• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عبوری وزیر اعظم پاکستان جناب جسٹس (ر) ناصر الملک نے حلف اٹھا لیا، ملکی سیاست اب عبوری دور میں داخل ہوچکی ہے۔ جسٹس ناصر الملک ایک جہاں دیدہ اور جری ذمہ دار شخصیت کے مالک ہیں، ان کا پیدائشی تعلق سوات سے ہے۔ انہوں نے1972ء میں پشاور یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور پھر لندن سے1976ء میں ایل ایل ایم کیا۔ 17برس تک پشاور ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے رہے اور 6جون1994ء کو انہیں پشاور ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔ پھر31جولائی2004ء کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔ کچھ عرصے بعد2005ء کو انہیں سپریم کورٹ آف پاکستان بھیج دیا گیا۔30نومبر2013ء سے 6جولائی 2014ء تک انہوں نے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ داری بھی سر انجام دی۔ اس کے بعد 6 جولائی2014 کو انہوں نے پاکستان کے بائیسویں چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے حلف لیا، وہ اس منصب جلیلہ پر 16اگست2015ء تک فائز رہے۔ اب وہ نئے عہدے عبوری وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھا کر ساتویں عبوری وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائزہ ہوچکے ہیں۔ جسٹس ناصر الملک سپریم کورٹ کے اس بنچ کے سربراہ تھے جس نے ملک میں پہلی بار مقتدرہ وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں تا برخواست عدالت سزا سنائی تھی، جس کے باعث وہ وزارت عظمیٰ کے لئے نااہل ہوگئے تھے۔ گیلانی صاحب کی نا اہلی کی مدت پانچ سال تھی۔
ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال میں مسلم لیگ نون جو اب تک حکمرانی کرتی رہی ہے وہ مختلف اداروں پرکڑی تنقید کر رہی ہے۔ اس طرح تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر نہ صرف کڑی تنقید کر رہی ہیں بلکہ کیچڑ اچھالنے سے بھی گریز نہیں کر رہیں۔ اس لحاظ سے عبوری وزیراعظم کو شفاف اور غیر متنازع انتخابات کرنے کی بڑی مشکل اور اہم ذمہ داری ادا کرنا ہے۔ اب جب کہ الیکشن سسٹم میں حکمران جماعت نے بہت سی اصلاحات کر دی ہیں تو اس کا کردار محدود ہوکر رہ گیا۔ بقول صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن جناب منیر اے ملک عبوری وزیراعظم کا مینڈیٹ صرف اتنا ہے کہ وہ صاف شفاف اور منصفانہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کی مدد کریں اور حکومت کا روزمرہ کا انتظام چلائیں۔ جناب احمد بلال محبوب جو ٹرانسپیرنسی کے سربراہ ہیں کے مطابق نگراں حکومت کے اختیارات پہلے سے بہت کم ہوگئے ہیں۔ ایکٹ2017ء کے تحت نگران حکومت کا کام انتخابات کرانے میں الیکشن کمیشن کی مدد کرے اور روزمرہ کے انتہائی اہم کام نمٹائے، اب تو یہ ہوگیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی اجازت کے بغیر کسی سرکاری ملازم کا تبادلہ نہیں کیا جاسکتا۔ عبوری حکومت کا کردار رسمی حد تک رہ گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جناب جسٹس ناصر الملک ایک دیانت دار اور غیر جانبدار قابل شخصیت کے حامل تمام سیاسی جماعتوں میں معتبر مانے جاتے ہیں۔ ان کی ساکھ بہت اچھی ہے اسی لئے تمام سیاسی جماعتوں نے ان پر اعتماد و اتفاق کیا ہے۔ کیونکہ سب یہ سمجھتے ہیں کہ اب جسٹس ناصر الملک جو بھی رائے دیں گے وہ قانون و انصاف کے مطابق ہوگی۔ وہ قانون کے دائرہ کو نہیں توڑیں گے وہ کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹنے کی اہلیت رکھنے والی شخصیت ہیں۔
عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’میرے الفاظ یاد رکھیں کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کی مدد کی جائے گی تاکہ بروقت شفاف انتخابات کرائے جاسکیں۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کابینہ مختصر ہوگی جس کا اعلان مشورے کے بعد کیا جائے گا۔ جسٹس ناصر الملک سپریم کورٹ کے ان ججوں میں شامل ہیں، جنہیں سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے 3نومبر2007ء کو ایمرجنسی نافذ کرتے ہی گھروں میں نظر بند کردیا تھا، اس کڑے وقت میں بھی انہوں نے آمر کے سامنے جھکنے اس کی تابعداری کرنے سے انکار کیا تھا۔ تاہم انہوں نے 2008ء میں انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت میں اس وقت کے چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر سے دوبارہ اپنے عہدے کا حلف لیا تھا۔ عبوری وزیراعظم مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ وہ قائم مقام الیکشن کمشنر رہ چکے ہیں اس لئے وہ بخوبی سمجھتے اور جانتے ہیں کہ انتخابات میں کس طرح دھاندلی کو روکا جاسکتا ہے۔ وہ ہر طرح ہر شعبے کے متعلق خوب آگاہی رکھتے ہیں۔ اس لئے امید کی جا رہی ہے کہ اس بار یقیناً تمام تر خدشات کے باوجود صاف شفاف اور بروقت انتخابات منعقد ہوسکیں گے۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف تا حیات عدالت عظمیٰ سے نا اہل قرار دئیے جا چکے ہیں انہیں خدشہ ہے کہ انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں جبکہ عبوری وزیراعظم نے دو ٹوک انداز میں اپنے پہلے ہی بیان میں واضح کردیا ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے جلد ہی الیکشن کمیشن شیڈول جاری کردے گا تو اس سے یہ بے یقینی کی فضا ختم ہوجائے گی یوں تو خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ نے الیکشن کمیشن کو التوا کے لئے خط لکھ دیا ہے مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ رہی بات ہارنے والوں کے اعتراضات کی تو اس کا کوئی علاج کسی کے پاس نہیں۔ ہمارے ملک میں زبانی الزامات لگانے پر کوئی پابندی نہیں، جس کا جودل چاہتا ہے وہ بولتا چلا جاتا ہے۔ کسی کو خوف خدا نہیں، نہ اپنی عزت کا پاس کرتے ہیں، اور نہ دوسرے کی عزت کا لحاظ کرتے ہیں۔ کیونکہ الزام لگانے میں کوئی لاگت تو لگتی نہیں ہارنے والا اس طرح اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتا ہے، جب کہ اس طرح سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حفظ و امان میں اس انتخابی معرکہ کو سرکرائے۔ آمین۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین