• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی جمہوری تاریخ میں پیپلز پارٹی کے بعد اب مسلم لیگ(ن) کی حکومت بھی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ختم ہوگئی، جسکے بعد ا ٓئینی تقاضے کے تحت نئی نگراں حکومت کے وزیر اعظم چیف جسٹس (ر) ناصر الملک اور ان کی ٹیم نے اپنا کام شروع کردیا ہے۔ نگراںحکومت کو ویسے تو داخلی اور خارجی طور پر کئی مشکل ترین چیلنجوں کا سامنا ہے لیکن اسکا سب سے بڑا چیلنج بروقت، منصفانہ اور صاف الیکشن کرانا ہے جس کیلئے الیکشن کمیشن نے 25؍جولائی کی تاریخ کا اعلان کررکھا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے 1971ءسے لے کر اب تک ہر قومی انتخابات کے حوالے سے کئی ایشوز سامنے آتے رہے، جس میں مختلف طرح کی مداخلت اور دھاندلیوں کے نئے نئے قصے بھی سامنے آتے رہے ہیں اور اب سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی پاناما اور اقامہ کے حوالے سے نااہلی اور پھر پارلیمنٹ سے تاحیات رخصتی کے معاملہ کے بعد پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ایک نئی بحث چل رہی ہے جس سے ایسے لگتا ہے کہ اگر نگراں حکومت نہایت ذمہ داری کے ساتھ واقعی منصفانہ اور شفاف الیکشن کرانے میں کامیاب بھی ہوجاتی ہے تو حالات یہ بتارہے ہیں کہ الیکشن سے پہلے یا اس روز ایک دو پارٹیاں جن میں مسلم لیگ ن (نمایاں) الیکشن میں کسی قسم کا ایشو کھڑا کرکے اسے متنازع بناسکتی ہیں۔ اس لئے نگراں حکومت کو صرف 2چیلنجوں پر زیادہ فوکس کرنا چاہئے ایک یہ کہ ملک میں گورننس اور خاص کر اکنامک گورننس کی بہتری پر توجہ دےاور دوسرا آئندہ انتخابات کو متنازع ہونے سے بچانے کی حکمت عملی تیار کرے۔ اس کیلئے اگر تمام سیاسی قائدین کیAPCبھی بلانی پڑے تو نگراںحکومت یہ کام کرے، مگر پاکستان میں ایک تاریخ ساز انتخابات کا عمل پورا کرکے جائیں۔جہاں تک گورننس اور اکنامک گورننس کا تعلق ہے اگر ملک میں گورننس کی صورتحال بہتر ہوگی تو پھر انتخابات متنازع بنانا یا کوئی اور گڑ بڑ کرکے الیکشن سے فرار اختیار کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اکنامک گورننس کی بہتری سے عوام کے معاشی حالات میں مزید خرابی اور پریشانیاں کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ویسے تو عام انتخابات کے دنوں میں ’’الیکشن اکانومی‘‘ سے غریب آدمیوں اور چھوٹے موٹے کاروبار میں تیزی آجاتی ہے اور غریبوں کو مفت کے لنچ باکس اور انتخابی سرگرمیوں سے متعلقہ تقریباً ہرکاروبار میں تیز آجاتی ہے جس سے چار دن تو ان کے مزے ہوجاتے ہیں مگر دوسری طرف قومی سطح پر اسٹاک مارکیٹ اور پراپرٹی سیکٹر سمیت درآمدی اور برآمدی تجارت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کے لئے ملک میں معاشی سرگرمیوں کو صحتمند ماحول میں جاری رکھنے کے لئے گورننس اور اکنامک کی بہتری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کیساتھ ساتھ نئے منصوبوں کو شروع کرنے یا ان کے سنگ بنیاد رکھنے کی خواہشات کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ملک میں یکساں احتساب کیلئے ایسا ماحول نظر آنا چاہئے کہ کسی سیاسی پارٹی کو اپنی سیاسی سرگرمیوں میں نیب یا کسی اور ادارے کا نام لے کر مظلوم بننے کا موقع نہ مل سکے۔ اسلئے کہ سیاسی زبان میں ادا کئے گئے کئی الفاظ بعض دفعہ ریاست اور ملکی نظام کا امیج خراب کرنے اور انتظامی معاملات کو متنازع بنانے کا باعث بنتے ہیں۔ اسلئے نگراںوزیر اعظم ان تمام نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ٹیم کو مکمل غیر جانبداری کی طرف مائل رکھیں اور صوبوں میں بھی ایسا انتظامی ماحول پیدا کریں جس سے وفاق اور صوبوں میں ہر بڑے فیصلے کے پیچھے اعتماد اور خیر سگالی کا جذبہ نظر آئے اسکے علاوہ نگراں حکومت اپنے مینڈیٹ کے تحت کسی میڈیا پالیسی کیلئے اقدامات کرے جس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی اس حوالے سے متنازع ایشوز کی حوصلہ شکنی کرکے مثبت طریقے سے انتخابی عمل کو مکمل اور پھر انتقال اقتدار کے مراحل میں مثبت طریقے سے اپنا کردا ر ادا کرتا نظر آئے۔ یہ سب وہ چیلنج ہیں جس سے نگراں حکومت کو نبرد آزما ہونا چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین