• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب گلاب کے پھول محبوب کی نظر کرنا بھی گناہ ٹھہرے تو دلِ زار کے ارمانوں کو کوئی کیسے بہلائے۔ زندگی فقط دین و دُنیا کے دو پاٹوں میں کیسے پسی رہ سکتی ہے۔ پھر یہ بہار اپنے تمام رنگ و بو لئے کیوں فضائوں کو معطر کئےجاتی ہے۔ بسنت کے کھٹے پھول کیوں آنکھوں کو بھاتے ہیں اور گلاب اور چنبیلی اور موتیوں کے پھولوں کی مہک قلب و نظر کو کیوں مدہوش کئےجاتی ہے۔ پرندوں کے نغمے دلوں کے تار کیوں چھیڑتے ہیں۔ نباتات و حیاتیات کے باہم اختلاط کا منظر نامہ کیوں ہر طرف دکھائی دیتا ہے۔ یہ تمام اُردو فارسی اور عربی فارسی، حسن و جمال، ہجر و وصال، عشق و محبت اور لطیف و جمالیاتی جذبوں سے کیوں موجزن ہے۔ ہمارے صوفی شعرا کی محبوبہ کیوں عاشق کی زبان بولتے بولتے خودعاشق ہو جاتی ہے۔ مصرع ہے: رانجھا رانجھا کردی، نی میں آپے رانجھا ہوئی۔ اور بلھے شاہ کا دل بسنت بہار کے دنوں میں کیوں محبوب کے لئے تڑپتا دکھائی دیتا ہے۔ شعر ہے: دل لوچے ماہی یار نوں۔ عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کی قلبی وارداتیں رومانی و روحانی کیف انگیزیوں میں ڈوبی چلی جاتی ہیں۔ ہیر رانجھا، سسی پنوں، شیریں فرہاد کی لاثانی محبتوں کی یادیں کیوں ہمیشہ کی طرح تازہ رہتی ہیں۔ زاہدانِ حیا سے اس کا جواب ملنا جوئے شیر لانا ہے۔
’’اوّل برائی‘‘ (Original Sin) کی بحث میں نہ پڑا جائے تو بہتر ہے۔ انسان کیوں اس جدائی کو پاٹنے اور ایکتا کی تلاش میں تڑپے جا رہا ہے۔ علامہ اقبال نے خوب کہا ہے: اک جذبۂ پیدائی اک لذتِ یکتائی۔ جدائی سے یکتائی کی جذباتی و روحانی و حسیاتی جستجو صوفیائے کرام کو وحدت الوجود کی جانب کیوں لے گئی۔ بات ذرا اور آگے بڑھائی تو حیا کے ڈنڈا برداروں کی سمجھ میں آنے سے رہی۔ پوچھنا اُن سے صرف یہ چاہئے کہ کیا کبھی آپ کو پھولوں کی خوشبو بھلی نہیں لگی۔ اور چڑیوں کی چہچہاہٹ پہ آپ نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں؟ یا پھر اپنے بچے کی کھلکھلاہٹ پہ غصہ آیا؟ اور زوجۂ موصوفہ کی شرماہٹ پہ متلی ہوئی۔ اگر ایسا ہے تو یہ مرض ایسا کوئی لاعلاج بھی نہیں۔ بشرطیکہ انسان بننے اور رہنے کی کوشش کی جائے۔ خالق نے بنی نوع انسان کو جس مٹی سے بنایا، اس کی سرشت میں وہ جبلتیں، وہ جذبے، وہ حسیات و جینیات کیوں بھری گئیں جو ہر لمحہ اپنے اظہار کو بے تاب رہتی ہیںاور اخلاقیات کے لیکچر ان کے آگے کیوں بند نہیں باندھ سکے۔ جن معاشروں میں جتنی گھٹن زیادہ ہوتی ہے وہاں لوگ اتنا ہی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ جیسے قحط زدہ لوگ امدادی خوراک پر جھپٹتے ہیں۔ ہمارے شہروں، دیہات،اسکولوں اور بازاروں میں لطافت، جمالیات اور راحت و ثقافت کے سامان کبھی کے ناپید ہو چکے۔ تو لوگ تفریحِ طبع کے لئے جائیں تو کہاں جائیں؟ انھیں تو بس موقع چاہئے۔ اور وہ بھوکی نظریں اور للچاتی نگاہیں لئے، رالیں ٹپکائے باہر نکل پڑتے ہیں۔ اور کہیں کہیں بے صبری میں تہذیب کا دامن بھی چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ اس کم تہذیبی کا حل تو تہذیب ہی ہے۔ نہ کہ تہذیب کی تکفیر۔ جیسے بُری جمہوریت کا حل اچھی جمہوریت تو ہے، آمریت نہیں۔ نہ ہی ثقافتی کرفیو سے آپ لوگوں کو داعش کی طرز کے قید خانے میں بند کر سکتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے پر یہی کچھ ہوا۔ چھوٹے کیا، بڑے کیا، بچے کیا، جوان کیا، بھاری تعداد میں گلاب کے پھولوں اور دل نما غباروں کے لئے بازاروں میں ٹوٹ پڑے۔ ہر طرف خوشی ہی خوشی اور شادمانی ہی شادمانی، فراوانی سے ڈیرے جمائے نظر آئی۔ نوجوان لوگ خوشیاں بانٹتے پھرتے دکھائی دئیے، نفرتیں اور تفرقے پھیلاتے نہیں۔ کہیں کسی کو چھیڑ بیٹھے تو پٹائی بھی ہوئی۔ لیکن ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا۔ یومِ حیا والوں کے کیمپ تو لگے لیکن سنسان۔ جنھیں پھول پیش کرنے کو کوئی نہ ملا۔ تو بہن بھائیوں، ماں باپ کے لئے پھولوں کے گلدستے خریدتے نظر آئے۔ جن چھوٹی بڑی بیگمات کو کبھی اُن کے میائوں کی جانب سے کوئی پھول اور نذرانۂ محبت پیش نہیں کیا گیا تھا اُن کی بھی چاندی ہو گئی اور وہ پھولوں سے لد گئیں۔ محبت، پیار اور انسان دوستی کی اس بہار پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ نفرتیں بانٹنے، تفرقے پھیلانے اور تشدد پر اُکسانے والوں کی جگہ محبتیں بانٹنے کی ثقافت کو پھیلانے میں ہی قومی بھلائی ہے۔ ان میں سے کوئی ہو گا جسے اس تہوار کی ’’اوّل برائی‘‘ کے ماخذ کا پتہ ہو۔ کسی کو کوئی غرض نہیں تھی کہ کوئی پادری صاحب ہوتے تھے جن سے اس تہوار کو منسوب کیا گیا۔ تکفیری ثقافت والوں کی سنی جاتی رہی کہ سرکاری و غیرسرکاری جہاد کا چلن کافی عرصہ چھایا رہا ، اور اسی ثقافتی کرفیو کے خلاف جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک عوامی ثقافتی بغاوت ہوئی اور وہ تھی بسنت۔ بسنت تو آریائوں کے زمانے سے پہلے سے اس خطے میں منائی جاتی رہی جب ہندو مت ابھی تھا ہی نہیں۔ اور لوگ بہار کی آمد کی خوشی میں خوب گڈیاں اُڑاتے اور مزے کرتے۔ ثقافتی و نظریاتی مارشل لاء کی گھٹن کو توڑتے ہوئے بسنت ایک بڑا عوامی ثقافتی اُبھار کا جشن بن گئی۔ جس طرح یہ آگ کی طرح پھیلی اسی طرح تکفیری ثقافت کی صفیں بھی لپٹتی چلی گئیں۔ پھر سرکاری مداخلت ہوئی اور اسے فقط کھابوں کا جشن ’’جشنِ بہاراں‘‘ بنانے کا جتن ہوا۔ کیونکہ کھابا کلچر کے حوالے سے قدامت پسندوں اور پنجاب کے حکمرانوں کا ذوق و شوق یکساں ہے۔ پھر بسنت کو ایک خونی کھیل بنایا گیا اور خونی دھاگے کی پیداوار بند کرنے کی بجائے اس پر بندش لگا دی گئی۔ جو تہذیبی اظہار ہوا، اس کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ اور پنجاب پولیس دہشت گردوں کی بجائے پتنگ فروشوں اور پتنگ بازوں کو گرفتار کرتی نظر آئی۔ نئے سال کے جشن پر بھی وہی کچھ کیا اور کہا گیا جو ویلنٹائن ڈے پر کیا گیا۔ لیکن نئے سال کا جشن ایسے منایا گیا کہ ڈنڈا برداروں کو بھاگنے میں ہی عافیت ملی۔
اب سوال یہ ہے کہ آپ پاکستان کو کیا اور کیسا بنانا چاہتے ہیں۔ ایسا کہ جہاں قبرستان جیسی خاموشی ہو اور انسان خوشیاں بانٹنے اور جشن منانے پر قابلِ تعزیر و تکفیر ٹھہرے۔ جہاں فرقہ پرست دوسرے مسالک کے لوگوں کی قتل و غارت گری کریں۔ مذہبی انتہاپسند نوجوانوں کے ذہن میں زہر بھریں کہ وہ خود کش بمبار بن کر اپنے آپ کو اور دوسرے مسلمانوں کو بارود سے اُڑا دیں۔ جہاں اقلیتوں کی زندگی اجیرن کر دی جائے۔ اور کسی کی عبادت گاہ اور قبرستان تک محفوظ نہ رہیں۔ مملکتِ خداداد تو اب جتن کر رہی ہے کہ ان انتہاپسند وں کو بزورِ طاقت ختم کیا جا سکے۔ لیکن اس طرح یہ بدروحیں باز آنے والی نہیں۔ ان کا حل وہی ہے جو پاکستان کے نوجوانوں نے نکالا ہے اور وہ ہے جوابی ثقافت (Counter Culture)۔ جتنا عدمِ برداشت اور انتہاپسندی کو محبت و
پیار، نغمہ و رقص، فنونِ لطیفہ، گلاب کے پھولوں کے نذرانوں کے جشن، بسنت کی پتنگ بازی، کھیلوں کے تماشے اور انسان دوستی کے مظاہرے روک سکتے ہیں توپ و تفنگ نہیں۔ یہ بات صدرِ محترم کو سمجھ آئی نہ ہمارے زاہدوں کو۔ مضحکہ خیز پابندیوں سے کام نہ چلا تو فتوے دلوائے گئے اور یومِ حیا کے کیمپ لگائے گئے۔ سب کو شکست ہوئی۔ محبت و پیار، امن و آشتی اور رواداری جیت گئی۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے کلچر کو ایسے ہی پسپا کیا جا سکتا ہے۔ اور اسی طرح دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی بقا کی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ اصل مسئلہ عدمِ برداشت ہے۔ جسے پسند نہیں وہ گھر بیٹھے اور اس کو دوسرے کی آزادی سلب کرنے کا حق حاصل نہیں۔
سوشل میڈیا پر مَیں نے یہ پیغام لکھا کہ ’’میرا پیار اُن سب کو پہنچے جو انسانیت سے بلا تعصب پیار کرتے ہیں اور اپنی خوشیاں بانٹ کر دوسروں کو بھی خوش رکھتے ہیں۔‘‘ اس بیان کا دینا تھا کہ خدا کی پناہ۔ کفر کے فتوئوں سے ملک سے غداری اور مغرب کی غلامی تک سب کچھ اس ناتواں پر اُنڈیل دیا گیا۔ جب اس بات سے بھی چین نہ ملا تو حیا والوں نے میری ماں بیٹیوں کی حوالگی کا تقاضا کر دیا۔ کاش وہ یہی جواب اپنی ماں بیٹیوں کو دکھانے کی بھی جرأت کرتے۔ ایسے لوگوں کا بس وہی علاج ہے جو کچھ بہادر لڑکیوں نے اُن لفنگوں کے ساتھ کیا جو چھیڑ چھاڑ پر اُتر آئے۔ان سے پوچھنے میں کیا حرج ہے کہ کونسا رشتہ ہے جو محبت کے بنا ہے:ماں کا اور ماں سے پیار، باپ، بہن، بھائی، بیوی، بچوں اور محبوب/محبوبہ سے پیار۔ یہ سب پیار ہی کی ایک صورت ہیں۔ ویلنٹائن ڈے پر ہی لاہور میں فیض میلہ کمیٹی نے فیض امن میلہ بپا کیا۔ تہذیب و ثقافت کا یہ میلہ پھر سے جاگ اُٹھا ہے۔ مشاعرہ ہوا، امن کے نغمے گائے گئے اور لوک گیت بھی۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی بڑی تعداد امن کے گیتوں پہ رقصاں نظر آئی۔ بے حیائی تھی نہ نام نہاد حیا والے۔ فیض نے کیا خوب کہا تھا:
رنگ پیرہن کا، خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
تازہ ترین