھی وہ بہت حد تک ختم ہو گئی ہے۔ اس میڈیا ٹاک کو یہاں منعقد کروانے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ شہباز شریف نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے دور اقتدار میں پی کے ایل آئی میں گردوں کی پیوند کاری شروع کروا دیں گے سوانہوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا بلکہ انہوں نے اس موقع پر میڈیا کے لوگوں سے بات کرتے ہوئے کہا ’’میں نے اپنے تقریباً ٰتمام وعدے پورے کئے اور میں ہر امتحان میں پورا اترا ہوں عوام کے مسائل حل کرنے میں ہر ممکن کوشش کی البتہ جگر کی پیوند کاری کا وعدہ پورا نہیں کر سکا۔ اس کی چند وجوہات تھیں لوڈ شیڈنگ تقریباً ختم ہو چکی ہے لیکن یکم جون کے بعد اگر لوڈ شیڈنگ ہوئی تو ن لیگ اس کی ذمہ دار نہیں ہو گی اور نہ میرا کوئی ذمہ ہوگا۔‘‘یہ بات انہوں نے دو تین مرتبہ دہرائی۔ دوسری جانب کراچی میں لوڈ شیڈنگ اور پانی کا مسئلہ کافی شدت اختیار کر چکا ہے اور 2025تک پاکستان میں پانی کا شدید بحران پیدا ہو جائے گا۔ پاکستان میں اس وقت دو کروڑ افراد ہیپاٹائٹس بی اور سی میں مبتلا ہیں اور ہر روز ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب دو کروڑ افراد کے جگر کی پیوند کاری تو ہو نہیں سکتی ۔ چنانچہ آج پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں جگر کا سرطان اور جگر کے امراض بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔
ہیپاٹائٹس کا علاج بہت مہنگا اور جگر کی پیوند کاری اس سے بھی مہنگا علاج ہے ۔ پاکستان کے ہر شہر میں لیور اور گردوں کے ٹرانسپلانٹ کے اسپتال بنانے کی ضرورت ہے یا پھر تمام ٹیچنگ اسپتالوں میں قائم امراض معدہ و جگر کے شعبہ جات کو اپ گریڈ کر دیا جائے۔ پولیو کے قطروں کی طرح ہر شہری کو ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین لازمی کروائی جائے۔ ہر کالج میں سال اول میں داخلہ کے وقت لازمی ہو کہ ہر طالب علم /طالبہ کو فیس جمع کرواتے وقت ہیپاٹائٹس بی کی ویکسینیشن کی جائے جس طرح میڈیکل کالجز میں ہوتا ہے۔ حکومت بھلے جدید اسپتال بنائے وہ امریکہ اور برطانیہ کے اسپتالوں کے ہم پلہ بھی ہوں لیکن اصل بات یہ ہے کہ بیماریوں کا سد باب کیا جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں کہ بیماریاں پیدا ہی نہ ہوں۔
پاکستان میں اس وقت لیور ٹرانسپلانٹ سرجنز کی شدید کمی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ماہرین کی تعداد میں فوری طور پر اضافہ کیا جائے۔ شہباز شریف نے اسی میڈیا ٹاک کے دوران بتایا کہ 2003میں انہیں کینسر ہوا تھا اور امریکہ سے علاج کروایا تھا جس پر 60ہزار ڈالر اس زمانے میں خرچ ہوئے تھے۔ اب کہیں نیب مجھ سے یہ سوال نہ کرے کہ یہ رقم کہاں سے آئی تھی ۔اس پر حاضرین ہنس پڑے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں کینسر کی علاج گاہوں میں اضافہ کیا جائے۔ اور اس کا علاج بھی مفت ہونا چاہئے۔
پاکستان میں ذہنی امراض میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور سندھ حکومت نے پچھلے سال سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی قائم کر دی تھی اور وہ اب فعال ہو چکی ہے۔ جبکہ سندھ مینٹل ہیلتھ بل 2013 میں سندھ اسمبلی نے پاس کیا تھا۔ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کی پاکستان میں اشد ضرورت ہے حالانکہ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کا کام پنجاب میں پہلے شروع ہوا تھا۔ لیکن بعض وجوہات کی بنا پر یہ اتھارٹی یہاں پر قائم نہ کی گئی البتہ سندھ حکومت نے پنجاب کے اس آئیڈیا کو سن کر فوری طور پر اپنے ہاں میٹنل ہیلتھ اتھارٹی قائم کر دی۔
اگر شہباز شریف اپنے دور اقتدار میں یہ اتھارٹی پنجاب میں قائم کر دیتے تو اس سے دماغی اور ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں کو بہت فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ اس وقت پنجاب مینٹل اسپتال میں ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے ۔آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ 1400ذہنی مریضوں کے لئے (جن میں 400 خواتین بھی شامل ہیں ) رات کو صرف ایک ڈاکٹر ہوتا ہے اور 400کے قریب مختلف اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہے ۔پنجاب بھر میں جن اسپتالوں میں شعبہ ذہنی و نفسیاتی امراض ہیں ان کے پاس بستروں کی شدید کمی ہے۔ یہ کتنی دلچسپ بات ہے کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کا کسی ٹیچنگ اسپتال کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔حالانکہ اس ادارے کو کسی ٹیچنگ اسپتال کے ساتھ اٹیچ کرنا چاہئے البتہ اس کا ایڈمنسٹریٹو کنٹرول خود مختار ہے۔ صرف ذہنی مریضوں کے علاج کے لئے ڈاکٹروں ، نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تربیت کے لئے اس کا کسی ٹیچنگ اسپتال کے ساتھ منسلک ہونا چاہئے کیا ہی اچھا ہوتا کہ شہباز شریف جاتے جاتے پنجاب مینٹل ہیلتھ اتھارٹی قائم کر دیتے۔
حال ہی میں سندھ اسمبلی کے اجلاس میں ایک معزز ممبر نے کہا کہ 2008ءسے لے کر اب تک سندھ میں پندرہ سو ارب روپے ترقیاتی کاموں کے لئے رکھے گئے۔ لیکن پورے لاڑکانہ میں ایک بھی یو سی نہیں جہاں پر پینے کا صاف پانی مل سکے۔ یہ وہ لاڑکانہ ہے جہاں سے تین مرتبہ وزیر اعظم آ ئے مگرلاڑکانہ کی حالت نہ بدلی۔ پورے سندھ کا ایک شہر بھی دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے شہر کےبرابر تو چھوڑیں اس کا 25فیصد بھی سہولتیں نہیں رکھتا۔ اربوں روپے کے بجٹ کے باوجودآج کراچی کے لوگ پینے کے لئے صاف پانی کو ترس رہے ہیں۔ اگر ہم نے ڈیم نہ بنائے تو یقین کریں کہ صرف چاریا پانچ برس بعد پانی کا بڑا خوفناک بحران آئے گا۔ اور لوگ پانی نہ ملنے پر مرنے لگیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین