• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری جوانی یہ سوچتے گزر گئی کہ جوانی کیسے گزاریں؟کسی سیانے، نے کہا تھا کہ جوانی زندگی کا بہترین دور ہوتاہے بشرطیکہ وہ ذرا دیر سے آئے۔ اس لحاظ سے ہم پر گویا جوانی آئی ہی نہیں ۔ ہم بمشکل شناختی کارڈ کی عمر کو پہنچے تھے کہ اماں نے بہو کے لیے ’’ شناختی پریڈ‘‘ شروع کر دی ۔ ہائکو نظم پڑھنے میں اتنی دیر نہیں لگتی جتنے جلدی انھوں نے اپنا ہدف حاصل کر کے ہمارے منہ پہ رومال رکھوادیا ۔ ہم نے جب بھی اماں سے انتخاب میں دھاندلی کی شکایت کی انھوں نے یہ کہہ کر ہمیں خاموش کردیا کہ

یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں۔

خیر ،ہم کیا دل کے پھپھولے پھوڑنے لگے۔اب مطلب کی بات کرتے ہیں۔اُسی ہیجان پرور دور کی بات ہے ایک روز اسکول کے زمانے کے ایک دوست ارشد سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے ان سے پوچھا ’’میں نے سنا ہے تم دوسری شادی کر رہے ہو؟‘‘ ’’توبہ کرو‘‘ اس نے جھٹ جواب دیا ’’مجھ سے ایک نہیں سنبھل رہی بھلا دودو ساسیں کیسے سنبھالوں گا؟‘‘ ہم نے اس ’’ساس گزیدہ‘‘ سے دوسرا سوال کیا ’’آخر تمھاری ساس سال میں کتنی بار تمہارے یہاں آتی ہیںجو تم اتنے پریشان ہو؟‘‘ اُس نے بتایا ’’ سال میں دو دفعہ۔‘‘ ہم نے اسے انھیں غیرت دلا نے کے لیے کہا’’تم ان کے سال میں صرف دودفعہ آنے سے بد حال ہو ئے جا رہے ہو۔ تُف ہے تم پر ۔‘‘ اس نے جواب دیا ’’ میرے عزیز ، تم نے فیصلہ سنانے میں جلدی کر دی۔ بے شک وہ سال میں دو دورے کرتی ہیں مگر ان کا ہر دورہ چھے ماہ کا ہوتا ہے۔‘‘ اس پر ہمیں ایک اور دوست یاد آگیا، جس کی خوش دامن اس کے گھر صرف ایک مرتبہ آئی تھیں یعنی شادی والے دن ۔ لیکن پھر واپسی کا راستہ ہی بھول گئیں،بہر حال ہمیں ارشدسے ہمدردی ہوگئی تھی۔

ہمدردی تو ہمیں ہندوستان کی اس بہو(کو شیلیا) سے بھی ہے جس نے’’ ساس برائے فروخت ‘‘کا اشتہار سوشل میڈیا پر لگایا ہے۔اشتہار کا عنوان اس کے دکھی دل کی عکاسی کرتا ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے ’’ ایک ساس بہترین حالت میں برائے فروخت دستیاب ہے۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرداور عورتیں دونوں، بچاری ساسوں سے نالاں رہتے ہیں۔ ایک مغربی ملک کی عورت ساس دشمنی میں کوشیلیا دیوی سے آگے بڑھ گئی۔ اس نے اپنی ایک سہیلی سے کہا ’’ میں اپنی ساس سے نفرت کرتی ہوں۔ اگر وہ نہ ہوتی تو ڈیوڈ میرا شوہر نہ ہوتا اور یہ دوسری وجہ ہے اس سے نفرت کی۔ اب تو میں نے سوچا ہے کہ یہ بڑی بی کسی فلاحی ادارے کو عطیہ کردوں گی۔‘‘ (ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی وہ بہترین شے عطیہ کرو جس سے تمھیں محبت ہے۔)

مغرب کی عورت اپنی شرانگیز کارروائی میں بھی ساس کی ہتک کا پہلو نکال لیتی ہے۔ لندن میں ایک شخص شام کو آفس سے گھر پہنچا تو اپنی بیوی ماریا کو روتے ہوئے دیکھا۔ اس نے گھبرا کر پوچھا ’’خیریت تو ہے ڈئیر؟‘‘

’’آج تمہاری ماں نے میری بہت بے عزتی کی ہے ‘‘ ماریا نے جواب دیا ۔

’’ وہ تو سیکڑوں میل دُور ہیں۔ کیا ان کا کوئی فون آیا تھا ؟‘‘

’’نہیں‘‘

’’پھر انھوں نے تمہاری بے عزتی کیسے کر دی؟‘‘ شوہر حیران تھا ۔

’’ یہ خط دیکھو‘‘ خاتون نے ایک خط شوہر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’ یہ انھوں نے تمھارے نام بھیجا ہے جو آج صبح یہاں پہنچا ہے۔‘‘

’’تو کیا میری ماں مجھے خط نہیں لکھ سکتی ؟‘‘ شوہر برہم ہو گیا۔

’’خط پر مجھے کوئی اعتراض نہیں‘‘ عورت نے وضاحت کی ’’لیکن اس خط کے آخر میں یہ نوٹ دیکھو۔ مجھے مخاطب کرکے انھوں نے لکھا ہے’’بیٹی ماریا، یہ خط میرے بیٹے کو دینا نہ بھولنا‘‘ اتنی بے اعتباری؟‘‘

یہ مسئلہ تحقیق طلب ہے کہ مرد اپنی ساسوں سے زیادہ ڈرتے ہیں یا عورتیں اپنی ساسوں سے؟ دوسری طرف ساسیں عموماً شکوہ کرتی ہیں کہ جب میں بہو تھی تو مجھے ساس بری ملی۔ اب ساس بنی ہوں تو بہو بری ملی ہے۔ حقوق نسواں کی علمبردار خواتین اکثر یہ مسئلہ اٹھاتی ہیں کہ آخر بہوویں ہی کیوں گیس کا چولھا پھٹنے سے جھلس کر مرتی ہیں ۔ کبھی کوئی ساس بھی تو اس حادثے کا شکار ہو۔ یہ تنظیمیں مردوں کے مصائب سے قطعاً لاتعلق رہتی ہیں، چونکہ ’’حقوق مرداں‘‘کی ہمارے یہاں کوئی تنظیم نہیں اس لیے مرد ہمیشہ اپنی ساسوں سے خائف رہتے ہیں ۔ ساس سے خوف کا سایہ دور دور پھیل رہا ہے۔ایک گاؤں میں ایک نوجوان لڑکی اپنی گائے کا دودھ دوھ رہی تھی کہ قریب کے کھیت سے ایک بیل رسی توڑ کر بے قابو ہوگیا ۔ وہ لوگوں کو روندتا ہوا لڑکی کی طرف بڑھ رہا تھا لیکن لڑکی اطمینان کے ساتھ دودھ نکالتی رہی۔ پھر سب نے دیکھا کہ بیل اندھا دھند دوڑتا ہوا آیا لیکن لڑکی کے قریب پہنچ کر وہ جیسے زمین میں گڑھ گیا اور پھر سر جھکا کر لوٹ گیا ۔ لوگوں نے حیران ہوکر پوچھا ’’تم اس بیل سے خوفزدہ کیوں نہیں تھیں جبکہ بڑے بڑے سورما بھاگ رہے تھے؟‘‘ لڑکی نے جواب دیا ’’یہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ بلکہ وہ میرے قریب بھی نہیں آسکتا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا میں جس گائے کا دودھ دوھ رہی تھی وہ اس کی ساس ہے۔‘‘

کوشیلیا دیوی نے اشتہار میں اپنی ساس کی کچھ خصوصیات کا بھی ذکر ہے اس نے لکھا ’’اس کی آواز اتنی میٹھی ہے کہ ہمسایوں کو قتل کرنے کے لیے کافی ہے ۔‘‘ہمارے خیال سے یہ بڑی کار آمد صفت ہے۔ بلکہ یہ ایک خوبی سوخوبیوں سے بڑھ کر ہے۔ ہمارے شہر کراچی میں جب دہشت گردوں کے خلاف رینجرز کا آپریشن ہورہا تھا۔ سائیں مراد علی شاہ کی سرکار شکوہ کرتی تھی کہ وفاق اس کام میں مالی تعاون نہیں کر رہا ۔ وہ آپریشن کے اخراجات کے لیے وفاقی حکومت سے 40 ارب روپے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ وفاق کا کہنا تھا کہ یہاں قلندر ہیں، نہیں کوڑی کفن کے واسطے۔ سائیں کو چاہیے کوشیلیا کی ساس خرید لیں۔ ادھر مودی سرکار کی حالت بھی پتلی ہے ۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر گھٹ رہے ہیں لیکن ہم کرکٹ کی خاطر تھوڑے سے ڈالرز مودی جی کی جھولی میں ڈال دیں تو ہو سکتا ہے وہ نرم پڑ جائیں اور کرکٹ سیریز کی تجویز سے ’’سمّت‘‘ ہوجائیں۔ رینجرز کی جگہ کوشیلیا کی ساس کی آواز کے کیسٹ مشکوک علاقوں میں چلا کر دہشت گردوں کا صفایا کیا جا سکتا ہے ۔

کچھ عرصے قبل ہمارے محلّے میں ایک صاحب نے اپنے پڑوسی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جب پڑوسی گھر سے باہر نکلے تو آنے والے صاحب نے شکایت کی ’’دیکھیے کل آپ کے کتے نے میری ساس کو کاٹ لیا اور وہ درد سے کراہ رہی ہیں۔ ’’ہرگز نہیں‘‘ پڑوسی نے گھبرا کر تردید کی ’’ کیا آپ مجھ پر کیس کرنا چاہتے ہیں؟‘‘ ’’یہ کس نے کہا؟‘‘ وہ صاحب بولے’’ میں تو یہ پوچھنے آیا ہو ں کہ آپ یہ کتا کتنے کا دیں گے؟‘‘

کوشیلیا نے اپنی ساس کا ایک گُن یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اچھے سے اچھے کھانے میں خرابی نکال دیتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ بھارت کی عائشہ مختار ہیں۔ سائیں سرکار کے لیے یہ خوبی بھی نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوگی۔ وہ کوشیلیا کی ساس خرید کر تمام فوڈ انسپکٹر س کی چھٹی کر دیں گے۔ ایک ساسُو ماں سب ملاوٹ کرنے والوں پر بھاری ہوگی۔ جیسے ہمارے شہر میں غیر قانونی اسلحہ ’’آسان قسطوں‘‘ پر مہیا کیا جاتا ہے، اسی طرح وہ ساسُوماں دوسرے صوبوں کو کرایے پر دی جاسکے گی، مگر سائیں، شاید ہماری یہ تجویز تسلیم نہ کریں۔ وہ بھلا دوسروں کی روزی پر کیوں لات ماریں گے؟ اور روزی تو روزی ہوتی ہے، چاہے حلال کی ہو یا حرام کی۔

کوشیلیا اپنی ساس سے اتنی عاجز ہے کہ پیسے نہ ہونے کی صورت میں وہ بڑی بی کو ایک کتاب کے تبادلے میں بھی دے سکتی ہے۔ اب کوئی وجہ نہیں رہ جاتی کہ اس کرشماتی ساس کو نہ خریدا جائے۔ ہمارے قارئین ہی میں سے کوئی صاحب ذوق آواز دے کر طلب کرلیں۔ کتاب ہم مہیّا کر دیں گے اور وہ بھی فی سبیل اللہ۔ ہم اس کام کے عادی ہیں۔

تازہ ترین