• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الحمدللہ اداکارہ میرا کو چلیں 9سال بعد ہی سہی کم از کم انصاف تو مل گیا اور یہ فیصلہ بھی ہوگیا کہ میرا صاحبہ کیپٹن عتیق کی منکوحہ تھیں اورانہوں نے اپنے نکاح کو چھپایا۔ اس عدالتی فیصلے سے میراجی کے ہزاروں مداحوں کے دلوں میں ٹھنڈ تو پڑ گئی ہوگی جو آئے دن میرا کی گلابی انگریجی سن سن کر محظوظ ہوتے تھے یا ان سے شادی کے خواہش مند۔ میرا پاکستان کی خوش قسمت ترین شہری ہیں جنہیں انصاف فراہم کرکے عدالت نے شادی شدہ قرار دے دیا اور ساتھ ہی خلع کی ڈگری بھی جاری کر دی کہ جب منکوحہ ہی گھر بچانے کو راضی نہیں تو پھر اس بندھن کا کوئی قانونی جواز بھی باقی نہیں رہتا۔ میرا کا نکاح تو برسبیل تذکرہ یونہی کرنا پڑا اصل مدعا تو یہ ہے کہ ایک عام نکاح نامے کی تصدیق جیسے کیس کا فیصلہ ہونے میں 9 سال لگ سکتے ہیںتو پھریہ اربوں کھربوں کی کرپشن، فراڈ ، لوٹ مار اور اس ملک سے کھلواڑ کے اہم کیسزکب اورکیسے انجام کوپہنچیں گے؟ قابل صد احترام چیف جسٹس صاحب بھی اپنے تئیں پوری کوشش میں ہیں کہ عام شہری کو فوری ، سستا انصاف میسر ہو لیکن جنگل جیسے اس معاشرے میں جہاں حق سچ کے مقابلے میں جھوٹ کا چلن عام ہو اور سنگین مقدمات کا سامنا کرنے والوں کے پاس کروڑوں روپے کے عوض دلائل دینے والے ذہین و فطین وکلاء کی فوج ظفر موج ہو تو یہ چند ’’اللہ کے بندے‘‘ جن کے ہاتھ میں انصاف کاترازو ہے کیسے بروقت انصاف فراہم کرسکیں گے اورپھر یہ کیسے ممکن ہے کہ دومنٹ ایک مقدمہ کی شرح کے لحاظ سے فوری اور سستے انصاف کے تقاضے پورے کئے جاسکیں۔ میرا جی کو تو سونوافل پڑھنے چاہئیں کہ انہیں اپنے نکاح نامے کی تصدیق مل گئی ورنہ یہاں تو انصاف، احتساب اورانتخاب ٹالنے کے سو بہانے تراشے جاتے ہیں اور ہرایک کے پاس اپنی دلیل ہے۔
اب آپ (ن) لیگ کی گزری حکومت کو ہی دیکھئے ، اللہ اللہ کرکے بھنور میں پھنسی جمہوریت کی کشتی کو 5 سال بعد جیسے تیسے بھی کنارے لگایا مگر کنارے تک پہنچتے پہنچتے ن لیگ کا ’’سرخیل‘‘ وزیراعظم نااہل قرار پاگیا اورآخری وقت میں اس ملک کے وزیر خارجہ کو بھی اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے خوش قسمتی کہئے کہ سپریم کورٹ نے خواجہ آصف کی تاحیات نااہلی کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر انہیں آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار دے دیا۔ فیصلے کی حدتک اسے انصاف اورجمہوریت کی فتح ہی قرار دیا جاسکتاہے لیکن نظام کی خوبی یا خامی کا تذکرہ کریں تو یہ بات اپنی جگہ سوچنے کی ہے کہ کسی بھی قسم کے فیصلے حالات و واقعات کے مطابق ملک کو قوم پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں اورفیصلہ ہونے کے عرصے کے دوران جو اذیت اور خفت کاسامنا کرنا پڑتا ہے وہ اپنی جگہ۔ کچھ ایسی ہی صورت حال سے آج کل ہمارے بڑے خان صاحب بھی دو چارہیں۔ ان کی زندگی سے لے کر خیبر پختونخوا اور پنجاب میں نگران وزراء اعلیٰ کے انتخاب تک کے فیصلے بچوں کے کرکٹ میچ جیسے ہیں کہ اگر کھلاڑی پہلی بال پر آئوٹ ہوگیا تو ’’ ٹرائی بال ناٹ آئوٹ‘‘کا نعرہ لگا کر پھڈا ڈال دیا اور کھیل کے آغازہی میں سارا مزہ کرکرا کر دیا جو کسی بھی صورت انتخابی عمل کے تازہ کھیل کے لئے نیک شگون نہیں۔ واقفان حال اس حوالے سے بڑی دورکی کوڑی لائے ہیں اوردعویٰ کرتے ہیںکہ خان صاحب کی راہ میں ایک بار پھر گھریلو مسائل حائل ہو گئے ہیں اورپنجاب میں خصوصاً ان کے سیاسی زائچے ٹھیک سے نہیں بیٹھ رہے۔
خیال رہے کہ روحانیت کی دنیا میں ناموں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اورزائچوںمیں تاریخ پیدائش کے ساتھ ساتھ ستاروں کی چالیںبھی اپنا رنگ دکھاتی ہیںخصوصاً ناموں کے ابتدائی حروف کا میل ملاپ ٹھیک نہ ہو تو نحوست کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی دور ہمارے بڑے خان صاحب ’’آئی کے‘‘ کا چل رہا ہے ۔اب تو تحریک انصاف کے اندر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں کہ خان صاحب کو کیاہوگیا ہے کہ بلا سوچے سمجھے ایسے فیصلے کئے جارہے ہیںکہ جو ایک قصہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا چھیڑ بیٹھتے ہیں۔ خیبرپختوا اور پنجاب کے نگران وزراء اعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے جس بوکھلاہٹ ، ناسمجھی اور ناتجربہ کاری کا انہوں نے مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی جگہ مگر اداکارہ شبنم ڈکیتی وریپ کیس کے بدنام زمانہ مرکزی ملزم فاروق بندیال کا قصہ بھی اپنے گلے میں ڈال لیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ فاروق بندیال وہی ہیں جو بیس سال تک ن لیگ میں پناہ لئے بیٹھے رہے۔پوری دنیا ان کے کردار کو جانتی تھی مگر کسی نے انگلی نہ اٹھائی۔یہ سوشل میڈیا کی ابھرتی عوامی طاقت ہی تھی کہ جس نے خان صاحب کو ہوش دلایا کہ اس برائی کو اپنے کھاتے میں نہ ڈالیں۔ بصورت دیگر تو تحریک انصاف کی مرکزی قیادت فاروق بندیال کو قبول کئے بیٹھی تھی۔ افسوس کہ ملکی قیادت کے دعوے داروں کو اپنی صفوں میں گھسنے والی کالی بھیڑیں نظر نہیں آتیں وہ ملک کیا چلائیں گے۔ ڈیرہ غازی خان سے تحریک انصاف میں ہونے والی تازہ انٹری پر بھی کچھ ایسے ہی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کی طرف سے واضح کر دیا گیا ہے کہ ڈی جی خان والوں کی ’’فل انٹری‘‘ نہیں ’’ہاف انٹری’’ کی گئی ہے اور یہی وہ بنیادی وجہ تھی جس کی بنیاد پر ڈی جی خان والوں کو ن لیگ سے علیحدہ ہونا پڑا۔ آپ اسے اتفاق کہیں یا المیہ آج ہم جس جمہوری منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں اس پر نحوست کے سائے منڈلا رہے ہیں، ستاروں کی چالیں بھی الٹی ہیں، زائچے بھی ٹھیک نہیں بیٹھ رہے۔ نگران حکومتوں کے حوالے سے قوم کے ساتھ جو کھیل کھیلا جارہاہے اس کا انجام اچھا نظر نہیں آرہا۔ آپ سے سوال یہی ہے کہ آخر یہ نگران وزراء اعلیٰ کے تقرر سے کون سی بازی جیتی جارہی ہے۔ اصل کام تو ووٹر کا ہے۔ جس نے اپنی قسمت کا فیصلہ اپنے ضمیر کے مطابق کرنا ہے کہ اسے عمران چاہئے یا شہباز یا پھر سب پر بھاری آصف زرداری۔ حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ یہ بازی کسی کے ہاتھ نہیں آئے گی اور آنے والا سیٹ اپ طوالت اختیار کر جائے گا اورسب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین