• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مچھروں کو چھاننے اور اونٹوں کو نگلنے کی روش کوئی ہم سے سیکھے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی اصل روح اور بنیادی ایشو یعنی سیاست میں فوج اور ایجنسیوں کی مداخلت کو ایک طرف رکھ کر ہم صرف چند لاکھ روپوں کے تذکرے میں پھنس کر رہ گئے۔ الزام لگتا ہے کہ فلاں فلاں نے لئے ہیں اور فلاں کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ میں نے نہیں بلکہ فلاں فلاں نے لئے ہیں ۔ حالانکہ اصل معاملہ سیاست میں فوج اور ایجنسیوں کی دراندازی اور سیاسی قیادت کا ان کے ساتھ ساز باز کا ہے جس کے میاں نوازشریف صاحب 1981ء سے لے کر 1994ء تک پورے خشوع و خضوع کے ساتھ مرتکب ہوتے رہے ۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ میاں صاحب کی سیاست کا بیج جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء الحق کے گملے میں بویا گیا جسے جنرل اختر عبدالرحمان اور جنرل حمید گل نے تناور درخت بنایا ۔
جنرل اسددرانی نے تو پیسہ دے کر جنرل حمید گل صاحب کے لگائے گئے آئی جے آئی کے پودے کی آبیاری کی جس کی بعدازاں انہوں نے بے نظیر بھٹو کی ”خدمت“ کے ذریعے تلافی کی بھی کوشش کی لیکن اصل جرم تو آئی جے آئی کو بنانے اور اس کا حصہ بننے کا تھا ‘ جس کے مرتکب جنرل حمید گل صاحب کی اقتداء میں غلام مصطفی جتوئی ‘میاں نوازشریف ‘ مولانا سمیع الحق اور قاضی حسین احمد وغیرہ باجماعت ہوئے۔ سپریم کورٹ میں آبیاری کا کیس زیرسماعت تھا ‘ درخت لگانے کا نہیں ۔ پیسے لئے یا نہیں لئے لیکن مذکورہ رہنما دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیں کہ کیا انہیں پتہ نہیں تھا کہ جس آئی جے آئی کا وہ حصہ ہیں ‘ وہ جنرل حمید گل کی بنائی ہوئی ہے اور یہ کہ فوج اور ایجنسیاں ان کو سپورٹ کررہی ہیں۔ یوں اگر مگر میں وقت ضائع کرنے کی بجائے میاں نوازشریف سے لے کر قاضی حسین احمد تک اور سیدہ عابدہ حسین سے لے کر مولانا سمیع الحق تک ‘ سب کو اسی طرح قوم سے معافی مانگنی چاہئے جس طرح کہ عمران خان نے جنرل پرویز مشرف کی حمایت کرنے پر مانگی ہے ۔
اصغر خان کیس کے مجرمان‘ ملزمان اور حکمران اس معاملے کو جس طرف لے کر جارہے ہیں یا پھر میڈیا جس طریقے سے بحث کرنے لگا ہے‘ اس کا نتیجہ اداروں کے درمیان تناؤ میں اضافے کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جرنیلوں کو سزا دینا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ پاکستان ترکی ہے اور نہ یہاں کوئی سیاسی لیڈر طیب اردگان جیسا ہے ۔ فرض کریں اگر عدالت جنرل اسلم بیگ ‘ جنرل اسددرانی اور جنرل حمید گل کو سزائیں سنادے اور پھر پورے ملک میں صدائے عام ہوجائے کہ وہ سیاسی لیڈر انہیں کوڑے مارنے آجائے ‘ جس نے کبھی فوج اور ایجنسیوں کے ساتھ ساز باز نہ کی ہو تو کیا پاکستان میں کوئی لیڈر ایسا موجود ہے جو قرآن ہاتھ میں رکھ کراس دعوے کے ساتھ سامنے آجائے کہ اس نے کبھی یہ کام نہیں کیا؟ کیا زرداری صاحب نے اسی غلام اسحاق خان صاحب سے بطور نگران وزیر حلف نہیں اٹھایا تھا؟۔ کیا بے نظیر بھٹو نے جنرل بیگ کے کہنے پر صاحبزادہ یعقوب کو وزیرخارجہ برقرار نہیں رکھا تھا؟۔ کیا پیپلز پارٹی کا موجودہ اقتدار این آر او کے ذریعے پرویز مشرف کے ساتھ ساز باز کا مرہون منت نہیں ؟
قمرزمان کائرہ صاحب کتنے بھی دعوے کرلیں لیکن سرتاپاکرپشن میں ڈوبی ان کی حکومت کبھی بھی جرنیل صاحبان کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی۔ یہ تو بائیس سال قبل کا واقعہ ہے ۔ یہ تو سیاست میں دراندازی کا واقعہ ہے۔ پرویز مشرف صاحب کا اقدام تو تازہ ترین ہے ۔ ان کا جرم سیاست میں دراندازی کا نہیں بلکہ اس پر مکمل شب خون کا ہے ۔ وہ بھی ایک بار نہیں بلکہ دو بار ۔ زرداری صاحب کی حکومت اگر ان کے خلاف کوئی کارروائی کرچکی ہو تو پھر ان تین جرنیلوں کے خلاف بھی کرسکے گی اور اگر جواب نفی میں ہے تو پھر موجودہ دعوے محض دعوے ہیں ۔ حکومت تو حکومت ہے یہ عدالت بھی پرویز مشرف کے خلاف کچھ نہیں کرسکی اور انہیں وردی میں صدارت کا انتخاب لڑنے کی اجازت دے دی تھی۔ اداروں کو اپنی حدود میں لانے کا موقع کسی اور نے نہیں بلکہ خود زرداری صاحب نے ضائع کیا۔ گزشتہ انتخابات کے بعد جب میاں نوازشریف ان کے ساتھ شریک حکومت تھے ۔ ان کا ذاتی غصہ تھا یا پھر سبق لے چکے تھے‘ لیکن بہر حال وہ فوج اور ایجنسیوں کو اپنی حدودمیں لانے کے لئے سنجیدہ تھے ۔ اگر زرداری صاحب عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کی بجائے اس سلسلے میں میاں صاحب کا تعاون طلب کرتے تو وہ ہر اقدام کے لئے تیار تھے ۔ یہ موقع تاریخ میں پہلی مرتبہ آیا تھا کہ اپوزیشن فوج کے ساتھ ساز باز کی بجائے ‘ سیاسی حکومت کے ساتھ کھڑی تھی ۔اسی طرح عدلیہ جو ہمیشہ فوج کے لئے ایک مہرے کے طور پر استعمال ہوئی ‘ پہلی مرتبہ فوجی سربراہ کے آگے ڈٹ جانے اور طویل مزاحمت کے بعد ایک انقلابی عدلیہ کے طور پر بحال ہوئی تھی۔ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے مہروں کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے والی مذہبی جماعتیں پہلی مرتبہ اس پر برہم تھیں۔
گزشتہ انتخابات سے فوج اور آئی ایس آئی کو دور رکھ کر جنرل کیانی بھی سیاسی قیادت کو راستہ دے چکے تھے ۔ لیکن اس موقع کو ضائع کرکے روایتی سیاسی چالاکی سے کام لیا گیا ۔ درمیان میں جنرل پاشا صاحب کی دراندازی کا دور ضرور آیا لیکن ان کی رخصتی کے بعد سیاست میں دراندازی کی شکایتیں کم ہوگئی ہیں ۔ تحریک انصاف سے لوگوں کی واپسی اور ایم ایم اے کی بحالی میں مشکلات سے بھی ثابت ہورہا ہے کہ آئی ایس آئی سیاست کی طرف متوجہ نہیں ۔ اس لئے اب سیاسی ہلڑبازی اور ٹاک شوز میں فوج پر تبرا بھیجنے کی بجائے مکالمے ‘ ٹھوس اقدامات اور باہمی احترام کے ذریعے ایسا میکنزم بنانے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے مستقبل میں سیاست کے اندر فوج اور ایجنسیوں کی دراندازی کا راستہ روکا جاسکے۔ یہ فوج کے ساتھ اعتماد بڑھانے کا وقت ہے نہ کہ مخاصمت اور ٹکراؤ کا ۔ جس طریقے سے بحث چل نکلی ہے ‘ اس سے خیر کے برآمد ہونے کا کوئی امکان نہیں البتہ سول ملٹری تناؤ مزید بڑھے گا اور سیاسی قوتیں ایک بار پھر تصادم کی طرف جائیں گی اور یہی تصادم ہی فوج اور ایجنسیوں کی مداخلت کی راہ ہموار کرتا ہے ۔ یوں اس فضول تکرار کی بجائے سیاسی قوتوں کے درمیان نئے رولز آف گیم بننے چاہئیں ۔ اسی طرح سول اور ملٹری قیادت کے مابین سنجیدہ اور حقیقی مکالمے کا اہتمام ہونا چاہئے جس میں اداروں کے لئے نئی حد بندی کے ساتھ ساتھ نیشنل سیکورٹی کے معاملات پر بھی اتفاق رائے ہوسکے ۔ اگر ماضی کی بنیاد پر حساب کرنا ہے تو پھر ایک قومی کمیشن بنا کر ماضی کے تمام معاملات اور تمام کردار اس کے سپرد کردیئے جائیں اور اگر مٹی پاؤ والی پالیسی اپنا کر آگے بڑھنا ہے تو پھر سب سے متعلق مٹی پاؤ والی پالیسی اپنانا ہوگی۔
تازہ ترین