• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عید کی چھٹیاں اور اتنی مختصر، دن گنے جاتے ہیں ان دنوں کے لئے، خیر عید کی چھٹیوں پر ہی کیا منحصر ہے یہاں تو سال گنتے گنتے عمر بیت گئی ہے اور پتہ ہی نہیں چلا۔ یہی زندگی کا حسن ہے کہ اس میں ہر شے یعنی دوستیاں، رشتے داریاں، عہدے ،شہرت ،دولت اور محبتیں سب کچھ عارضی ہے لیکن جب ہم ان کے طالب ہوتے ہیں یا ان ہی لہروں پر سوار ہوتے ہیں تو ہم بالکل بھول جاتے ہیں کہ یہ سب کچھ عارضی ہے۔ اس وقت ہم ہر شے کے مالک بن بیٹھتے ہیں جیسے انہوں نے قیامت تک ہماے ساتھ رہنا اور نبھانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم تو اپنے جسم کی بھی مالک نہیں اور ہمارے جسم کے وہ اعضاء جنہیں ہم اپنی ملکیت سمجھتے ہیں ایک ایک کرکے دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں۔ کبھی آنکھ بینائی سے محروم ہوجاتی ہے کبھی کان سننے سے انکار کردیتے ہیں اور کبھی گوڈے گٹے باغی ہو کر بوجھ اٹھانے ا ور حرکت کرنے سے چٹا جواب دے دیتے ہیں۔ جب جسم کا یہ حال ہے جو ہمارے ساتھ پیدا ہوتا اور ساتھ مرتا ہے اور بظاہر ہماری سچی و پکی ملکیت ہوتا ہے تو ان خارجی چیزوں کی کیا حیثیت ہوگی جن کے حصول کے لئے ہم شب و روز مصروف رہتے ہیں اور جنہیں حاصل کرکے ہم پر نشہ سا طاری ہوجاتا ہے۔ جسم میں مرکزی شے دل ہوتی ہے۔ جسم کا کوئی اور عضو بے کار ہوجائے تو کام چلتا رہتا ہے ۔ ایک آنکھ بینائی سے محروم ہوجائے تو دوسری سے گزارہ ہوجاتا ہے۔ ان اعضاء کی بے کاری سے انسان مرتا نہیں لیکن دل کی حیثیت مختلف ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انسانی جسم میں دل فقط ایک ہی رکھا ہے۔ دل فیل ہوا تو انسان چل بسا جیسے دل روح کا مسکن ہے،دل بے کار ہوا تو روح قفس عنصری سے اڑ گئی لیکن صوفیاء دل کو روح اور نفس کے درمیان برزخ سمجھتے ہیں۔ راہ تصوف کے مصنف حضرت محمد خادم حسن شاہ المعروف نواب گڈی شاہ بابا اجمیری آف اجمیر شریف(انڈیا) لکھتے ہیں کہ دل مظہر اسم عادل ہے کہ اعتدال قوائے نفسانی و روحانی اس پر موقوف ہے اور یہی روح اور نفس کے درمیان برزخ ہے جس کے ذریعہ سے کمالات روح و نفس ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ عارضی پن ، بے ثباتی اور وقتی حیثیت ہی انسانی زندگی کا حسن ہے۔ انسانی زندگی ہر لمحہ پینترے بدلتی اور کروٹیں لیتی رہتی ہے لیکن ہم نہ اس پر غور کرتے ہیں اور نہ ہی ہمیں اس طرح کا احساس ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کو عارضی پن کے خوف سے آزاد رکھنا شاید انسانی فطرت کا تقاضا ہے یا منشائے قدرت ہے تاکہ انسان ہر قسم کے خوف سے بے نیاز ہو کر کھل کھیلے۔ بے خوف ہوگا تو کھل کھیلے گا اور کھل کھیلے گا تو اس کا امتحان ہوگا اگر انسان ہر لمحہ زیر خوف رہے، محتاط رہے، اس کے فیصلوں اور حرکات کو بریکیں لگتی رہیں اور رکاوٹیں روکتی رہیں تو پھر اس کا صحیح معنوں میں امتحان تو نہ ہوسکتا۔ امتحان کا تقاضا ہے کہ انسان مکمل طور پر آزاد ہو، جو جی چاہے کرے، وہ ڈاکہ ڈالے یا قتل کرے اسے کوئی روک ٹوک نہ ہو تاکہ روز حساب اس کے اعمال کا حساب لیا جاسکے۔ امتحان کا براہ راست تعلق دل سے ہے۔ اسی لئے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے نیت پر بہت زور دیا ہے کیونکہ نیت دل میں جنم لیتی ہے اور جسم کو متحرک کرتی ہے۔ نیتوں کا حال رب جانتا ہے اور وہ روز حساب نیتوں کا اجر دے گا کیونکہ بعض اوقات نیت اور عمل کے درمیان تضاد یا ٹکراؤ رونما ہوجاتا ہے۔ نیت کچھ اور ہوتی ہے لیکن عمل یا اس کا نتیجہ نیت کے بالکل برعکس رونما ہوتا ہے۔ ارادے باندھنا انسانی عادت ہے، نیت ہی ارادہ بنتی ہے، ارادے کامیاب ہوں تو انسان کو کامیابی کا نشہ حاصل ہوتا ہے اور وہ ہوا میں اڑنے لگتا ہے۔ ارادے ناکام ہوں تو دل شکنی ہوتی ہے اور انسان مایوسی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ عام انسانوں اور اولیاء اکرام میں یہی فرق ہے کہ اولیاء اکرام اپنے ا رادے رضائے الٰہی کے تابع کردیتے ہیں اور غمی و خوشی سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ حضرت علی  کا مشہور قول ہے کہ میں نے رب کو اپنے ارادوں کی ناکامی سے پہچانا، اگر تمام ارادے کامیاب ہونے لگتے تو پھر انسان ہی رب بن بیٹھتا، چنانچہ جب ارادے ناکام ہوتے ہیں تو اہل نظر کو ناکامیوں میں اللہ تعالیٰ کا ارادہ نظر آتا ہے اور وہ اس ناکامی سے اپنے رب کو پہچانتے ہیں۔ اہل دنیا اس ناکامی کی وجوہ ارادے کی کمزوری، وسائل کی کمی اور حالات کی خرابی میں ڈھونڈھتے ہیں۔ اہل دنیا کا دل دنیا سے آباد ہوتا ہے۔ دنیاوی خواہشات اور نفس و ہوس سے بھرا ہوتا ہے چنانچہ وہ ہر شے کو دنیا کے حوالے سے دیکھتے اور اسی حوالے سے اسباب تلاش کرتے ہیں ۔صاحبان باطن کا دل رب کے نور سے منور ہوتا ہے اس لئے وہ ہر شے کا سبب رضائے الٰہی میں تلاش کرتے اور دیکھتے ہیں۔
گویا غور کیا جائے تو انسانی کائنات میں دل کو مرکز کی حیثیت حاصل ہے اور یہ سارا کیا دھرا دل کا ہے۔ دل سفلی جذبات و احساسات کی آماجگاہ ہو تو انسان کبھی حسد کی آگ میں جلتا ہے، کبھی غصے، نفرت، کدورت اور بغض کے جہنم میں جلتا ہے، کبھی دولت شہرت اور اقتدار کی ہوس کے پیچھے دوڑتا اور ہانپتا ہے، کبھی کسی کی گردن اڑاتا اور غرور و گھمنڈ سے دوسروں کے دل پامال کرتا ہے۔ دنیا کا سارا سازو سامان ہونے کے باوجود اسے قلبی مسرت اور روحانی تسکین میسر نہیں ہوتی کیونکہ قلبی مسرت اور روحانی تسکین دنیا کے سازو سامان میں نہیں بلکہ رضائے الٰہی میں مضمر ہے۔ گویا کچھ دلوں کی منزل دنیا ہوتی ہے تو کچھ دلوں کی منزل رضائے الٰہی۔ فرق صرف یہ ہے کہ دنیا حاصل کرکے بھی انسان محرومی کے احساس کا شکار رہتا ہے جبکہ ساری دنیا قربان کرکے بھی اگر رضائے الٰہی حاصل ہوجائے تو انسان دل کی بادشاہت اور کائنات کا بادشاہ بن جاتا ہے یوں محسوس کرتا ہے جیسے اس کے رب نے دنیا کی ہر شے اس کے تابع کردی ہے۔ گویا دل کو پوری طرح فتح نہیں گویا دنیا کو فتح کرنے کے مترادف ہے اور دل کی غلامی کا مطلب دنیا کی غلامی ہے۔ سکندر اعظم پورے سازو سامان کے باوجود اور نصف دنیا کو فتح کرنے کے باوجود دل کو فتح نہ کرسکا اور دل کی آرزؤں کا غلام بنا رہا جبکہ دنیا کی نظروں سے اوجھل خاک نشین قلندر شیروں پر سواری کرتا اور دنیا کی ہر شے کو اپنا تابع بنالیتا ہے ۔ وہ اپنی مرضی کو رضائے الٰہی کے تابع کرکے دنیا کو فتح کرلیتا ہے ۔دل کا ذکر چلا ہے تو آپ کو بتاؤں کہ حقیقی دل کیا ہوتا ہے۔ سلطان عارفاں حضرت خواجہ معین الدین حسن اجمیری فرماتے ہیں”حقیقی دل وہ دل ہے جو نہ دائیں جانب ہے نہ بائیں جانب نہ اوپر کی طرف ہے نہ نیچے کی جانب ،نہ دور نہ نزدیک مگر اس حقیقی دل کی شناخت آسان نہیں ہے۔ مقربان خدا اسے جانتے ہیں۔ مومن کا دل درحقیقت عرش خدا پر ہوتا ہے اور لامتناہی تجلیات کا آئینہ ہوتا ہے“۔ مطلب یہ کہ دل انوار ربانی کا آئینہ ہوتا ہے۔ بقول شاہ بابا مرحوم جب یہ الائش دنیا یعنی بغض ،نفاق، غرور، کینہ، ایذا رسانی، دشمنی اور حسد جیسی گندگیوں سے پاک ہوجاتا ہے اور ذکر الٰہی سے منور ہوجاتا ہے تو اس میں تجلیات و انوار نظر آتے ہیں۔ صاف پانی میں ہی سورج کا عکس نظر آتا ہے کیچڑ میں نظر نہیں آتا۔
تازہ ترین