• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برپٹ بیابانی کے پچاس برس بعد ہوش میں آنے کی خبر نے مجھے چونکا دیا۔ نہ جانے کیوں مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ پچاس پچپن برس پہلے پاکستان چوک پر پولیس کیا لاٹھی چارج کے دوران میں نے برپٹ بیابانی کے سر پر سیسہ پلائی لٹھ پڑتے دیکھی تھی۔ میں نے اسے چکرا کر گرتے ہوئے دیکھا تھا۔ میں نے اس کی پھٹی پھٹی آنکھوں کو بجھتے ہوئے دیکھا تھا۔ ہم اسے اٹھا کر قریب ہی واقع میٹھا رام ہوسٹل لے آئے تھے۔ برپٹ کی حالت غیر دیکھ کر ہم دوستوں نے محسوس کیا تھا کہ برپٹ بیابانی اپنی نظم ”جمہوریت اور خوشحالی“ مکمل کرنے کے لئے پھر کبھی ہوش میں نہیں آئے گا اور مر جائیگا۔ اکھڑی اکھڑی سانسوں میں وہ اپنی نظم کے بول دہرا رہا تھا۔
میری محبوبہ جمہوریت

چھم چھم کرتی آئے گی
خوشحالی لے کر آئے گی

آمر کی لنکا ڈھائے گی
ہم دوست اضطراب کی کیفیت میں کبھی برپٹ بیابانی کے مرنے اور کبھی اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کرتے رہے۔ پانچ برس گزر گئے۔ دس برس گزر گئے۔ بیس، تیس، چالیس، حتیٰ کہ پچاس برس گزر گئے۔ ہم دوست بوڑھے ہوتے گئے۔ خزاں کے ذرد پتوں کی طرح زندگی کی شاخ سے گر کر بکھرتے رہے۔ انصاف، آدمیت اور انقلاب کا خواب دیکھنے والوں کو تعبیروں میں آمریت کے اندھیرے نگل گئے۔ یہ میری خوش نصیبی تھی بلکہ ہے کہ عمر کے پچھلے پہر میں برپٹ بیابانی اور میں ایک ہی بستی میں رہتے ہیں۔ برپٹ راجکوٹ میں ہی تھا جب اس کے والدین نے بچپن میں اس کی شادی چچا کی بیٹی سے کرا دی تھی بال وواہ راجستھان کا پرانا رواج ہے اور ہندو اور مسلمانوں میں مروج ہے۔ بال وواہ سے مراد ہے بچپن کی شادی۔ طالب علمی کے دور میں یہ سن کر ہم دوست حیران ہوتے تھے کہ برپٹ کے دو بیٹے ہیں۔ ایک چار برس کا اور دوسرا چھ برس کا۔ برپٹ کے دونوں بیٹے اب خیر سے پچپن ساٹھ برس کے ہونے کو ہیں۔ ماشاء اللہ ان کے اپنے بچے بھی عالم وجود میں آ چکے ہیں۔ اس لحاظ سے برپٹ بیابانی دادا اور پردادا ہو چکا ہے۔ مگروہ بے خبر ہے۔ گم سم پڑا رہتا ہے میں اکثر اسے دیکھنے جاتا ہوں نوجوانی میں اسے سر پر آمریت کا ڈنڈا پڑا تھا۔ بیہوشی کے عالم میں وہ نوجوانی سے جوانی، جوانی سے ادھیڑ عمر اور بڑھاپے کی سرحدیں پار کرتے ہوئے ضعیف العمری میں داخل ہو چکا تھا۔ اس کی بند آنکھوں کے پیچھے کبھی کبھی اس کی پتلیاں دائیں بائیں ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ کبھی اس کے ہونٹ تھرتھرانے لگتے ہیں۔ لگتا ہے جیسے وہ کچھ بولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک روز برپٹ کی بیوی نے مجھ سے پوچھا تھا۔ ”بھائی صاحب آپ تو ان کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے کیا کوئی چکر چلا تھا ان کا؟“
میں نے تعجب سے پوچھا تھا ”کیسا چکر بھابھی؟“
بھابھی نے کہا تھا۔ ”ایک دو لڑکیوں سے؟“
”برپٹ کو ان باتوں کے لئے فرصت کہاں تھی بھابھی۔“ میں نے کہا تھا۔ ”وہ تو ایوب آمر کے خلاف جلسوں جلوسوں میں اپنی نامکمل نظم کا مکھڑا گاتا پھرتا تھا۔
بھابھی نے کہا تھا۔ ”وہ بیہوشی میں کبھی کبھار دو نام لیتے رہتے ہیں۔ دونوں لڑکیوں کے نام ہیں۔“
تب میں نے بہت سوچا تھا یونیورسٹی میں اس کا سب سے قریبی دوست میں تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ برپٹ بیابانی کا کسی لڑکی سے کوئی چکر نہیں چلا تھا وہ طالب علم لیڈروں کی تقریریں اور ان کی گفتگو غور سے سنتا تھا۔ بھیرویں کے سروں کی طرح مدھم لہجے میں بحث مباحثے کرنے والے صفوان اللہ اور شیر کی طرح گرجتے ہوئے ڈبیٹ کرنے والے معراج محمد خان اسے بہت اچھے لگتے تھے کراچی یونیورسٹی کے ہوسٹل میں وہ خود بھی ان کی طرح کبھی دھیمے لہجے میں اور کبھی گرجتے ہوئے کہتا رہتا تھا۔
میری محبوبہ جمہوریت

چھم چھم کرتی آئے گی
خوشحالی لے کر آئے گی

آمر کی لنکا ڈھائے گی
میں نے کبھی بھی برپٹ بیابانی کو یونیورسٹی میں کسی لڑکی سے اکیلے میں ملتے جلتے یا کیفیٹیریا میں چائے پیتے نہیں دیکھا تھا وہ سراپا رومانٹک تھا۔ لیکن اس کا رومنس جمہوریت سے تھا خوشحالی سے تھا آمریت سے مکمل نجات سے تھا۔ یقین دلوانے کے بعد میں نے بھابھی کے وسوسے دور کر دیئے تھے پھر بھی شک کی پھانس اس کے اعتبار میں چبھتی رہتی تھی۔ ایک روز بھابھی نے کہا تھا۔ ”بھائی صاحب، مجھے صاف سمجھ میں تو نہیں آتا۔ لیکن وہ دو لڑکیوں کے نام بڑبڑاتے رہتے ہیں۔ ایک زینت اور دوسرے گیتا بالی۔“ بھابھی جمہوریت کو زینت اور خوشحالی کو گیتابالی سمجھتی تھی۔
میں نے دوبارہ بھابھی کو یقین دلا یا کہ گیتا بالی نام کی کوئی لڑکی کراچی یونیورسٹی میں نہیں پڑھتی تھی یہاں دو تین لڑکیوں کے نام زینت حسین، زینت چھابڑیا اور زینت قاضی تھے لیکن میں نے کبھی برپٹ بیابانی کو ان سے بات چیت کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔برپٹ بیابانی کے ہوش میں آنے کی خبر سن کر میں فوراً ان کے ہاں پہنچا۔ برپٹ پلنگ پر دراز تھا اور پھٹی آنکھوں سے اپنے اہل خانہ کو دیکھ رہا تھا لیکن کسی کو پہچاننے سے معذور تھا۔ اس نے مجھے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ میں نے جھک کر اسے گلے سے لگایا اور کہا۔ ”مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم ہوش میں آ گئے ہو۔“
”میں بیہوش کب تھا؟“ مجھے اپنے سے دور کرتے ہوئے برپٹ نے پوچھا۔ ”اور تم بڈھے کھوسٹ کون ہو؟“
میں نے اسے شانوں سے تھامتے ہوئے کہا۔ ”میں تیرا جگری دوست بالم بدایونی ہوں۔“
”ابے ہٹ۔“ مجھے اپنے سے دور کرتے ہوئے برپٹ نے کہا۔ ”میرا دوست بالم بدایونی کڑیل جوان تھا۔ دس دس سپاہیوں سے گتھم گتھا ہو سکتا تھا تو تو اجڑا ہوا دیار ہے جس میں بھٹکتی ہوئی آتمائیں رہتی ہیں۔“ میں حیرت سے دو قدم پیچھے ہٹ گیا برپٹ نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ”وہ جھریوں والی کبڑی عورت کہتی ہے کہ وہ میری بیوی ہے اور وہ دو ادھیڑ عمر کے آدمی کہتے ہیں کہ وہ میرے بیٹے ہیں اور یہ جو چار پانچ چھوٹے چھوٹے لڑکے لڑکیاں کھڑی ہیں مجھے دادا کہتے ہیں اور اب تو آ گیا ہے میرا جگری دوست بالم بدایونی بن کر۔ کون ہو تم سب لوگ؟ میں کہاں ہوں؟ کون مجھے یہاں لے آیا ہے؟ تم سب سی آئی ڈی والے ہو اور مجھ سے گھناؤنا ڈرامہ کرنے آئے ہو۔“ تب میں نے محسوس کیا کہ سر پر لاٹھی لگنے اور بیہوش ہونے سے پچپن برس بعد ہوش میں آنے تک وہ ہماری دنیا سے الگ ہو گیا تھا وہ کسی اور دنیا میں تھا اور اپنی زندگی کے پچاس پچپن برسوں سے بے خبر تھا۔میں دیوار سے آئینہ اتارکر لے آیا۔ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے میں نے کہا۔ ”اس آئینے میں اپنی شکل دیکھو۔“ آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر وہ حواس باختہ ہوگیا۔ احتجاج کرتے ہوئے اس نے کہا۔ ”کون ہے یہ مریل بوڑھا؟“
”یہ تم ہو برپٹ۔ ہم سب بوڑھے ہوگئے ہیں۔“میں نے کہا ”یاد کرو، آج سے پچاس برس پہلے پاکستان چوک کے قریب آمریت کے خلاف جلسے میں تمہارے سر پر لاٹھی پڑی تھی اور تم بیہوش ہو کر گر پڑے تھے؟ پچاس برس بعد تم آج ہوش میں آئے ہو۔“ اسے جیسے دھچکا لگا اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں۔ سب ڈر کر اس کے قریب آ گئے۔ برپٹ نے بڑبڑاتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔ ”وہ آئی بالم؟ اپنے ساتھ اس کو بھی لے آئی؟“
پیار سے اس کا ماتھا سہلاتے ہوئے میں نے پوچھا۔ ”کس کے آنے کی بات کر رہے ہو برپٹ؟
”جمہوریت کی بات کر رہا ہوں۔“ برپٹ نے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا۔ ”جمہوریت آئی؟ اپنے ساتھ خوش حالی لائی؟ نفی میں سر کو جنبش دیتے ہوئے میں نے کہا۔ ”نہیں برپٹ۔“ برپٹ کی آنکھیں بند ہوگئیں اور وہ پھر سے بیہوش ہوگیا۔
تازہ ترین