• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا کراچی تبدیلی کے لئے تیار ہے؟

کراچی کے ووٹرز تبدیلی کے لئے ووٹ دینے میں کچھ وقت لیتے ہیں دیکھنا ہوگا کہ25جولائی سے قبل یہ رجحانات کس طرح تبدیل ہوتے ہیں؟ اور یہ ایک دلچسپ صورت حال ہوگی ، اگرچہ بڑا سیاسی معرکہ پنجاب میں ہوگا تاہم کراچی کے نتائج بھی شہر اور ملک کی مستقبل کی سیاست کے حوالے سے انتہائی اہم ہوں گے۔ دیکھنا ہوگا کہ25 ملین سے زائد کا یہ شہر کس طرف جاتا ہے جبکہ مردم شماری میں پہلے ہی اس شہر کو محروم رکھا گیا ہے اور اس کی آبادی اصل سے بہت کم دکھائی گئی ہے؟ کیا یہ شہر قیادت اور رجحانات دونوں حوالوں سے تبدیلی کی طرف جاتا ہے؟ جبکہ30 سال اس کا الحاق ایک ہی پارٹی سے رہا ہے۔ کراچی کی سیاست میں رجحان کے حوالے سے بڑی تبدیلی 1988ء میں دیکھی گئی تھی جب یہ شہر مذہبی سے لسانی سیاست کی طرف گیا۔ ملکی تاریخ میں کبھی اسلام آباد میں برسر اقتدار حکومت کراچی میں کامیاب نہیں ہونی چاہے وہ پی پی پی ہو یا مسلم لیگ (ن)‘ گزشتہ تین عشروں میں یہ صورت حال مختلف وجوہات کے باعث تبدیل نہیں ہوسکی مگر اب قومی سطح کی سیاسی جماعتیں شہر کے انتخابات میں بڑی دلچسپی لے رہی ہیں جبکہ مضبوط ایم کیو ایم تقسیم کھڑی ہے اور بکھری ہوئی نظر آتی ہے حتی کہ اس کا ایک مضبوط دھڑا انتخابات کے بائیکاٹ کی باتیں کررہا ہے تو قومی اسمبلی کے 21 اور سندھ اسمبلی کے 43 حلقے کھلے ہیں جہاں ماضی میں بڑے معرکے ہوتے تھے ۔مردم شماری کے بعد حلقہ بندیوں سے ایم کیو ایم مزید مجروح ہوئی جبکہ ماضی میں 1988ء سے 2013ء تک کے انتخابات میں ایم کیو ایم 85 فیصد سے زائد نشستیں جیتتی رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا 2018ء کے انتخابات میں کراچی میں سیاسی رجحان تبدیل ہوگاَ اگر ہوگا تو کس سمت میں؟ کیا یہ کسی قومی جماعت کی طرف جائے گا؟ یا مذہبی جماعتوں کے پاس چلا جائے گا؟ یہ شہر کسی اور مقامی جماعت کی طرف بھی جا سکتا ہے۔ پہلی بار ایک مضبوط ایم کیو ایم بہادر آباد، ایم کیو ایم (حقیقی) حتیٰ کہ پاک سر زمین پارٹی کے درمیان تقسیم ہو چکی ہے۔ اس تقسیم نے پی پی پی ، پی ٹی آئی ، مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم جیسی جماعتوں کو موقع دیا ہے جبکہ ایم کیو ایم مخالف ووٹ ہمیشہ ہی تقسیم رہا ہے اس طرح توازن معمولی سا ایم کیو ایم مخالفت کی طرف ہوا ہے ۔ سندھی اور بلوچ ووٹ پی پی پی کو جائے گا جس نے اسے اب یہ اعتماد دیا ہے کہ وہ بعض مہاجر نشستیں جیت سکتی ہے اس لئے وہ کچھ ٹکٹ اُردو بولنے والوں کو دے رہے ہیں۔ پی پی پی کے کراچی میں کچھ حلقے مضبوط رہے ہیں مگر اس کی یہاں سے نشستیں 3 سے نہیں بڑھ سکیں۔ پنجابی بھی بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں لیکن وہ مختلف حلقوں میں بکھرے ہوئے ہیں اور وہ مسلم لیگ (ن) کے مناسب امیدوار وں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ مضبوط گجراتی اور میمن ووٹ بھی جو اب تک ایم کیو ایم کے ساتھ رہا ہے‘ اب پی ایس پی، پی ٹی آئی، ایم ایم اے یا تحریک انصاف کو جا سکتا ہے، مذہبی جماعتیں بھی تقسیم ہیں مگر ایم ایم اے ،ٹی ایل پی اورملی مسلم لیگ کو اپنی صفوں میں لانے کے لئے کوشاں ہے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوگئی تو کراچی میں ایم ایم اے کو کامیابی میں مدد مل سکتی ہے۔ لندن کی بائیکاٹ کی اپیل سے یقیناً ایم کیو ایم مخالف رجحانات کو فائدہ ہوگا اور اگر یہ اپیل 50 فیصد بھی کامیاب رہی تو اس سے ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کے امکانات کم ہو جائیں گے اور پی پی پی و دیگر جماعتوں کو فائدہ ہوگا۔ایم کیو ایم لندن نے بائیکاٹ کی اپیل کر کے بڑا رسک لیا ہے اور اپنے ووٹرز سے کہاہے کہ وہ گھروں میں رہیں ،اگر اس طرح وہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کو پیچھے رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ یہ دعویٰ کر سکے گی کہ وہ ’’مہاجروں‘‘ کی واحد نمائندہ جماعت ہے مگر مذکورہ دونوں جماعتوں کے حق میں بڑے ٹرن آئوٹ کی صورت میں ایم کیو ایم لندن اور اس کی سیاست کو بڑا دھچکا لگے گا۔ اس طرح ایم کیو ایم کا حامی ووٹر پریشانی کا شکار ہے اور یہ کنفیوژن دن بدن بڑھ رہی ہے‘ خاص طور پر جبکہ ایم کیو ایم (پی آئی بی) اور ایم کیو ایم (بہادر آباد) میں اندرونی خلیج بڑھتی جارہی ہے، سابق ایم کیو ایم رہنمائوں سید مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی قیادت میں قائم پی ایس پی مہاجر علاقوں کے مشترکہ ووٹرز کو ’’درمیانی راستہ‘‘ دے رہی ہے‘ بدلتا ہوا ماحول ایم کیو ایم مخالف جماعتوں کے لئے قومی اسمبلی کی 21 اور صوبائی اسمبلی کی 43نشستیں آپس میں بانٹنے کا موقع دے رہا ہے۔ ایم کیو ایم (پاکستان) لندن سے فاصلے بڑھانے،ایم کیو ایم بانی کے خلاف قرارداد کی منظوری اور اس کا نام ایم کیو ایم کے منشور سے خارج کرنے کے باوجود ان طاقتور حلقوں کا اعتماد حاصل نہیں کرسکی جو کراچی کے سیاسی منظر نامے کو بنظر غائر دیکھ رہے ہیں۔اس صورت حال میں ’’پولیٹیکل انجینئرنگ‘‘ کراچی میں گزشتہ دو سالوں کے دوران واضح نظر آئی ہے اور امکانات موجود ہیں کہ یہ بدلتے رجحانات میں اہم کردار ادا کرے گی‘ مگر ایم کیو ایم لندن اور پاکستان کے دھڑے اس بحران کے خود ہی ذمہ دار ہیں ،ایم کیو ایم کی سیاست کبھی اس سطح پر نہیں آئی جو صورت سینٹ کے انتخابات اور ’’طاقت کی جدوجہد‘‘ میں دیکھی گئی ہے، اس کی قیادت زیادہ ترمتوسط طبقہ کی ہے اور اس میں سیاسی بلوغت کی کمی ہے۔ اس وقت مہاجر ووٹرز کو پتنگ (ایم کیو ایم کا روایتی نشان) ڈولفن( پی ایس پی ) ، بلے(پی ٹی آئی)، تیر( پی پی پی)، کتاب (ایم ایم اے) ، شیر (مسلم لیگ (ن) میں سے ایک کا انتخاب کرنا یا پھر غیر حاضر رہ کر گھر میں رہنا ہوگا۔ تاریخی طور پر کراچی نے 60ء کے عشرے میں پہلی بار ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخابات میں ووٹ دیئے اور یہ ڈھاکا کے ساتھ فاطمہ جناح کو ووٹ دینے میں کھڑا تھا۔ وہ مشترکہ اپوزیشن اور بی ڈی ( بنیادی جمہوری) نظام کے تحت اُردو بولنے والے ووٹرز کی مشترکہ امیدوار تھیں جو بنیادی طور پر مسلم لیگی یا لبرلز تھے، کراچی اپوزیشن کا شہر بن گیا اور اس نے اس کی قیمت بھی چکائی۔ 1970ء میں ’’ایک شخص ایک ووٹ‘‘ کی بنیاد پر ہونے والے پہلے عام انتخابات میں پاکستان کی مذہبی جماعتوں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور جے یو پی نے قومی اسمبلی کی 7 میں سے 4 نشستیں جیتیں، پی پی پی کو 2 نشستیں ملیں جبکہ مولانا ظفر انصاری نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیابی حاصل کی، اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر رہی۔1977ء میں مذہبی جماعتوں پر مشتمل مذہبی اتحاد پی این اے نے کراچی میں عملی طور پر کلین سویپ کیا مگر بعد میں پی پی پی کی قومی اسمبلی میں اکثریت برقرار رہنے پر ان انتخابات کو دھاندلی زندہ قرار دیا گیا۔ کراچی نے مذہبی جماعتوں میں پہلی مرتبہ اس وقت انحراف کیا جب اس نے 1984ء میں جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم میں ووٹ نہ دیا جبکہ جماعت اسلامی جنرل ضیاء کی حمایت کررہی تھی اور اس ریفرنڈم کے نتیجے میں اس کا اقتدار قائم رہا۔ ایک سال بعد 1985ء میں جب ضیاء نے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو جماعت اسلامی اورجے یو پی کو اس وقت بڑا دھچکا لگا جب اس کے مضبوط امیدوار اس آزاد امیدوار سے ہار گئے جسے لوگ زیادہ جانتے بھی نہیں تھے۔ یہ ووٹنگ کے رجحان میں تبدیلی کا واضح اشارہ تھا۔ 1987ء میں اُردو بولنے والوں کی ایک نسبتاً نئی جماعت نے لوکل باڈیز انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی اور اس نے 1988ء کے عام انتخابات میں بھی اپنی بالادستی قائم رکھی، کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ ، ایم کیو ایم کے حق میں ایسا کلین سویپ پھر نہیں دیکھا۔ پارٹی نے 1990ء میں بھی اپنی پوزیشن برقرار رکھی حتیٰ کہ 1993ء کے قومی اسمبلی کے انتخابات میں جب اس نے بائیکاٹ کیا تو ٹرن آئوٹ انتہائی کم رہا اور جب صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں اس نے حصہ لیا تو ایک بار پھر جھاڑو پھیر دیا مگر ایم کیو ایم کی قیادت 2002ء میں نشستیں جیتنے کے باوجود اپنی مقبولیت میں آنے والی کمی کو نہ دیکھ سکی جس کانتیجہ بڑے دھچکے کی صورت میں ہوا اور وہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کو 6 نشستیں دے بیٹھی‘ مگر مجموعی مینڈیٹ کسی بڑی تبدیلی کا عکاس نہ تھا‘ 2002ء میں ایم ایم اے افغانستان پر امریکی حملے کے خلاف اُبھری اور اس نے پہلی بار خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی اور بڑے اپوزیشن اتحاد کے طور پر سامنے آئی۔ ایم ایم اے میں اختلافات اور جماعت اسلامی کے تحریک انصاف کے ساتھ مل کر 2008ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کے نتیجے میں ایم کیو ایم نے ایک بار پھر اپنی پوزیشن مستحکم کی مگر ایم کیو ایم نے 2002ء کے نتائج سے کچھ نہ سیکھا اور 2008ء کے نتائج کو غنیمت جانا۔ 2013ء میں کراچی کے ووٹرز نے اس وقت تبدیلی کا اشارہ دیا جب تحریک انصاف چیلنجر بن کر اُبھری اور اس نے 8 لاکھ ووٹ حاصل کئے۔ اگرچہ ایم کیو ایم نے اپنی اکثر نشستیں برقرار رکھیں مگر پی ٹی آئی نے یقینی طور پر اسے دھچکا پہنچایا اور قیادت کو پریشان کرکے رکھ دیا۔ ایم کیو ایم لندن شاید زمینی صورت حال کو نہ پڑھ سکی اور نقصان پر بھی قابو نہ پا سکی۔ پی ٹی آئی اور عمران خان نے بھی کراچی میں راہیں بنانے کا بڑا موقع کھو دیا جو تبدیلی کے لئے تیار تھا کہ بڑی تعداد میں ایسے خاندانوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا جو پہلے ووٹ ہی نہیں دیتے تھے۔ دیکھتے ہیں 25جولائی کو کیا تبدیلی آتی ہے؟ کیا یہ جماعت یا قیادت کی تبدیلی ہوگی یا رجحانات کی؟۔

تازہ ترین