• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہباز شریف نے کہا ہے کہ وہ ایسے امیدوار لائیں گے جو سیاست کو خدمت اور عبادت سمجھتے ہیں۔ میرا خیال ہے شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی سے بالا بالا’’ایل سی‘‘ کھول دی ہے۔ بہتر ہوتا اگر لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیتے کہ سیاست کو خدمت اور عبادت سمجھنے والے یہ سیاستدان کس ملک یا سیارے سے’’امپورٹ‘‘ کرنے کا ارادہ ہے کیونکہ یہاں جو’’میٹرئیل‘‘ دستیاب ہے اس کا تو ہم سب کو تجربہ بھی ہے اور اندازہ بھی۔ چند ہفتے پہلے مجھے اک عجیب سا خیال آیا جو میں نے مختلف ٹی وی چینلز پر فلوٹ کردیا اور آج اپنے قارئین کے ساتھ بھی شیئر کررہا ہوں۔بزنس کو علیحدہ رکھ کر کسی بھی پیشے کا تصور کریں کہ اس سے وابستہ شخص ٹاپ پر بھی پہنچ جائے تو زیادہ سے زیادہ کیاکرلیتا ہے؟ اس سے بھی اہم بات یہ کہ کسی ڈاکٹر، آرکیٹیکٹ، انجینئر، وکیل، جرنلسٹ وغیرہ کو ٹاپ تک پہنچنے میں کتنا عرصہ لگتا ہے؟ اسے کتنے سال یکسوئی سے جان توڑ محنت کے بعد تمول نصیب ہوتا ہے مثلاً بطور قانون دان خود کو منوانے کے لئے چودھری اعتزاز احسن کو کتنا عرصہ لگا؟ اسی طرح ہمارے نیئر علی دادا کو وکٹری اسٹینڈ پر پہنچنے کے لئے کتنے برس تپسیا کرنا پڑی؟ کیا سعید اختر جیسا مصور راتوں رات سعید اختر بن گیا تھا؟ عرض کرنے کا مقصد یہ کہ اپنے اپنے شعبوں کے قابل ترین لوگ جائز طریقوں سے کمال بھی کر گزریں تو زیادہ سے زیادہ متمول، مالدار، آسودہ، بہت آسودہ تو ہوجاتے ہیں لیکن یہ بتائیں کہ ان میں سے کتنے فیصدکرئیر کے پہلے چند سالوں میں ہی ارب پتی بنتے ہیں؟ بہترین اننگ کے بعد بھی میں نے’’مقامی منڈی‘‘ میں خالصتاً اپنے پیشہ ورانہ زور پر کسی کو ارب، کھرب پتی بنتے نہیں دیکھا تو ہماری سیاست میں ایسا کون سا جادو ہے کہ کن ٹٹے دیکھتے ہی دیکھتے ارب اور کھرب پتی بن جاتے ہیں؟ کیا اکثر و بیشتر یہ سیاست کو’’خدمت‘‘ اور ’’عبادت‘‘ سمجھنے کا صلہ ہی نہیں ہوتا؟ دراصل یہی وہ اصل کشش ہے جو ایک خاص قسم کے کن ٹٹے مہم جوئوں کو اس کام کی طرف راغب کرتی ہے ورنہ بطور اسٹوڈنٹ لیڈر ویگنوں سے بھتے لینے ا ور بطور ٹریڈ یونین لیڈرز وارداتیں ڈالنے ولے کس طرح سائونڈ بیرئیرز توڑ جاتے ہیں؟ میں منشیات کی نہیں، اپنے عمومی ماحول کی بات کررہا ہوں، کیا وجہ ہے کہ راہ راست پر رہنے والے پیشہ ور اس طرف مائل نہیں ہوتے سوائے کچھ وکلاء کے کہ وکالت اور سیاست میں اک خاص قسم کا رشتہ ہے۔میں مختلف مہارتوں کے حامل کامیاب نامور ترین سرجنز کو جانتا ہوں جو بہت خوشحال، کامیاب اور نامور ہیں لیکن خالصتاً پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے نتیجہ میں دولت مند ہر گز نہیں......ہاں کوئی فلوک لگ جائے، کوئی خوشگوار واقعہ ہوجائے تو اور بات مثلاً کسی نے بھلے وقتوں کوئی زمین خریدی اور8، 10، 15سال میں اس کو بوجوہ ضربیں لگ گئیں، کسی کو سمجھ بوجھ یا دلچسپی ہوئی اور اس نے تھوڑا بہت سرمایہ شیئرز میں لگا دیا، کسی نے گائیڈ کردیا اور یہ سرمایہ کاری نتیجہ خیز ہوئی تو وہ علیحدہ بات ہے۔ یہ بھی ہوا کہ کسی دوست،عزیز کو کاروبار کے لئے ضرورت پڑی، اس نے کچھ رقم بطور ادھار مانگی یا فیزیبلٹی سمجھا کر پارٹنر شپ آفر کی جو آپ نے قبول کرلی اور وہ کام کلک کرگیا تو یہ بھی مختلف قسم کی صورت حال ہے جس کا سیاسی اثر رسوخ کے کمالات و معجزات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ بے شمار کام ایسے ہیں جو سو فیصد جائز لیکن عام آدمی کی ان تک رسائی محال ہی نہیں، ناممکن ہوتی ہے جبکہ سیاسی نیوسینس کے اسلحہ سے لیس ورکر یا لیڈر کے لئے وہ بھی کوئی ایشو ہی نہیں۔ہمارا سیاسی کلچر گزشتہ چند عشروں سے ایسا ہوچکا کہ اب یہ محفوظ ترین صنعت اور تجارت بن چکا ہے۔ کون سی خدمت؟ کیسی عبادت؟ یہ اپنی اور اپنوں کی خدمت اور زر کی عبادت کے سوا کچھ نہیں ورنہ ملک کا یہ حال نہ ہوتا حضور! مثلاً 400کروڑ کھائے گئے، پانی کی ایک بوند نہیں۔ اسٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے برباد لیکن کئی معززین آباد ہوگئے علی ہذالقیاس۔یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا تھا مثلاً ایوب خان کے زمانے میں بونس وائوچر اسکیم، سینما کا لائسنس، ٹرانسپورٹرز کے لئے مخصوص روٹس پر اجارہ داری، مخصوص ٹھیکے، لیز پر زمینیں وغیرہ لیکن عمودی اور افقی لوٹ مار کی سرعام’’سیاست و تجارت و صنعت‘‘ کا جو کلچر اب ہے، ایسا کبھی نہ تھا۔ یہ ریشوں، بافتوں، شریانوں ہی نہیں، خون میں شامل ہوچکا۔ خون کو مکمل طور پر تبدیل کئے بغیر اس بیماری کا علاج ممکن ہی نہیں جو ہمیں نہ جینے دے رہی ہے نہ مرنے دے رہی ہے۔شہباز شریف کا جذبہ اپنی جگہ لیکن میری سمجھ سے باہرہے کہ اس آلودہ ترین ماحول میں سیاست کو’’خدمت‘‘ اور’’عبادت‘‘ سمجھنے والے’’پاگلوں‘‘ کا یہ گروہ آئے گا کہاں سے؟ کس کو پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ وہ پہلے ’’انٹرویو‘‘ کے لئے’’معززین‘‘ کے حضور عرضی دے کر پیش ہو، پارٹی فنڈ میں کروڑوں روپے دان کرے، پھر کروڑوں روپیہ انتخائی مہم میں جھونکے ، در در ووٹ کے لئے دھکے کھائے، ترلے کرے اور اگر جیت جائے تو مجھ جیسے للوئوں پنجوئوں کے لئے صرف، صرف، صرف قانون سازی کرے؟ ہر ناجائز کام کو ناجائز سمجھے، ترقیاتی فنڈز سے حصہ نہ وصولے، نوکریاں نہ بیچے اور دو چار الیکشنوں میں کنگال ہو کر میانی صاحب کے قبرستان میں جا سوئے اور میانی صاحب بھی وہ جہاں بیشتر بااثر لوگ قبضے کرچکے۔تازہ ترین خبر یہ ہے کہ....’’میانی صاحب میں تعمیر تمام گھر مسمار کرنے کا حکم‘‘’’قبرستان کے تمام احاطے غیر قانونی، چیف سیکورٹی افسر نے حقائق چھپائے تو تین ماہ کے لئے جیل جائیں گے‘‘۔ جسٹس علی اکبریقین کریں قبرستانوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کا کھرا بھی انہی لوگوں تک پہنچے گا جو سیاست کو’’خدمت‘‘ اور’’عبادت‘‘ سمجھنے کے دعویدار ہیں۔یہی چراغ’’ بجھیں‘‘ گے تو روشنی ہوگی۔اے میرے رب!مجھے اور میرے ہم وطنوں کو ان’’خادموں‘‘ اور عابدوں‘‘ سے محفوظ رکھ۔

تازہ ترین