• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طالبان کے سربراہ ملامحمد عمر مجاہد بعض حوالوں سے انفرادی حیثیت کے حامل لیڈر ہیں۔ افغانستان کے حکمران بنے لیکن ایک روز کے لئے بھی کابل کے قصرصدارت میں گزارنا گوارا نہیں کیا اور حسب سابق قندھار میں واقع اپنے سادہ ڈیرے سے حکومت چلاتے رہے۔ وہ ٹی وی اسکرین پر نظر آئے اور نہ کبھی قوم سے خطاب کیا لیکن طالبان کے زیرقبضہ علاقوں میں ان کے ہر حکم پر پلک جھپکتے عمل کیا جاتا تھا اور طاقتور سے طاقتور آدمی بھی سرتابی کا سوچ نہیں سکتا تھا۔ گذشتہ گیارہ سال سے وہ عالم روپوشی میں طالبان کی قیادت کررہے ہیں اور آج بھی عالم یہ ہے کہ ان کو تبدیل کرنے والا طالب رہ سکتا ہے اور نہ زیادہ دیر زندہ ۔ طالبان تو کیا القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری اور تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود بھی ان کو قائد اور امیرالمومنین مانتے ہیں ۔ اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطے کا ملامحمد عمر نے اپنا میکنزم بنا رکھا ہے تاہم عوام اور دنیا کے ساتھ ان کے رابطے اور مکالمے کا ذریعہ ان کے وہ پیغامات ہوتے ہیں جو وہ عید یا پھر افغانستان کے قومی دنوں پر جاری کرتے ہیں ۔ یہی پیغامات افغان طالبان کے پالیسی بیانات کی حیثیت رکھتے ہیں اور ملا محمد عمر انہی کے ذریعے اپنی سوچ واضح کرتے یا پھر عوام اور دنیا تک پہنچاتے ہیں ۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر انہوں نے جو پیغام جاری کیا ہے اور جس کی ایک کاپی مجھے بھی ارسال کی گئی ہے ‘ میں بعض باتیں ایسی کی گئی ہیں جو طالبان کی سوچ اور حکمت عملی کی تبدیلی کی عکاس بھی ہیں اور اس میں طالبان سے متعلق عالمی برادری اور افغان عوام کے خدشات کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ مثلاً ملا محمد عمر مجاہد کہتے ہیں کہ :
” ہم نہ قبضہ گری کی فکر میں ہیں اور نہ ہی غاصب حملہ آوروں کے کوچ کر جانے کے بعد خانہ جنگی کا کوئی تصور رکھتے ہیں۔ بلکہ ہماری کوشش ہے کہ مستقبل کا سیاسی منظر نامہ بڑی عالمی طاقتوں اور پڑوسی ممالک کی مداخلت سے پاک اور افغانوں کے ہاتھ میں ہو جبکہ ہماری یہ کوششیں خالص اسلامی اور افغانی روایات کی حامل ہیں ۔ آزادی کے بعد اللہ رب العزت کی مددسے ہم ایک ایسے شرعی اور قومی نظام حکومت میں ہوں گے جو ہر قسم کے نسلی امتیاز اورتعصبات سے بالاتر ہوگا، ہر کام اس کے اہل کے سپرد کیا جائے گا اور ملکی وحدت کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔ امن وامان کی صورت حال میں بہتری لائی جائے گی ، شریعت کا نفاذ ہوگا اورچاہے مرد ہو یا عورت! ہر ایک کے حقوق کی ضمانت دی جائے گی۔ملکی تعمیر نو اور معیشت کی بہتری کے لیے بھرپوراقدمات کئے جائیں گے اور اجتماعی اداروں کی مضبوطی ہمارے پیش نظر ہوگی۔ اسلامی اصولوں اور ملکی مصالح کی روشنی میں بلا تفریق تعلیمی سہولتیں عام کی جائیں گی، علمی و ثقافتی معاملات کو صحیح سمت میں چلایا جائے گااوراپنے غیور عوام کے تعاون سے خانہ جنگی اور افغانستان کی تقسیم چاہنے والوں کو ان کے مذموم مقاصد میں ہر گز کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ افغان عوام کو اتنااحمق نہ سمجھا جائے کہ وہ اپنے ہم قوموں سے عقیدے،تمدن ، اجتماعی اور تاریخی بنیادوں پر قائم رشتے توڑیں گے اور ملک کی تقسیم پر راضی ہوجائیں گے۔ تقسیم کایہ ناپاک نسخہ سوویت یونین نے بھی آزما کر دیکھ لیا تھا،مگر نتیجہ برعکس نکلا اور ان کی چال ان پر ہی الٹ دی گئی۔ہم ان تمام لوگوں سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں جوایک خود مختاراسلامی ملک کی حیثیت سے افغانستان کا احترام کریں اوران کا نوآبادیاتی، حاکمانہ اور استعماری لہجوں سے تعلق نہ ہو۔ میرے خیال میں یہی ہر آزاد اور مسلمان افغان کا مطالبہ اور خواہش ہے۔ بیرونی قوتوں سے مفاہمت سے متعلق میں یہ کہنا چاہوں گاکہ ہم اسلامی اور قومی مفادات کے حصول کے لئے عسکری جد وجہد کے ساتھ سیاسی کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور ان سیاسی کوششوں کو کامیابی سے جاری رکھنے کے لئے سیاسی دفتر کا قیام اور ایک خاص جماعت کا تعین بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ سیاسی دفتر ہمارے اسلامی اور جہادی مصالح کو مد نظررکھتے ہوئے خدمات انجام دیتا ہے اور میں واضح طور پر کہہ دوں کہ ہمارے مذکورہ سیاسی دفتر کے علاوہ دوسروں سے مفاہمت کے لئے کوئی اور چینل نہیں ہے، اس لئے کہ نہ توہم خفیہ سیاست کرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں سے چاہیں گے کہ وہ ہم سے خفیہ مذکرات کا ڈول ڈالیں ۔ ہماری دوسروں سے وضع کردہ سیاسی مفاہمتی پالیسی دینی اقدار، قومی اور وطنی مفادات کو مد نظر رکھ کر بنائی گئی ہے اور اس کا کھلے عام اعلان کیا جاتا ہے۔اگر جارحین کی خفیہ ایجنسیاں اورسفارتی حلقے اپنے لئے مذاکرات کے بناوٹی اور فرضی سلسلوں کو میڈیا میں شورشرابا کرتے ہیں تو یہ محض وقت کا ضیاع اور اپنے آپ کو اور اپنے عوام کودھوکا دینے مترادف ہے۔سچ تو یہ ہے کہ آزادی اور خود مختاری ہر کسی کا حق ہے۔ ہم پوری دنیا ، بین الاقوامی تنظیموں خاص طورپر اسلامی ممالک اور موتمر اسلامی سے امید رکھتے ہیں کہ ہماری اسلامی مملکت کی آزادی اور بیرونی جارحیت کے مکمل خاتمے کے لئے کردار اداکریں“۔
اس پیغام کے اس حصے سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملامحمد عمر نے کن کن حوالوں سے دنیا کے خدشات کو رفع کرنے اور حکمت عملی میں تبدیلی لانے کے اشارے دئے ہیں ۔ مثلا خدشہ ہے کہ غیرملکی افواج کے نکلنے کے بعد طالبان کسی سیاسی نظام کا حصہ بننے کی بجائے حسب سابق بندوق کے زور پر پورے افغانستان پر قبضے کی کوشش کریں گے۔ اب اس خدشے کے جواب میں ملامحمد عمر مجاہد نے یہاں واضح کیا ہے کہ ہم قبضہ گیری کا ارادہ رکھتے ہیں اور نہ خانہ جنگی کی فکر میں ہیں۔ اسی طرح مجوزہ نظام حکومت کے ضمن میں انہوں نے شرعی کے ساتھ ”قومی“ کا لفظ بھی لگادیا ہے ۔ علمی کے ساتھ ساتھ ثقافتی معاملات کا بھی ذکر ہے ۔ اسلامی اصولوں کے ساتھ ملکی مصالح کا اور عقیدے کے ساتھ ساتھ تمدنی اور تاریخی بنیادوں کابھی ذکر ہے۔ بیرونی قوتوں کے ساتھ مفاہمت کے ضمن میں کہا گیا ہے کہ جہادی کے ساتھ ساتھ ہماری سیاسی سرگرمیاں نہ صرف جاری ہیں بلکہ مذاکرات کے لئے باقاعدہ ایک سیاسی دفتر بھی قائم کردیا گیا ہے ۔ یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ بات چیت کے لئے مخصوص کمیٹی قائم کردی گئی ہے اور اس کے علاوہ باقی چینلزسے ہونے والے مذاکرات اور رابطوں کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اسی طرح اس پیغام میں دنیا ‘ بین الاقوامی تنظیموں ‘ اسلامی ممالک اور خاص طور پر موتمر اسلامی کے کردار پر بھی زور دیا گیا ہے ۔ افغان قضیے کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے والی میری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ اس طرح کے پیغامات طالبان کی سو چ میں واضح تبدیلی کا پتہ دیتے ہیں اور شاید پہلی مرتبہ یہ موقع ہاتھ آیا ہے کہ اگر امریکہ‘ پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں مل کر سنجیدہ کوشش کریں تو افغان قضیے کا سیاسی حل نکالا جاسکتا ہے ۔یہ امر خوش آئند ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات بڑی حد تک دوبارہ پرانی ڈگر پر آگئے ہیں اور سابقہ تنخواہوں پر دوبارہ کام کا آغاز ہوگیا ہے ۔ پاکستان ‘ افغانستان اور امریکہ کے مشترکہ کنٹیکٹ گروپ کے کام کا آغاز بھی ازسرنوہم آہنگی کا اشارہ ہے ۔ اگرچہ افغان صدر حامد کرزئی کے روزبروز بدلتے موقفوں کی وجہ سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ان کی پوزیشن نہایت خراب ہوگئی ہے اور وہ مختلف عناصر کے درمیان پل بننے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہیں لیکن خوش آئند امر یہ ہے کہ افغانستان کے شمال کی غیرپختون قیادت کے ساتھ پہلی مرتبہ پاکستان نے اچھے تعلقات استوار کرلئے ہیں اور اب وہ مفاہمتی کوششوں کے ضمن میں کردار کے حوالے سے نسبتاً بہتر پوزیشن میں آگیا ہے ۔ یوں اگر امریکہ‘ افغانستان اور پاکستان کی حکومتیں حقیقی معنوں میں یکسوئی کے ساتھ سیاسی حل کے لئے کوشش کریں تو راستہ نکل سکتا ہے لیکن اگر یہ موقع بھی ضائع ہوا تو ایسا منظر نامہ سامنے آئے گا جس کے نتیجے میں امریکہ کو رسوائیوں‘ پاکستان اور افغانستان کو تباہیوں اور خود طالبان کو بھی نئی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
تازہ ترین