• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذرائع ابلاغ میں چند سالوں میں اسقدر ترقی ہوئی ہے کہ اب لمحہ بہ لمحہ دنیا سے جڑے رہتے ہوئے ہم اتنے مصروف ہوگئےہیں کہ دن کی روشنی میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیںدیتا- لوگ اب اپنی ذات میں اتنے محو ہوتے جارہے ہیں کہ وہ اپنے ماحول سے یکسر عاری ہوتے دکھائی دیتے ہیں- ہر کوئی اسمارٹ فون کیساتھ چمٹے ہوئے گلی محلے، گھر، دفتر ، بازار حتیٰ کہ دسترخوان تک سیلفی بنارہے ہیں. ایسا لگتا ہے جیسے پوری دنیا ایک سیلفستان بنکر رہ گئی ہے-دو ہفتے پہلے ایک المناک حادثے میں آسٹریلیا میں ایک بھارتی طالبعلم سیلفی لیتے وقت ہلاک ہو گیا،انکت اپنے ہم جماعتوں کیساتھ سیر کے دوران البانی کے مقام پر اپنی تصویر لیتے وقت اچانک ایک عمودی ڈھلوان سے پھسل کر 40 فٹ نیچے گر گیا اور موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ گزشتہ ہفتے ایک اور حادثے میں جرمنی کے مغرب میں واقع ایک گاؤں میں دو خواتین اس وقت بجلی گرنے سے شدید زخمی ہو گئیں جب وہ سیلفی لینے میں مصروف تھیں- پولیس اطلاعات کے مطابق زخمیوں میں ایک خاتون کی حالت تشویشناک ہے، مذکورہ خواتین اپنی تصویریں کھینچنے میں اس قدر محوتھیں کہ انہیں حادثے کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں- مئی کے اوائل میں بھارت کی مشرقی ریاست اڑیسہ میں ایک شخص کو اس وقت زخمی ریچھ نے مسخ کرکے قتل کردیا جب وہ سیلفی اٹھانے کی کوشش میں اسکے قریب پہنچ گیاتھا،بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق مہلوک پربھو بھٹ آرا جنگل سے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے گزر رہا تھا جب اسکی نظر زخمی ریچھ پر پڑی- اخبار کے مطابق حادثے کے وقت گاڑی میں موجود افراد نے بھٹ آرا کو ریچھ کے ہاتھوں مرتے دیکھا مگر وہ اس کی مدد کرنےکی بجائے ساری کارروائی کو اپنے اسمارٹ فون پر ریکارڈ کرتے رہے- پچھلے ایک سال کے دوران اڑیسہ میں جنگلی جانوروں کےساتھ سیلفی بنانے کے نتیجے میں ہونے والی یہ تیسری موت تھی،گزشتہ دسمبر میں ایک نوجوان اس وقت لقمہ اجل بن گیا جب وہ ایک ہاتھی کے ساتھ سیلفی اٹھانے کے چکّر میں اسکے نیچے آگیا- اس سے پہلے ستمبر میں اسی طرح کے ایک اور واقعے میں ایک نوجوان کو ایک بدمست ہاتھی نے کچل ڈالا-دنیا بھرمیں اسمارٹ فونز کی بہ آسانی دستیابی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال سے تصویریں کھینچنا اور خاص کر سیلفیاں لینا اب کافی عام ہوگیا ہے- اس کے ساتھ ساتھ سیلفی لیتے وقت حادثات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے- اس سلسلے میں بھارت پوری دنیا میں ’سیلفی اموات‘ میں سرفہرست آگیا ہے- شاید اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں نہ صرف اسمارٹ فونز مناسب قیمت میں ملتے ہیں بلکہ معیاری انٹرنیٹ بھی کافی ارزاں قیمتوں پر دستیاب ہے- اس وجہ سے لوگوں میں سوشل میڈیا کا استعمال بے تحاشہ بڑھ گیا ہے جہاں آکر لوگ اپنی تصویریں لگا کر نفسیاتی تسکین کے ساتھ ساتھ لوگوں سے داد بھی وصول کرتے ہیں- سوشل میڈیا اور اسمارٹ فونز کے امتزاج سے لوگوں خاص کر نئی نسل میں جو سماجی اور نفسیاتی تبدیلیاں ظہور پذیر ہو رہی ہیں وہ واقعی تشویشناک ہیں- 2015 کی ایک سروے کے مطابق صرف انگلستان میں بیس فیصد سے زائد نوجوانوں نے ڈرائیونگ کے دوران سیلفیاںبنائی ہیں- اسمارٹ فونز سے لیس نئی نسل لمحہ بہ لمحہ اپنی زندگی کی مختلف سرگرمیوں کو کیمرے میں قید کرکے پھر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلاتی ہے- کچھ منفرد دکھانے کے چکّر میں نت نئے خطرے مول لیتے ہیں- کئی اپنا جسمانی توازن برقرار نہ رکھ سکنے کی وجہ سے گر کر ہلاک ہوجاتے ہیں تو کچھ جانوروں کے ہاتھوں کچل جاتے ہیں- کچھ لوگ بندوقوں کیساتھ سیلفیاں بناتے ہوئے اس وجہ سے مرجاتے ہیں کہ ان سے اچانک اور حادثاتی طور پر گولیاں نکل پڑتی ہیں- یہی وجہ ہے کہ سیلفیوں کی وجہ سے ہونے والی اموات میں کافی اضافہ ہو گیا ہے- ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سال 2015 میں دنیا میں ’سیلفی بناتے ہوئے اموات‘ کی تعداد شارک حملوں میں ہلاک ہونے والی اموات سے زیادہ ہو گئی ہے-
یہی وجہ ہے کہ اب اسکا تدارک کرنے کیلئے دنیا بھر میں اقدامات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے- بھارت کے مالیاتی دار الحکومت ممبئی میں اب پولیس کے خصوصی دستے اہم اور خطرناک سمجھی جانے والی جگہوں مثلا اونچی تاریخی عمارتوں اور سمندری ساحلوں پر تعینات ہوتےہیں تاکہ لوگوں کو ایسی خطرناک حرکتوں سے باز رکھا جاسکے جس سے انکی یا دوسروں کی جانوں کو خطرہ ہے، جن میں سیلفی لینا سرفہرست ہے- بھارت میں ہی کشتی رانی کیلئے مشہور جگہ اوٹی میں انتظامی عہدیداروں نے بوٹنگ کرتے وقت سیلفی لینے پر مکمل پابندی لگا دی ہے اور کشتی میں سفر کرتے وقت لائف بیلٹ کو لازمی قرار دیا ہے- روس میں سب سے پہلے حکومت نے سوشل میڈیا کی لت اور اس سے جڑی سیلفی لینے کے خطرات کے ممکنہ تدارک کیلئے اقدامات کا آغاز کیا- 2015 میں روسی وزارت داخلہ نے 'سیلفی سیفٹی گائیڈ ' کا اجرا کیا تاکہ عوام خاص طورپر نوجوانوں کو اپنی جان و مال کی حفاظت کے بارے میں آگاہی دی جاسکے-مقدس مقامات کی زیارت اور مذہبی فرائض کی انجام دہی بھی اب سیلفیوں کے زمرے میں آگئی ہے- پچھلے چار پانچ سالوں میں حج و عمرے کے دوران سیلفیاں کھینچنے کا رواج بے تحاشہ بڑھ گیا ہے- حاجی صاحبان اور زائرین کرام جہاں مقدس عبادات اور ارکان کی ادائیگی میں مگن رہتے ہیں وہیں اب وہ اضافی طور پر قدم قدم پر سیلفیاں بناکر اسکی تصدیق بھی کرتے ہیں اور چشم زدن میں پھر انہیں سوشل میڈیا پر شیئر کرکے اپنے دوست احباب اور چاہنے والوں سے اسکی داد بھی وصول کرنا چاہتے ہیں- اس نئے رواج میں عوام کے ساتھ ساتھ نامور افراد اور کھلاڑی بھی شامل ہیں- جبکہ سیاستدان بھی اس سےاپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت مستفید ہو رہے ہیں- چند ماہ قبل ختم نبوت کےمعاملے پر پیدا شدہ بحران کے بعد جب وزیر قانون زاہد حامد کو مستعفی ہونا پڑا تو اسکے فورا بعد وہ عمرے پر چلے گئے جہاں سے انہوں نے احرام کی حالت میں ایک تصویر جاری کردی- مختلف تجزیہ کاروں نے دعوی کیا کہ غالبا انکا مقصد اس تصویر کے ذریعے اپنے مذہبی عقیدے کی وضاحت کرنا مقصود تھا- اسی طرح حال ہی میں سابق وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال صاحب بھی قاتلانہ حملے میں بچ نکلنے کے بعد عمرہ کرنے چلے گئے- انھوں نے بھی وہاں سے اپنے مذہبی معمولات سے جڑی ہوئی اپنی درجنوں تصاویر جاری کیں تاکہ ان حوالے سے انکے مخالفین کے کسی بھی قسم کے پروپگنڈے کا پہلے سے تدارک کیا جاسکے-
حج اور عمرے کے دوران لوگوں کا کثرت سے سیلفیاں لینا، تصویریں کھینچنا اور ویڈیو بنانا خطرے سے خالی نہیں- اس سے طواف اور دیگر فرائض میں مشغول زائرین کی فطری رفتار میں خلل پڑتا ہے جس سے کافی بڑے حادثے رونما ہوسکتے ہیں- یہی وجہ ہےکہ گزشتہ سال کے اواخر میں سعودی حکومت نے دوران حج اور عمرہ مکتہ المکرمہ اور مدینہ المنورہ میں مسجد الحرام اور مسجد نبوی سمیت بارہ جگہوں پر سیلفیاں لینے پر پابندی لگادی- مگر اسکے باوجود اس وبا پر قابو نہیں پایا جاسکا-اس پابندی کے اعلان کے وقت حرم الشریف کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے لوگوں سے گزارش کی تھی کہ وہ تصویریں کھینچنے کے بجائے عبادات پر اپنی توجہ مرکوز کریں- مگرا سمارٹ فونز کے اس زمانے میں لوگوں کو سیلفیوں کے بغیر شاید کسی کام میں لطف ہی نہیں آتا!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین