• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نگراں وزیر اعلیٰ کے تقرر میں سندھ نہ صرف دوسرے صوبوں سے بازی لے گیا ہے بلکہ نگراں وزیر اعلی کے منصب کیلئے ایک بہتر انتخاب پر بھی سندھ کو سبقت حاصل رہے گی ۔ فضل الرحمن کا شمار ان لوگوں میں ہوتاہے ، جن کا وسیع تر حلقوں میں بہت احترام کیا جاتا ہے اور جن کی شخصیت تنازعات اور تنقید کی زد میں نہیں ہے ۔ انہوں نے سندھ میں اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں ۔ امید ہے کہ جس طرح سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں نے ان پر اعتماد کیا ہے، وہ عام انتخابات کے بعد بھی برقرار رہے گا ۔
سندھ میں نگراں وزیر اعلیٰ کا تقرر توقع کے برعکس ہوا ۔ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ پیپلز پارٹی کے وزیر اعلی سید مراد علی شاہ اورایم کیو ایم کے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کے درمیان نگراں وزیر اعلیٰ کے نام پر اتفاق نہیں ہو سکے گا ۔ یہ معاملہ نہ صرف سندھ اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی میں جائیگا بلکہ پارلیمانی کمیٹی بھی طے نہیں کر سکے گی اور بالآخر الیکشن کمیشن ہی فیصلہ کریگا کہ سندھ میں نگراں وزیر اعلیٰ کون ہو ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان مختلف معاملات طے ہونے کی روایت کوئی زیادہ اچھی نہیں رہی ۔ لیکن وزیر اعلیٰ کے معاملے پر حیرت انگیز حد تک اتفاق رائے سامنے آیا ۔ ایم کیو ایم کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی فضل الرحمٰن کے نام پر اعتراض نہیں کیا ۔ اس طرح فضل الرحمٰن سندھ کی سیاسی جماعتوں کے متفقہ امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔ اس میں سندھ کے سابق وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ اور PPP نے بہت زیادہ maturity کا مظاہرہ کیا۔
اس طرح سندھ کی سیاسی جماعتوں نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا اور یہ تاثر دیا کہ سندھ میں سیاسی ’’ پولرائزیشن ‘‘ اگرچہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود سیاست دان اپنے وہ معاملات خود طے کر سکتے ہیں ، جو آئین کے مطابق پہلے انہیں ہی طے کرنا چاہئیں ۔ اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب سندھ میں میڈیا کے لوگ نگراں وزیر اعلی کیلئے ممکنہ ناموں پر قیاس آرائیاں کر رہے تھے ، اس وقت بھی فضل الرحمن کا نام سرفہرست تھا اور یہ کہا جا رہا تھا کہ پیپلز پارٹی نے نگراں وزیر اعلی کیلئے جو نام تجویز کئے ہیں ، ان میں فضل الرحمٰن کا نام شامل ہے ۔ بعد میں فضل الرحمٰن کا نام اپوزیشن کی طرف سے آنے لگا ۔ ایم کیو ایم اور پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے بھی یہ کہا جانے لگا کہ فضل الرحمن ان کے امیدوار ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے ڈاکٹر یونس سومرو ، ڈاکٹر قیوم سومرو ، انجینئر حمیر سومرو ، جسٹس (ر) غلام سرور کورائی ، سونو خان بلوچ اور دیگر شخصیات کے نام بھی لئے جا رہے تھے جبکہ اپوزیشن کی طرف سے جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم ، آفتاب شیخ اور عبداللہ حسین ہارون کے نام بھی تجویز کئےجا رہے تھے ۔ 28 مئی 2018 ء کو سندھ اسمبلی تحلیل ہو گئی اور سندھ حکومت ختم ہو گئی ۔ 28 مئی کی رات 12 بجے تک نگراں وزیر اعلی کا نام سامنے نہ آیا تو لوگوں کو یقین ہو گیا کہ اب سندھ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معاملہ طے نہیں ہو گا ۔ آئین کے آرٹیکل 224 ۔ اے کے تحت اسمبلی کے تحلیل ہونے کے تین دنوں کے اندر وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کو نگراں وزیر اعلیٰ کی تقرری کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔ 31 مئی کی مغرب تک بھی جب وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اور اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کے درمیان ملاقات نہ ہوئی تو لوگ سمجھ گئے کہ اب معاملہ الیکشن کمیشن ہی حل کرے گا لیکن رات 11 بجے کے بعد مختصر ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے یہ معاملہ طے کر لیا اور ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ یہ اعلان کیا کیا کہ وہ سابق چیف سیکرٹری سندھ فضل الرحمن کو نگراں وزیر اعلی بنانے پر متفق ہو گئے ہیں ۔ یہ اتفاق رائے لوگوں کیلئے غیر متوقع اور حیران کن تھا لیکن اس پر دوسری سیاسی جماعتوں اور حلقوں کی طرف سے بھی اعتراض سامنے نہیں آیا ۔
فضل الرحمٰن ایک سابق بیورو کریٹ ہیں ۔ انہوں نے سندھ کے چیف سیکریٹری ، سیکریٹری محکمہ خزانہ ، سیکریٹری محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات ، اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ ، وفاقی سیکریٹری پورٹس اینڈ شپنگ اور دیگر اہم عہدوں پر کام کیا ۔ انہیں فنانشل مینجمنٹ ، منصوبہ بندی اور انتظامی امور کا گہرا تجربہ ہے ۔ 1972 ء میں انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے اکاؤنٹس گروپ کے آفیسر کی حیثیت سے سول سروس میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور پورے کیریئر میں وہ اہم عہدوں پر بھی فائز رہے انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو منوایاہے ۔ کسی ملک یا صوبے کے چیف ایگزیکٹو کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ مالیاتی انتظام ، منصوبہ بندی اور انتظامی امور میں ماہر ہو ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ فضل الرحمن دو مرتبہ ۔ ایڈمنسٹریٹو چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر فائز رہے ۔ پہلی مرتبہ وہ مئی 2005 ء سے مارچ 2007 ء تک اور دوسری مرتبہ نومبر 2007 ء سے اگست 2010 ء تک اس عہدے پر براجمان رہے ۔ انہوں نے فروری 2008 ء کے عام انتخابات کیلئے سندھ میں بطور چیف سیکرٹری تمام انتظامات کی نگرانی کی ۔ انہیں انتخابات کے انتظام کا تجربہ ہے اور اب وہ صوبے کے انتظامی سربراہ کی حیثیت سے یہ امور انجام دیں گے ۔ نگراںوزیر اعظم یا دیگر صوبوں کے نگراںوزرائے اعلی کو شاید اتناتجربہ نہیں ہو گا ۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کو حکومت سندھ کی طرف سے ممکنہ سہولتیں فراہم کرنے میں وفاق اور دیگر صوبوں سے زیادہ اور بہتر اقدامات کر سکیںگے ۔ وہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ انتخابی عملے کی تربیت اور ڈیوٹی تک کیا مراحل ہوتے ہیں اور لاجسٹکس کے حوالے سے حکومت کی کیا ذمہ داریاں ہیں ۔ انہیں دیگر حکومتی انتظامی امور چلانے کا بھی تجربہ ہے ۔ فضل الرحمٰن سندھ کے پہلے وزیر اعلی ٰہیں ، جو اردو بولنے والے ہیں ۔ یہ تاثر اب ختم ہو گیا ہے کہ کوئی اردو بولنے والا صوبے کا وزیر اعلی نہیں بن سکتا لیکن فضل الرحمن کو میرٹ اور صرف میرٹ پر وزیرِ اعلی بنائے گئے ہیںوہ کسی قسم کے لسانی ، نسلی ، گروہی ، قومیتی ، مذہبی یا مسلکی تعصب سے بالاتر ہو کر سوچتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے تمام لوگوں کیلئے قابل قبول ہیں ۔
ان کا انتخاب کرکے پیپلز پارٹی کی قیادت نے سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ایم کیو ایم نے بھی اس حوالے سے تعاون کیا ۔ فضل الرحمن نے ریٹائرمنٹ کے بعد انتہائی ’’ لو پروفائل ‘‘ میں زندگی گزاری لیکن ان کا اپنا پروفائل اتنا بڑا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی حکومت سندھ نے ان کی خدمات حاصل کیں اور مختلف اہم منصوبوں میں ان کے تجربات کی بناء پر انہیں ذمہ داریاں سونپیں ۔ مالیاتی اور قانونی امو رمیں ان کی مہارت اس قدر زیادہ ہے کہ آج بھی ان کے جونیئر بیوروکریٹس کیساتھ ساتھ ان کے ہم عصر اور سینئر لوگ بھی ان سے رہنمائی حاصل کرنے آتے ہیں ۔ توقع ہے کہ نگراں وزیر اعلیٰ سندھ فضل الرحمن اپنی ان ذمہ داریوں سے احسن طریقے سے عہدہ برآ ہوںگے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین