• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں میں نے اس حوالے سے تحریر کیا تھا کہ پاکستان نہایت تیزی سے ادائیگیوں کے توازن کے بحران کی جانب بڑھ رہا ہے اور یہ کہ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) وطن عزیز کو اس بحران سے نکالنے میں کوئی دلچسپی لیتا نظر نہیں آتا۔ میں نے اپنی تحریر میں خاص طور پر ادائیگیوں کے توازن کے ابھرتے ہوئے بحران اور اس سے بچنے کے لئے آئی ایم ایف کے ایک نئے پروگرام کی ضرورت کے تناظر میں پاکستان کی کمزور ترین معاشی کیفیت پر بھی روشنی ڈالی تھی۔ ادائیگیوں کے توازن کا ابھرتا ہوا بحران ان معاشی عوارض میں سے ایک ہے جن کا فی الوقت پاکستان کو سامنا ہے جب کہ دیگر عوارض میں سرمایہ کاری میں بد ترین کمی، سست پڑتی معاشی نمو، روزگار کے مواقع کی پیداوار کے لئے درکار معاشی گنجائش میں زوال، بڑھتی ہوئی غربت، لگاتار موجود دو ہندسی افراط زر، قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ، روپے کی زوال پذیر قیمت، توانائی کے شعبے کو ناقص انداز سے چلانے کے تباہ کن اثرات، ملک کے معاشی نظم و نسق پر نجی شعبے کا کم ہوتا اعتماد اور ریاستی اختیار میں کمی شامل ہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے کے خطرات درپیش ہیں۔ مرکزی بنک کے زرمبادلہ کے9.9/ارب روپے کے ذخائر کو مد نظر رکھتے ہوئے قرضوں کی ادائیگی کا بحران سر پر کھڑا ہے۔ قرضہ جاتی و غیر قرضہ جاتی آمد زر کے ذرائع کے زوال،5.0-5.5/ارب روپے کے قرضوں کی ادائیگی اور جاری کھاتے میں4.0-4.5/ارب روپے کے خسارے کے بعد پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر رواں مالی سال کے اختتام تک خطرناک سطح تک کم ہوتے نظر آتے ہیں جس کے نتیجے میں روپے کی قدر تیزی سے کم ہونے کے باعث معیشت پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جب کبھی بھی کسی ملک کو اس نوعیت کے ادائیگیوں کے بحران اور زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر کا سامنا ہوتا ہے تو وہ خود کو اس بحران سے باہر نکالنے کے لئے آخری تدبیر کے طور پر عالمی مالیاتی فنڈ سے رجوع کرتا ہے۔ پاکستان کے فوری اور ابھرتے ہوئے قرضوں کی ادائیگیوں کے بحران کو دیکھتے ہوئے ہمارے پاس ایک بیل آؤٹ پروگرام کے لئے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے تاہم سوال یہ ہے کہ آیا پاکستان کو اس بحران کے درمیان آئی ایم ایف سے رجوع کرنا چاہئے یا اس بحران سے بچنے کے لئے فنڈ کی مدد لینی چاہئے، اس بات کا فیصلہ حکومت کو کرنا ہے۔ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ پاکستان جلد ازجلد آئی ایم ایف سے مدد حاصل کرے مگر دہری مصیبت یہ ہے کہ ایک طرف تو پاکستان کو جلد از جلد آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہے مگر ’کریڈیبلیٹی گیپ‘ کے باعث آئی ایم ایف ایسا پروگرام فراہم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا اور دوسری طرف جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو وہ (بھی) آئی ایم ایف پروگرام سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے کیوں کہ وہ انتخابات کے نزدیک سخت فیصلے نہیں کرنا چاہتی۔ آج قوم ایک مشکل ترین دوراہے پر کھڑی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ہم بحیثیت قوم اپنی سمت کھو چکے ہیں۔ معاشی تباہی اب صرف حکومت کا درد سر نہیں رہی ہے یہ اب ریاست کا مسئلہ ہے، قومی سلامتی کا مسئلہ ہے اور مملکت پاکستان کے18کروڑ عوام کا مسئلہ ہے۔ وطن عزیز کی معیشت اس دگرگوں حال کو راتوں رات نہیں پہنچی ہے بلکہ پانچ سالوں کے دوران خراب معاشی نظم و نسق نے معیشت کو تباہ کرنے اور ملک کو ہر نوعیت کے خارجی دباؤ کے سامنے لا ڈالنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ چونکہ معیشت کبھی بھی حکومتی پالیسی کی اولین ترجیحات میں نہیں رہی ہے اس لئے لگا تار اقتصادی اور سیاسی غیر یقینی نے اسے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اکنامک منسٹرز کے مسلسل تبادلوں سمیت ایک ایک ہفتے کی تعیناتی اور غیر سنجیدہ و منتشر معاشی ٹیم محض اس بات کی عکاس ہے کہ حکومت معیشت کو مضبوط کرنے میں کتنی کم دلچسپی رکھتی ہے۔ گزشتہ تین سالوں سے این آر او پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عدم عمل درآمد نے معاشی ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے جیسا کہ اس دوران ملک ایک ڈیڈ لائن سے دوسری ڈیڈ لائن کے درمیان ڈولتا رہا ہے۔ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ اقتصادی و سیاسی غیر یقینی معیشت کے لئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ معاملات کو اس طرح چلائے جانے سے گورننس کمزور ہو چکی ہے کیوں کہ صرف اپنی سیاسی بقا کی جدوجہد میں منہمک حکومت نے کبھی بھی اپنے ایجنڈے پر معیشت کو اہمیت نہیں دی۔ خراب گورننس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد ختم ہو گیا جس کا نتیجہ سرمایہ کاری میں زوال، سست پڑتی معاشی نمو، بڑھتی ہوئی غربت و بے روزگاری اور توانائی کے شعبے کو غلط انداز سے چلانے کی صورت میں ظاہر ہوا اور جواباً سیاسی عدم استحکام میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اس حقیقت کو ہر گز فراموش نہیں کیا جانا چاہئے کہ معاشی و سیاسی استحکام ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ ایک مستحکم و دیانتدار حکومت، مارکیٹ سے ہم آہنگ پیشرفت کی حامل پالیسوں اور اصلاحات کی ذیل میں حکومتی آمادگی کے بغیر معاشی نمو کو پھلنے پھولنے کے لئے کبھی بھی غیر ملکی سرمایہ میسر نہیں آتا۔ کمزور پالیسیوں کے ماحول میں ملنے والی امداد کارگر نہیں ہوتی اور موثر ثابت ہونے کے بجائے اس سے قرضے میں اضافہ ہوتا ہے اور مستقبل کی نمو میں رکاوٹ آتی ہے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی حالت درج بالا الفاظ کا ایک جیتا جاگتا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ اب کیا کرنا چاہئے؟ سب سے پہلے حکومت کو اپنے اقتدار کے باقی ماندہ دنوں میں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ معیشت کسی مخصوص حکومت تک محدود نہیں ہوتی بلکہ یہ ملک اور اس کے عوام کی چیز ہے۔
دوم پاکستان کو فوری طور پر ایک راہ عمل تیار کرنا اور ایک حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی تاکہ نہ صرف قرضوں کی ادائیگیوں بلکہ گورننس، نمو اور اصلاحات کے بحران سے بھی بچا جا سکے جس کے لئے ایک قابل بھروسہ، سنجیدہ، تیکنیکی طور پر ماہر اور نجی شعبے کے ساتھ ہم آہنگ ٹیم چاہئے ہو گی۔ سوم حکومت کو پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے خارجی اور بیرونی طور پر اس روڈ میپ کی تشہیر کرنا ہو گی۔ چہارم عالمی مالیاتی فنڈ سمیت دیگر عالمی فنانشل انسٹی ٹیوشنز کو تیار روڈ میپ دینے کے لئے ان سے وزیر اعظم یا صدر کی سطح پر رابطہ کرنا ہو گا۔ پنجم پاکستان کے صدر یا وزیر اعظم کو آئی ایم ایف سے اعانت کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے درکار تعاون کی خاطر اہم دوست ممالک سے اونچی ترین سطح پر رابطہ کرنا ہو گا۔ دنیا کی معیشت اور آئی ایم ایف میں تبدیلی آ چکی ہے۔ اب آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ مالیاتی پالیسی کی درست ترین طریقے سے پیمائش کرنی چاہئے تاکہ یہ ہر ممکن حد تک نمو آور ہو سکے۔ کفایت اور نمو کے درمیان ایک توازن درکار ہوتا ہے۔ مالیاتی پالیسی امکانی طور پر صرف استحکام دینے کی خاطر ہی نہیں بلکہ نمو کو بڑھانے کے لئے بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کی نئی فکر کے تناظر میں ایک نئے پروگرام کے لئے بات چیت کرنا ہو گی۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ملک اپنی سمت کھو چکا ہے وقت آ گیا ہے کہ حکومت پاکستان کے قومی مفاد کے تحفظ کی خاطر اپنا ایجنڈا وقتی طور پر ایک طرف رکھ کر ملکی معیشت کو بچانے کے لئے لازمی اقدامات کرے قبل اس کے کہ مریض دوا کی حاجت ہی سے بے نیاز ہو جائے۔
تازہ ترین