• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچشم بددورپاکستان بہت تیزی سے اس منزل کی طرف رواں دواں ہے جہاں کوئی "Above the law"نہیں ہوگا، میزان عدل میں اعلیٰ و ادنیٰ یکساں تلیں گے، ’’رول آف دی رولر‘‘ نہیں ’’رول آف لاء‘‘ کا بول بالا ہوگا اور اس منزل تک پہنچنے کا مطلب یہ کہ پاکستان نے پونی بازی جیت لی۔ یوں تو اس موضوع سے متعلق خبروں کی برسات ہے لیکن میں ایک قومی اخبار کی صرف چند خبروں، سرخیوں پر اکتفا کروں گا جن کا چند ماہ پہلے تک تصور بھی محال بلکہ ناممکن تھا۔’’میاں نواز، ان کی صاحبزادی اور داماد کی تصویروں کے آگے لکھا ہے.....’’اڈیالہ جیل‘‘’’پھر حسن نواز، حسین نواز اور اسحٰق ڈار کی تصویروں کے ساتھ لکھا ہے.....انٹرپول کے ذریعہ واپسی‘‘’’25بیوروکریٹس اور 2سابق وفاقی وزراء کی چند روز میں گرفتاری متوقع۔ سابق ارکان میں سے نصف نااہل ہو جائیں گے‘‘۔’’نواز، مریم، صفدر، حسن، حسین اور ڈار کے خلاف مقدمات کی رفتار بتا رہی ہے کہ وہ ایک ہفتہ میں مکمل ہو جائیں گے۔ شہادتیں وغیرہ جس سمت میں جارہی ہیں ان کی وجہ سے انہیں سزا ملنے کے امکانات واضح ہیں‘‘۔’’سزا ملی تو باپ، بیٹی اور داماد کو کسی ریسٹ ہائوس میں نہیں اڈیالہ جیل میں رکھا جائے گا۔ حسن، حسین اور ڈار کو انٹرپول کے ذریعہ واپس لا کر جیل میں ڈالا جائے گا۔ متعدد سابق ارکان اسمبلی کی بھی گرفتاری کا فیصلہ‘‘۔’’ایسے ارکان اسمبلی پر سنگین الزامات ہیں اور مقدمات کی تیاری جاری ہے‘‘۔’’انتخاب لڑنے والوں کیلئے نیب، FIA، اسٹیٹ بینک اور SECPوغیرہ سے کلیرنس لازمی قرار دی جارہی ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت چالیس سے پچاس فیصد تک امیدوار نااہل قرار پائیں گے‘‘۔’’قارئین! یقین مانیں اسی خبر کا 75,70فیصد بھی صحیح ثابت ہوگیا تو ملک کی سمت بھی بدل جائے گی، چہرہ بھی اور مقدر بھی بدل جائے گا۔ اوپر کا گند تیزاب سے دھو دیا گیا تو نیچے ریڑھی، چھابڑی، کھوکھے تک بھی یہ پیغام پوری قوت سے پہنچ جائے گا کہ اب بے ایمانی کی گنجائش نہیں۔ کرپشن کلچر کی یہ مکروہ بدبودار کینچلی اتر جائے گی۔ ٹارگٹ، کرپشن فری معاشرہ ہرگز نہیں کیونکہ جہاں انسان ہوگا وہاں گناہ اور جرم سو فیصد ختم نہیں ہوسکتا۔ اصل ٹارگٹ ہے اسے کم سے کم سطح پر لانا۔ آج کے پاکستان میں تو کرپشن ’’وے آف لائف‘‘ بن چکی ہے۔ جس کے جبڑے ہیںوہ جبڑوں سے اور جس کی چونچ ہے جو چونچ سےملک کو نوچ رہا ہے۔ ڈھکی چھپی رشوت، کھانچے پہلے بھی تھے لیکن اقتدارمیں ’’شریف فیکٹر‘‘ کے داخلہ کے بعد تو ’’کھلا کھائو تے ننگے نہائو‘‘ کو وہ عروج ملا کہ خدا کی پناہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے وفاداریاں خریدنے کیلئے بکائو ’’معززین‘‘ کو تین تین پلاٹ یہ کہہ کر دیئے کہ ایک پلاٹ بیچ کر دوسرے پر گھر بنائو اور تیسرا بیچ کر اسے ’’فرنش‘‘ کرو۔ جرائم پیشہ لوگوں کو پولیس میں بھرتی کرنے سے لیکر 63,64سالہ بوڑھوں کو پٹواری بھرتی کرنے تک انہوں نے کیا کیا کچھ نہیں کیا؟ حلفاً عرض کرتا ہوں کہ 70 کی دہائی کے آخر تک یہ ملک معاشرہ ہرگز ایسا نہیں تھا۔ کرپشن کے کینسر کو ایسی ہی کیموتھراپی کی ضرورت ہے۔ ملک کی معاشی فصیلوں کے نقب زن میر جعفروں میر صادقوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ انہیں نکیلیں ڈالو اور اس ملک کو قلیلیں بھرتے آگے بڑھتے دیکھو جس کے بچے بھی گروی رکھ دیئے گئے ہیں۔اقتصادیات ہی نہیں اخلاقیات کی بربادی بھی انہی کا کارنامہ ہے۔ محترمہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو مرحومہ کی کردارکشی کے بعد ان کا تازہ ترین کارنامہ اور معرکہ ہے ریحام خان کی کتاب جس کی’’ٹائمنگ‘‘ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ اس کے پیچھے بھی وہی لوگ ہیں جنہوں نے جمائما خان کو ٹائیلز کی ’’اسمگلنگ‘‘ کے حوالہ سے اسکینڈلائیز کرنے کی قابل نفرت کوشش کی تھی۔رہ گئی ریحام خان تو میں نہیں ضیاء شاہد جیسا سینئر صحافی، جید دانش ور اور کئی کتابوں کا مصنف اپنی کتاب ’’باتیں سیاستدانوں کی‘‘ کے صفحات 365,364میں لکھتا ہے۔’’جنرل (ر) حمید گل کافی پریشان تھے۔ دو بار انہوں نے مجھے فون کیا اور کہا کہ آپ اسلام آباد آئو۔ عمران روزانہ ایک بار کنٹینر سے اتر کر بنی گالہ اپنے گھر جاتا ہے۔ آپ ان سے ملو اور سمجھائو کہ ہرگزہرگز اس عورت (ریحام خان) کے چکر میں نہ پڑے۔ مجھے نہیں معلوم حمید گل کی معلومات کا ذریعہ کیا تھا کیونکہ فون پر انہوں نے مجھے نہیں بتایا لیکن ان کے بیٹے عبداللہ گل نے باپ کی وفات کے بعد لاہور آکر میرے دفتر میں مجھے تفصیل بیان کی کہ ریحام خان شادی سے پہلے میرے والد حمید گل سے ملنے ہمارے گھر آئی تھیں۔ میرے والد نے مجھ سمیت تمام لوگوں کوکمرے سے نکال کر علیحدگی میں ریحام سے بات کی۔ ملاقات ختم ہوئی اور ریحام جانے لگیں تو وہ بہت پریشان تھیں اور میرے پوچھنے پر میرے والد نے بتایا تھا کہ میں نے ریحام سے کہا ’’میں آپ کو نہیں جانتا لیکن کیا آپ فلاں فلاں شخص کو جانتی ہو اور کیا فلاں ادارے سے آپ کا تعلق نہیں رہا اور کیا آپ کو پاکستان بھجوانے اور عمران سے ملانے میں فلاں فلاں اشخاص سرگرم نہیں رہے؟ عزیزم عبداللہ گل کے بقول ریحام خان اس پر اپ سیٹ ہوگئیں۔ عبداللہ گل کو یقین تھا کہ ریحام خان کو پتہ چل گیا تھا کہ میرے والد ان کی حقیقت کو پہچان گئے ہیں۔ عبداللہ گل اسلام آباد میں موجود ہیں اور اپنے گھر میں مل سکتے ہیں۔ میں نے جو کچھ لکھا، اس سے زیادہ تفصیل وہ آپ کو بتا سکتے ہیں‘‘۔صفحہ 365 پر ضیا شاہد لکھتے ہیں۔’’ریحام خان کے حوالہ سے میری معلومات کا بہت بڑا ذریعہ ہماری اسپیشل کارسپانڈنٹ شمع جونیجو ہیں جو انٹرنیشنل لا کی اعلیٰ ڈگری کیلئے مقالہ لکھ رہی ہیں۔ پاکستان ٹی وی کراچی کی سابقہ اداکارہ، دوبچوں کی ماں اور ایک اعلیٰ پولیس افسر کی بیوی ہیں جو ڈیپوٹیشن پر UNOکے مختلف ممالک میں خصوصی اسائنمنٹ پر کام کرتے ہیں۔ شمع جونیجو نے اس شادی سے پہلے ہی جو کچھ مجھے بتایا اس کی تفصیل یوں ہے‘‘۔قارئین!تفصیل میں کیا جانا کہ میرے نزدیک تو جنرل (ر) حمید گل مرحوم و مغفور جیسی معتبر مثالی شخصیت کا حوالہ ہی بہت کافی ہے۔ صرف اتنا عرض کرتا چلوں کہ مجھے جنرل صاحب کے بیشتر خیالات سے شدید اختلاف تھا جن کا میں حسب عادت کھل کر اظہار کرتا لیکن خدا گواہ وہ بہت بڑے محب وطن، بہترین مسلمان اور بیحد پیارے انسان تھے..... آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے اور ہمارے وطن کو ہر قسم کی بلائوں سے محفوظ رکھے۔

تازہ ترین