• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی علم الکلام سولہ سنگھار کے ساتھ پورے جوبن پر ہے۔ ”ن“ لیگ کے سیکرٹری اطلاعات مشاہد اللہ خان نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی یو این او (اقوام متحدہ) سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ میرے نزدیک ابھی اس تجویز میں ایک آنچ کی کسر رہ گئی ہے۔ مکمل تحقیقاتی سینچری کے لئے موجودہ آباد اراضی سیارے کے آخری سرے پر واقع برمودا تکون جائیں، وہاں قیام پذیر اس پوشیدہ مخلوق سے رجوع کیا جائے جس کی پہنچ ادراک کی سرحدوں سے پرے بھی ہے۔ جناب مشاہد اللہ خان جیسی مرنجاں مرنج شخصیت کا اطمینان بہرحال نہایت لازمی ہے۔
بسا اوقات کسی جماعت یا فرد کی وکالت کا مسئلہ نہیں تاریخی مجبوری ہوتی ہے۔ مثلاً اس قومی تنازعے کی جڑیں سولہ برس قبل دائر کردہ اصغر خان کی پٹیشن میں نہیں، یہ بیج اس دن بویا گیا جس دن 1967ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ 1967ء کے بعد تمام سیاسی حادثات، جھگڑے، وقوعہ جات اور سانحات اسی قومی سیاسی تناور درخت کو جڑوں سے اکھاڑنے کی ناکام حسرتوں کا نتیجہ ہیں۔پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تشکیل، ضیاء الحق کی آمد، بھٹو کی پھانسی، پھانسی کے بعد ان کی مسلمانی کا چیک اپ، تاحال اسرار کے پردوں میں لپٹی ہوئی دونوں بیٹوں کی موت، بی بی کی شہادت اور نصرت بھٹو کا زندہ عدم یادداشت اور خاموشی کی چادر اوڑھے عالم جاوداں کو منتقل ہو جانا، یہ سب 1967ء کے اسی جرم کی سزا ہے جس کا اختتام ”آخری قہقہہ غریب عوام کا ہوگا“ کی سچائی پر ہوتا ہے۔ اصغر خان کی پٹیشن پر عدالت عظمیٰ کے مختصر فیصلے سے مجھے دو ڈھائی برس قبل آئی ایس آئی کے زبان زد خاص و عام (ر) بریگیڈیئر امتیاز کی الیکٹرانک چینلز پر سنسنی خیز اور اچانک رونمائی یاد آگئی۔ چہرہ دکھائی کی ان تقریبوں میں انہوں نے کہا ”میں اور کتنا جی لوں گا۔ 19برس بعد میرا ضمیر جاگ اٹھا ہے، میں اپنے ضمیر کی خلش دور کرنے، پاکستانیوں کی عدالت میں اپنی خطاؤں کو تسلیم کرنے اور اگلی منزل کی خاطر سرخرو ہونے کے لئے میدان میں نکلا ہوں۔ اب جو ہو سو ہو“!
اصغر خان، بڑھاپے کی دہلیز پر جھکی کمر حب الوطنی کے ایوان میں تیر کی طرح سیدھی ہے،انہوں نے اپنے صبر اور انتظار کے صدقے ایک سچے راز کو ایوان عدل کے ترازو میں مصدقہ ثابت کر دیا۔ (ر) بریگیڈیئر امتیاز نے اپنے ضمیر کے دباؤ پر اس سچ کے انکشاف کا آغاز کیا تھا، اصغر خان کی رٹ پٹیشن نے تاریخ کی فطرت کے طور پر اس کی تکمیل کر دی۔ بریگیڈیئر صاحب کے ان اعترافات کے دورانئے میں مجھے اپنے ایک دوست کا لکھا یاد آتا ہے۔ اس نے کہا تھا ”مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ آدمی کون اور کیا ہے؟ وہ برا تھا تو مجھے کیا، اب بھی کوئی سازش کر رہا ہے تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔ کچھ باتیں جھوٹی بھی ہیں تو کیا ہوا؟ اس سارے قصے میں ایک سچ نکھر کر سامنے آیا ہے…“۔
انفرادی عظمتوں کے حقائق بتا کر ملک و قوم کی بقاء سے جڑی اجتماعی صداقتوں کی نفی سے باز آنا چاہئے کسی کا ذاتی زہد و تقویٰ عوام کی ذمہ داری نہیں بنتا۔ اقتدار امانت ہے، دیکھنا یہ ہے کہ خیانت ہوئی یا نہیں؟ تم کوئی جرم کرو زمین شیشے کی بن جائے گی۔ کائنات میں جب تم کوئی سازش کر رہے ہوتے ہو، یقین رکھو عین اس وقت کسی نہ کسی مقام پر تمہارے خلاف بھی سازش ہو رہی ہوتی ہے، خدا کے انصاف کی کرسی ہمیشہ لدی پھندی رہتی ہے اور انصاف ساتھ ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ ہمیں ایسا ہی واضح کیا گیا ہے۔
16برس پہلے اصغر خان کو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے پر پیپلز پارٹی نے نہیں اکسایا تھا، بریگیڈیئر (ر) امتیاز کو پیپلز پارٹی منظر عام پر نہیں لائی تھی، عمران خان پیپلز پارٹی کی تخلیق نہیں، اسامہ بن لادن کے پیسوں کی کہانی کا بھی پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، کل 1996ء کی دو تہائی اکثریت کا راز مکافات عمل کا تازیانہ بن کے برس پڑے، اس میں پی پی کہاں سے قصوروار ٹھہرے گی؟ مہران بینک سکینڈل کی پی پی سمیت تفصیلات سفید پوش وارداتوں کے ایک اور مثالی نمونے کا افشاکر دے، وہ بھی پی پی کے نامہ اعمال میں درج نہیں کیا جاسکتا ۔ جناب عارف نظامی سے آرٹیکل پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ یا اس کے میڈیا سیل نے نہیں لکھوایا؟ شریف الطبع اور تہذیب نفس کی علامت پروفیسر غفور احمد نے ”بے نظیر، نامزدگی سے برطرفی تک“ کی کتاب پی پی کے کہنے پر شائع نہیں کی، نہ پیسے دینے اور لینے کے اس واقعہ کا ذکر پی پی کی کسی انگیخت پر کیا، جس کا اخبارات میں حوالہ دیا جا رہا ہے؟ حفیظ اللہ خان نیازی نے اپنے کام ”منی لانڈرنگ اور کیریکٹر لانڈرنگ“ میں صدر غلام اسحاق خان مرحوم کے ساتھ اپنی دو بدو گفتگو پی پی کو پڑھانے یاسنانے کے لئے نہیں کی؟ سپریم کورٹ پر حملے کے وقت پی پی اس کی فلم نہیں بنا رہی تھی؟
اصغر خان کی پٹیشن اور جو کچھ ہورہا ہے، یہ سب وقت کا گجر ہے کسی شخص یا جماعت کو پاکستانی عوام کو دھمکانا اور خوف زدہ نہیں کرنا چاہئے۔ یہ پستی کی حد سے گرنے والی حالت ہوگی۔ پاکستانی ووٹ کی پرچی ہاتھ میں تھامے بیلٹ بکس کے منتظر ہیں، اب کوئی لال حویلی کا مکیں ”ستو پینے“ کی اصطلاح سے شور و غوغا مچائے، کوئی اجتماعی قبروں کی دہشت کا ڈراوا دے؟ جنرل (ر) اسلم بیگ اور جنرل (ر) حمید گل بے شک ”بین السطوریہ پیغام دیں کہ ”ان کے خلاف قدم اٹھانے کی کس میں ہمت ہے“۔ اسلم بیگ کا عدالت عظمیٰ کو بھجوایا گیا وہ پیغام پاکستانیوں کی عزت نفس کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست رہے کہ:
”اگر جونیجو اور اسمبلی کو بحال کیا گیا تو یاد رکھیں ہمیں صرف سڑک پار کرنا ہوگی“، ”انتخابات نہیں ہورہے“ جیسے تجزیے اور معلومات اذیت پسندانہ لذتیت کے ساتھ پیش کئے جاتے رہیں، ایف آئی اے کو نہیں مانتے اور فلاں کو نہیں مانتے کی بڑھک بازیوں کو عوامی شعار بنا لیا جائے، وقت کے گجر کی صدا اب گونجتی ہی رہے گی۔
سپریم کورٹ نے 1990ء کے عام قومی انتخابات کو غیر آئینی قرار دیدیا ہے۔ یہ سارا حکومتی دورانیہ اپنے کل اقدامات اور فیصلوں سمیت غیر آئینی ڈیکلیئر کیا جانا چاہئے۔ موجودہ پارلیمینٹ اس سلسلے میں مناسب وقت پر متفقہ ڈیکلریشن دے سکتی ہے جسے اسی طرح پارلیمینٹ کی دیوار پر ثبت کیا جائے جیسے عزت مآب جسٹس نسیم حسن شاہ کا نواز شریف صاحب کی 1990ء والی حکومت بحال کرنے کا فیصلہ کندہ ہے۔کون لوگ پاکستان کی خاکی اور غیر خاکی خفیہ ایجنسیوں کا رول ماڈل تھے، کس کس نے کس کس طرح ان ایجنسیوں سے مال وصول کیا، سپریم کورٹ کے فیصلے کا اصل موضوع کیاہے، جرم کا کھُرا کس گھر کی طرف جاتا ہے میرا سرے سے یہ درد سری نہیں، سب سے ارفع خوشی پاکستانیوں کو اس بے ساختہ ماحول کی دستیابی ہے جس میں انہیں ان کا ووٹ چوری کرنے اور کرانے والوں کی سو فیصد شناخت ہوگئی۔ یہی تاریخ کا سفر ہے!
یہ سفر صدر کے بقول ”نئی طرز کے آمروں“ کی پوری پہچان کروا رہا ہے۔ جن لوگوں نے کسی معاملے میں فیئر پلے کیا ہوتا ہے ان کا لب و لہجہ چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت حسین جیسا ہوتا ہے۔ وہ اگر مگر کا مرکب نہیں ہوگا سوچتا ہوں سچ کے کیسے کیسے سوداگر پاکستان کی انمول رہنما محترمہ بے نظیربھٹو کے منہ آتے رہے۔ پنجابی محاورے میں تھوڑا سا تصرف:
”ذات دیاں کوڑ کریِلیاں تے شہتیراں نوں جپھے“
سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے پر آخری قہقہے والا غریب بے پناہ رسان سے گنگنانے لگا ہے:
ہم اہل صفا، مردودِ حرم، مسند پہ بٹھائے جائیں گے“
سیاسی علم الکلام سولہ سنگھار کے ساتھ پورے جوبن پرہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی تحقیقات یو این او تو کیا برمودا تکون کی ان دیکھی مخلوق سے کرانی چاہئے۔ جناب مشاہد اللہ خاں جیسی مرنجاں مرنج شخصیت کا اطمینان بہرحال نہایت لازمی ہے۔
تازہ ترین