• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مورخ جب تاریخ رقم کرے گا، تو خیبر پختونخوا میں فاٹا کے انضمام کے کارنامہ کا سہرا غیر قوم پرست قوتوں کے سر باندھتے ہوئے کچھ یوں رقم طراز ہوگا۔ نہ صرف یہ کہ پارلیمنٹ بلکہ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی سے بھی باہر مختلف فورموں پر غیر قوم پرست سیاسی و مذہبی جماعتوں کا کردار فاٹا کے خیبر پختونخوا میں شمولیت کے لیے بنیادی رہا، جبکہ پاکستان کی پارلیمانی لحاظ سے اُس وقت کی سب سے بڑی پختون قوم پرست جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی قومی اسمبلی میں واحد جماعت تھی جس نے انضمام کی مخالفت میں ووٹ دیا ۔ جے یو آئی کے حوالے سے تاریخ کو محض اتنا لکھنا ہوگا کہ اس جماعت نے قومی اسمبلی میں اگر حمایت میں ووٹ نہیں دیا تو مخالف پلڑے میں بھی ووٹ نہیں رکھا۔ یہ مسلم لیگ، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم تھی جن کے دم قدم سے یہ تاریخ ساز عمل پایہ تکمیل تک پہنچا۔ تاریخ اس فیصلے کی بابت جماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعت کو دگنا کریڈٹ دےگی کہ جس نے نہ صرف قومی اسمبلی بلکہ عوامی نمائندگان کے ہر فورم پر انضمام کے حق میں جاندار و یادگار کردار ادا کیا۔
بہر صورت اب نئے منظر نامے میں مولانااور اچکزئی صاحبان کے موقف پر بھی غور کی ضرورت ہے۔ بل پر صدر مملکت کے دستخظ کے بعد فاٹا اب خیبر پختونخوا کا حصہ بن چکا، جسے پھر علاقہ غیر بنانا ممکن نہیں، تاہم اس مثبت فیصلے کے منفی تاثر کو دور کرنے کے لیے مذکورہ دونوں اصحاب سے راہ و رسم کی ضرورت بھی مگر کم نہیں ہوئی ہے۔ مولانا صاحب جب کہتےہیں کہ یہ انضمام امریکی ایجنڈا ہے۔ تو اس کو محض مذہبی رہنمائوں کا روایتی واویلا قرار دے کر اس سے صَرف نظر کرنا یوں درست نہیں کہ بہر کیف اس فیصلے کا ایک Beneficiary (فائدہ اُٹھانے والا)امریکا بھی ہے۔ جہاں امریکا نے فاٹا کو روس کے خلاف Holy Warکے لیے زرخیز بنایا وہاں یہ وہی علاقہ ہے جہاں سے جنگجو ئوں پر افغانستان میں مداخلت کرکے امریکہ کے لئے درد سر پیدا کرنے کا الزام ہے۔ ظاہر ہے سیٹلڈ ایریا میں ایسا کرنا ممکن نہیں رہتا۔ محترم محمود خان اچکزئی کا موقف بھی منطقی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ انگریز اور قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے قبائل کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ آزاد رہیں گے ۔ ان کے رسم و رواج، روایات،جرگہ نظام وغیرہ پر کوئی قدغن نہیں ہوگی۔ انضمام ظاہر ہے کہ ان امور پر اثر انداز ہوگا۔ اس کالم میں ناچیز ان کے موقف پر اس لیے اظہار خیال مناسب نہیں سمجھتا کہ قبل ازیں ،انضمام کے حق میں متعدد کالموں میں اچکزئی کے موقف سے اختلاف کا حق راقم استعمال کرچکا ہے۔ اچکزئی صاحب کا کہنا یہ تھا کہ اس سلسلے میں کسی فیصلے پر پہنچنے سے قبل قبائل کی رائے معلوم کی جائے۔ انضمام کے حامی اس کا جواب یہ دیتے تھے کہ قبائل کے قومی اسمبلی و سینیٹ کے اراکین کے پاس چونکہ قبائل کے ووٹرز کا مینڈیٹ ہے، لہٰذااراکین کی رائے کو قبائل کی رائے تصور کیا جائے۔ خیر ان قبائل کے نمائندوں کا کردار بھی اب بے نقاب ہوچکا ہے۔
ہم یہاں کہنا یہ چاہتے ہیں کہ چونکہ انضمام کا عمل کسی معجزے سے کم نہیں، کسی کے تصور میں بھی یہ نہیں تھا کہ اتنا بڑا تاریخی فیصلہ اس طرح آسانی سے ہوجائے گا، لہٰذا یہ فیصلہ اتنی جلدی بعض عناصر کو ہضم بھی نہیں ہوگا۔آپ کو یاد ہوگا کہ جب فاٹا کے اراکین اسمبلی انضمام کے حق میں بات کررہے تھے،توبڑے پختون رہنما سی پیک سی پیک کھیل رہے تھے۔ 11اکتوبر 2015کو راقم کا کالم ’قبائلی علاقوں کاصوبہ پختونخوا میں انضمام، روزنامہ جنگ میں شائع ہوا، تو بڑےبڑے اصحاب نے انضمام کو مذاق جانا۔راقم نے متعدد کالم لکھے،4ستمبر اور11نومبر 2016کے کالموں میں، ناچیز نے ان پختون قوم پرستوں پر تنقید کی،جو ابھی تک سی پیک میں کوئی پیکٹ ڈھونڈ رہے تھے۔کہنا یہ مقصود ہے کہ ہر طرف کی خاموشی پھریکا یک حما یت میں تبدیل ہوگئی اور جلد ہی پورا پاکستان انضمام کےمطالبے کی پشت پر تھا۔۔ صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کے لیے جو پاپڑ بیلنے پڑے تھے، اس کا تو عشرِ عشیر بھی یہاں دیکھنے کو نہیں ملا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1997میں صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کی اولین کوشش کس طرح ناکام بنادی گئی تھی۔ مسلم لیگ اوراے این پی کا اتحاد تھا اور میاں نواز شریف غیر محسوس طریقےسے نام کی تبدیلی کے لیے ہوم ورک کررہے تھے۔ اس دوران پیپلز پارٹی کو خبر ہوگئی۔ وہ صوبہ سرحد (پختونخوا) اسمبلی میں قرار داد لائی، جو منظور ہوئی۔ اے این پی کے بعض اصحاب نے بھی قبل از وقت ’جشن ‘ منایا۔ جس پر شیخ رشید اور چعجاز الحق جیسے لوگوں نے مخالفت کا میدان گرم کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو مشکل میں ڈال دیا۔ ملک کی اکثر سیاسی و مذہبی جماعتیں، صحافی اور زندگی کے مختلف شعبوں کے بااثر لوگوں نے جلتی پر تیل ڈالا۔ راقم نے پختونخوا نام کے حق میں متعدد کالم لکھے۔ جب ایک ممتاز کالم نگار نے پختونخوا کی مخالفت میں کالم لکھا تو میں نے انہیں ایک خط لکھا، جو انہوں نے 18نومبر 1997کو اپنے کالم ’پختونخوا‘ میں ازراہ کرم من و عن شائع کیا۔ ایک اور نامور صحافی نے میرے حوالے سے کالم لکھا۔ جن کی سوچ میری سوچ کے برعکس تھی۔ جنرل حمید گل صاحب نے خصوصی طور پر میری بابت’ دریافت ‘کیا، اور بہت سارے واقعات ہیں۔ عرض یہ ہے کہ پختونخوا نام کو اس قدر جلدی قبول کرنے پر کوئی تیار نہیں تھا۔  میں نے 22فروری 1998کو روزنامہ جنگ میں ایک کالم ’’پختونخوا اور اے این پی کی ناکام سیاست ‘‘ لکھا اس کالم میں، میں نے اے این پی کے ان لوگوں پر تنقید کی میرے خیال کے مطابق جن کی وجہ سے نام کی تبدیلی کا معاملہ قبل ازوقت منظر عام پرآیا۔مرحوم و مغفور اجمل خٹک صاحب جب کراچی آئے تو مجھے یاد کیا، قصر نازمیں ہم ایک کمرے میں بیٹھ گئے، میں سوچ رہا تھا کہ شاید وہ میرے کالم پر اظہارِناراضی کرینگے، لیکن وہ بڑے لوگ تھے، میرے کالم کی تعریف کی اور کچھ دیگر باتیں بتائیں جن کی وجہ سے ولی خان بابا اور وہ حکومت سے علیحدگی چاہتے تھے ۔ پھر آپ نے دیکھاکہ اسفند یار ولی خان کی قیادت میں اسی اے این پی کی کوششوں کی وجہ سے پختونخوا کا نام پاکستان کے آئین کا حصہ بنا۔ عرض یہ ہے کہ عید کے بعدانضمام مخالف تحریک کے جو خدشات ہیں، خدا نہ کرے کہ وہ عملی صورت اختیار کرلیں۔ یہ ہے کہ اس سے نوجوانوں کی ایک تحریک تو پس منظر میں چلی جائے گی لیکن محاذ آرائی سے بہر صورت ملک و قوم کو نقصان پہنچے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جن جماعتوں کے قائدین نے انضمام میں مرکزی کردار ادا کیا، وہ اسی طرح فعال رہیں اور ہر اس جماعت ، گروہ و طبقے سے بات کرکے اسے قائل کرنے کی کوشش کی جائے جو ناراض ہے تاکہ انضمام کی صورت میں قبائل، پختونخوا اور وطن کو ملنے والے ثمرات ضائع نہ ہونے پائیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین