• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست ممکنات کا کھیل تو ہے ہی مگر پاکستانی سیاست کی بات کریں تو یہاں ماسوائے بے یقینی کے کچھ بھی یقینی نہیں ۔نگراں وزیر اعظم حلف اٹھا چکے ،الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کے شیڈول کا اعلان کر دیا گیا مگر پھر بھی شکوک و شبہات ختم ہونے میں نہیں آ رہے اور موضوع گفتگو یہ نہیں کہ کونسی جماعت اکثریت حاصل کرے گی بلکہ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا 25جولائی 2018ء کو عام انتخابات ہونگے یا نہیں ؟یہ اندیشے اور وسوسے بے بنیاد نہیں کیونکہ نہایت سلیقے اورقرینے سے یکے بعد دیگرے پیش آنیوالے واقعات چغلی کھا رہے ہیں کہ انتخابات کے التواکی چاہے آئین اور قانون میں کوئی گنجائش نہ ہو مگر کہیں نہ کہیں محب وطن حلقوں میں اجماع اور اتفاق ہو چکا ہے کہ انتخابات کو تب تک موخر کردیا جائے جب تک حالات سازگار نہیں ہو جاتے ۔ آپ قبلہ طاہر القادری کوسیاست کا مرغ بادنما سمجھتے ہیں تو ان کی پاکستان آمد بتا رہی ہے کہ کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے ۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے الیکشن کمیشن کو خط اور بلوچستان اسمبلی کی قرارداد کے بعد اب باپ (بلوچستان عوامی پارٹی )نے بھی کہہ دیا ہے کہ گرمی کی شدیدلہر کے باعث انتخابات کو اکتوبر کے آخری ہفتے تک ملتوی کر دیا جائے۔ ویسے تو سب سے زیادہ گرمی پنجاب اور سندھ میں پڑتی ہے ،جیکب آباداور ملتان گرم ترین شہر کہلاتے ہیں جبکہ کوئٹہ اور بلوچستان کے چند دیگر شہروں میں درجہ حرارت نسبتاً کم ہوتا ہے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ جب پنجاب اور سندھ کی طرف سے گرمی کو جواز نہیں بنایا گیا تو بلوچستان والے گرمی کی آڑ میں الیکشن ملتوی کرنے کا مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں ۔ بلوچستان میں تو حالات ہمیشہ سے کنٹرول میں رہے ہیں اور اگر آپ محب وطن ہیں تو 544ووٹ لیکر بھی کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن شاید ’’باپ‘‘ کی طرف سے وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظر انتخابات کے التوا کا امطالبہ کیا جارہا ہے۔اور یہ بات لکھ لیں کہ اگر آپ نے گرمی کا جواز تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو ممکنہ تاویل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بعض روایات کے مطابق 25جولائی کی تاریخ کو منحوس خیال کیا جاتا ہے اسلئے اس روز انتخابات نہیں کروائے جا سکتے ۔لیکن انتخابات کے التوا ء کے حوالے سے نامزدگی فارم سے متعلق ایک عدالتی فیصلے کو گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے ۔نامزدگی فارم میں دی گئی معلومات میں معمولی نوعیت کی غلطیوں کو بنیاد بناکر ارکان پارلیمنٹ کو تاحیات نااہل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ کے ذریعے نامزدگی فارم کو مختصر او ر آسان کر دیا تاکہ مستقبل میں اس تلوار کو سیاسی انتقام کے پیش نظر اندھا دھند استعمال نہ کیا جا سکے گزشتہ برس نومبر کے مہینے میں پارلیمنٹ نے یہ بل منظور کیا اور اس کی روشنی میں ہی مارچ 2018ء کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں نئے نامزدگی فارم استعمال کئے گئے ۔مگر یکم جون کو جب الیکشن شیڈول کے مطابق امیدواروں سے کاغذات نامزدگی موصول کرنے کا پہلا دن تھا تو لاہور ہائیکورٹ نے نامزدگی فارم سے نکالی گئی شقیں دوبارہ شامل کرنے کا حکم دیدیا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نامزدگی فارم کے حوالے سے دو مختلف درخواستیں دائر کی گئی تھیں ،شیخ رشید احمد نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا جبکہ ہمارے صحافی دوست حبیب اکرم نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ۔ان دونوں کی دو مختلف عدالتوں میں نمائندگی کرنیوالا وکیل بھی ایک ہی ہے مگر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے یہ پٹیشن خارج کر دی تو لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے 2013ء والا نامزدگی فارم بحال کرنے کا حکم دیدیا ۔
نیتوں کا حال تو کوئی نہیں جانتا مگر ان فیصلوں کی ٹائمنگ سے شکوک و شبہات نے جنم لیا اور یوں لگ رہا ہے کہ جو کام پانچ برس قبل علامہ طاہر القادری نہ کر سکے وہ اب کیا جا رہا ہے ۔ہر الیکشن سے پہلے یہ واویلا کیا جاتا ہے کہ انتخابی اصلاحات نہ کی گئیں تو چور اچکے اور ڈاکو لٹیرے پارلیمنٹ میں آجائیں گے ۔2013ء میں علامہ طاہر القادری نے یہی منجن بیچنے کی پوری کوشش کی اوراب بھی بعض دوست نامزدگی فارم کے حوالے سے چائے کی پیالی میں طوفان اٹھائے ہوئے ہیں۔آپ سوچ رہے ہونگے کہ پرانے اور نئے نامزدگی فارم میں آخر ایسا کیا ہے اور محض نامزدگی فارم کی بنیاد پر کس طرح جرائم پیشہ افراد کا راستہ روکا جا سکتا ہے ؟لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی پٹیشن میں کہا گیا کہ نئے نامزدگی فارم کے کالم نمبر ایک میں سے وہ خانہ نکال دیا گیا ہے جس میں امیدوار سے دہری شہریت کے بارے میں پوچھا جاتا تھا ۔کالم نمبر 2کا وہ حصہ حذف کر دیا گیا جس میں امیدوار سے اس کے این ٹی این کے بارے میں پوچھا جاتا تھا ۔کالم نمبر 3میں مجرمانہ ریکارڈ کے بارے میں تفصیل معلوم کرنیکا خانہ ختم کر دیا گیا ہے۔کالم نمبر 4میں اس سوال کو حذف کر دیا گیا ہے جس میں تعلیمی قابلیت پوچھی جاتی تھی ۔کالم نمبر6میں موجودہ اثاثوں کے حوالے سے یہ نرمی کر دی گئی ہے کہ آپ اپنے اثاثہ جات کی مارکیٹ ویلیو کے بجائے یہ بتا دیں کہ خریدتے وقت ان کی مالیت کیا تھی ۔ان تبدیلیوں کی بنیاد پر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62,63کو غیر موثر کر دیا گیا ہے ۔اب دیکھتے ہیں کہ ان اعتراضات کی حقیقت کیا ہے ۔دہری شہریت کا خانہ ضرور ختم کر دیا گیا ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب کسی اور ملک کی شہریت رکھنے والے عوامی عہدہ حاصل کر سکیں گے ۔کسی بھی موقع پر ایسے شخص کے خلاف متعلقہ فورمز سے رجوع کیا جا سکتا ہے جس کے پاس دہری شہریت ہو ۔نامزدگی فارم کے ساتھ ایک حلف نامہ شامل ہے جس میں امیدوار اقرار کرتا ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62,63کے مطابق مجلس شوریٰ کا ممبر منتخب ہونے کی اہلیت رکھتا ہے اور اس میں دی گئی ان شقوں کے زمرے میں نہیں آتا جو پارلیمنٹ کے رکن نہیںبن سکتے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ دستور پاکستان کی شق 62,63کو غیر موثر کرنے کا اعتراض بے جا ہے ۔اسی طرح یہ تاثر بھی درست نہیں کہ اب ٹیکس چور اور نادہندہ افراد الیکشن لڑ سکیں گے ۔جو افراد کاغذات نامزدگی منظور یا رد ہونے کے عمل سے واقف ہیں انہیں اس بات کا علم ہو گا کہ انتخابات کے موقع پر الیکشن کمیشن میں 6رُکنی سیل تشکیل دیا جا تا ہے جس میں ایف بی آر ،اسٹیٹ بینک ،پی ٹی سی ایل ،نیب اور دیگر اداروں کی نمائندگی ہوتی ہے ۔پورے ملک میں جمع ہونے والے کاغذات نامزدگی سب سے پہلے اس سیل کو بھجوائے جاتے ہیں جو جانچ پڑتال کرتا ہے کہ امیدوار سزا یافتہ تو نہیں ،کسی سرکاری ادارے کا نادہندہ تو نہیں ،اگر اس سیل میںموجود مختلف اداروں کے افراد اعتراض لگا دیں تو کاغذات نامزدگی کسی صورت منظور نہیں ہو سکتے اور یہ سیل اب بھی الیکشن کمیشن میں فعال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امیدواراس چھلنی سے گزرے بغیر الیکشن نہیں لڑ سکتے ۔رہ گئی بات موجودہ اثاثہ جات کی تو اس میں بھی کوئی ہیرا پھری نہیں ہے ۔ فرض کریں ایک شخص کے پاس دو کینال کا بنگلہ ہے ،اسے کاغذات نامزدگی میں اس بنگلے کی مارکیٹ ویلیو بتانا ہوتی تھی ،وہ بتاتا ہے کہ اس بنگلے کی مالیت 20کروڑ ہے لیکن کوئی شخص اٹھ کر مقدمہ کر دیتا ہے کہ یہ بنگلہ تو 50کروڑ کا ہے اس نے بددیانتی کی ، یہ صادق و امین نہیں رہا ،لہٰذا اسے نااہل قرار دیا جائے ۔ اس صورتحال سے بچنے کیلئے کہا گیا کہ آپ قیمت خرید بتا دیں جس میںکوئی ابہام نہیں ہو سکتا ۔کالم لکھ چکا تو خبر آئی کہ سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا ہے اور اب انتخابات کا بروقت انعقاد ممکن ہو پائے گا لیکن بعض لوگوں کو اب بھی لگتا ہے ہنوز دلی دور است ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین