• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ نے لاہورہائی کورٹ کی طرف سے انتخابی امیدواروں کےلیے پارلیمنٹ کے تیار کردہ نئے کاغذات نامزدگی کلعدم قرار دیے جانے کے فیصلے کو معطل کر دیا جس کا مقصد25 جولائی کے انتخابات کو التوا سے بچاناتھا۔ لاہورہائی کورٹ کا فیصلہ تو اچھا تھا لیکن اس فیصلے کی ٹائمنگ بہت خراب تھی کیوں کہ اگر اس فیصلےپر عمل درآمد کیا جاتا تو انتخابات کو ملتوی کرنا ضروری تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلےپر یہ اعتراض بلکل درست ہے کہ کاغذات نامزدگی کے خلاف یہ پٹیشن جو کئی ماہ پہلے عدالت عالیہ کے سامنے دائر کی گئی اُس پر فیصلے ایک ایسے موقع پر کیوں دیا گیا جب الیکشن شیڈول کا اعلان ہوچکا اور سب کو معلوم ہے کاغذات نامزدگی کے داخل کیے جانےسے پولنگ کے دن تک ایک ایک دن کی قانون کے مطابق اہمیت ہے۔ اگر اس شیڈول میں تین چار دن کا فرق ڈال دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ الیکشن کو ہر حال میں ملتوی کرنا پڑے گا اور اعلان کے مطابق جولائی25 کے دن قومی انتخابات نہیں ہو سکتے۔ لیکن ایک اچھا فیصلہ غلط وقت پر آجائے تو کیسے اس بات کو یقینی بنایاجائےکہ انتخابات بھی وقت پر ہوں اور جو بہتری لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں موجود ہے اُسے بھی نافذ کر دیاجائے۔
لاہور ہائی کورٹ نے دو روز قبل پارلیمنٹ کے تیار کردہ کاغذات نامزدگی کلعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو نئے کاغذات نامزدگی تیار کرنے کا حکم دیا۔ موجودہ کاغذات نامزدگی جو الیکشن ایکٹ 2017 کا نتیجہ ہیں کے بارے میں ہائی کورٹ نے کہا وہ آئین سے متصادم ہیںاور الیکشن کمیشن کو ہدایت دی کہ نئے کاغذات نامزدگی جاری کیے جائیں جو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوں۔ جس دن یہ فیصلہ جاری کیا گیا اُس روز سے الیکشن شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی داخل کیے جانےتھے۔ اس فیصلے کے آتے ہی حکومت، الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں سب ایک عجیب پریشانی میں مبتلا ہوگئے کہ اب بروقت انتخابات کو کیسے یقینی بنایا جائے۔ الیکشن کمیشن نے دو دن کے لیے کاغذات نامزدگی کو وصول کرنے سے ریٹرنگ افسروں کو روک دیا اور فیصلہ کیا کہ فوری طورپر سپریم کورٹ میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چینلج کیا جائے۔ یہی فیصلہ نگراں حکومت اورا سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کیا۔ ایاز صادق کی پٹیشن کی نتیجے میں آج بروز اتوار چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا اور ایک بار پھر یہ یقین دہانی کرا دی کہ انتخابات بروقت ہی ہوں گے اور ایک دن کی بھی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس فیصلہ سے اُن عناصر کے حوصلے پست ہوں گے جو کسی نہ کسی بہانہ انتخابات کا التوا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا سپریم کورٹ کے پاس کوئی اور راستہ نہیں کہ انتخابات کو بھی التوسے بچایا جائے اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی اُس منشاء کو بھی پورا کیا جائے جو درست ہے لیکن غلط وقت پر دی گئی۔ اگر یہی فیصلہ ایک ماہ پہلے آ جاتا تو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تقاضوں کے مطابق کاغذات نامزدگی کو اپنی پرانی حالت میں بحال کیا جا سکتا تھا اور پرنٹنگ سمیت قانون میں ضروری تبدیلیاں بروقت کی جا سکتی تھیں۔ اب بغیر الیکشن ملتوی کیے ایسا ممکن نہیں رہا۔ میری عدالت عظمیٰ اور الیکشن کمیشن کو یہ تجویزہو گی کہ وہ فی الحال بروقت الیکشن کروانے کے لیے موجودہ کاغذات نامزدگی کے تحت ہی الیکشن کروائیں لیکن نہ صرف مستقبل کے انتخابات کےلیے ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق پرانے کاغذات نامزدگی کو بحال کیا جائے بلکہ 2018 کے انتخابات جیتنے والے امیدواروںکےلیے لازم قرار دیں کہ آرٹیکل 62 اور63 کے تقاضوں کے مطابق اُن کی انتخابات کے بعد ایک ماہ کے اندرا سکروٹنی ہو گی۔ اس ایک ماہ کے دوران انتخابات جیتنے والوں کو پابندبنایا جانا چاہیے کہ وہ پرانے کاغذات نامزدگی کی شرائط کو پورا کرتےہوئے آئینی شقوں کے مطابق اپنی اور اپنے زیر کفالت افراد (بیوی بچوں) کی ملکی و غیر ملکی آمدن ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے خلاف مقدمات، سزائوں، دہری شہریت، قرض نادہندگی، یوٹیلٹی ڈیفالٹ وغیرہ کی بھی تفصیلات دیں تاکہ متعلقہ محکموں اور عوام کے ذریعے اُن کی اسکروٹنی ہو سکے۔
الیکشن ایکٹ 2017 بناتے وقت پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی پارٹیوں نے آپس میں ملاپ کر کے کاغذات نامزدگی کو آسان بنانےکے بہانے ٹیکس چوروں، قرضہ خوروں، مجرمانہ الزامات اور سزا پانے والوں، دہری شہریت رکھنے والوں کو ان معاملات میں حلفیہ بیان دینے سے بچا دیاتا کہ ایسے معاملات پر اُن سے کوئی پوچھ کچھ نہ ہو سکے۔ اس تبدیلی سے جانچ پرتال کے موقع پر نا اہلی سے بچنے کی راہ ہموار کر دی گئی۔ اس تبدیلی کے لیے ن لیگ، پی پی پی، تحریک انصاف سب نےایکا کیا ہوا تھا کیوں کہ سب اُس ماضی سے پریشان تھے جہاں غلط گوشوارے داخل کرنے، قرضوں کی نادہندگی، تعلیمی قابلیت کے بارے میں غلط بیانی اور دہری شہریت رکھنے پر کئی ممبران اسمبلی کو نا اہلی کاسامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ چند سیاسی جماعتیں اس ایشو پر اب سیاست کر رہے ہیں جبکہ دوسرے خاموش ہیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں کاغذات نامزدگی میں کی گئی تبدیلیاں متفقہ تھیں اور کسی ایک سیاسی جماعت نے بھی پرانے کاغذات نامزدگی کے حدف کیے گئے حصوں پر اعتراض نہ اٹھایا۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین