• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچ یا جھوٹ لکھا گیا ہے کہ ’’ایک ریٹائرڈ پاکستانی افسر جو جاسوسی ادارے میں تھا، ایک دن گھومتا گھامتا امریکیوں سے ملا اور (اسامہ بن لادن کے بارے میں) انہیں معلومات دیں۔ میں اُس کا نام نہیں لوں گا کیونکہ میرے پاس اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں اور یوں بھی میں اسے مشہور نہیں کرنا چاہتا۔ کون جانتا ہے کہ اسے پچاس ملین ڈالر (کے انعام) میں سے کتنی رقم ملی لیکن اب وہ پاکستان سے غائب ہے۔ یہ میں جانتا ہوں۔‘‘یہ ہیں وہ چار سطریں جو جنرل (ر) اسد درانی نے اپنی نوبیاہتا کتاب ’’دی سپائی کرانیکلز‘‘ میں اُس افسر کے بارے میں لکھیں جس نے امریکیوں کو اسامہ کا پتہ بتایا۔ اس سے پہلے کہ ’’جمہوریت‘‘ کے دور میں میرے اِس کالم پر قومی مفاد میں قینچی چلا دی جائے، میں واضح کر دوں کہ یہ کالم جنرل درانی کی کتاب کے بارے میں نہیں، یہ کالم کسی ’’حساس‘‘ موضوع پر بھی نہیں بلکہ یہ کالم ایک نہایت بے حس موضوع پر ہے جس کی اہمیت ٹماٹر پیاز کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں سے زیادہ نہیں، ہر گز نہیں۔ حفاظتی بند باندھنے کے بعد اب کالم پیش خدمت ہے۔
جونہی جنرل درانی کا یہ انکشاف سامنے آیا، سوشل میڈیا پر چند تصاویر وائرل ہو گئیں، اِن تصویروں میں ایک شخص نظر آرہا ہے جو پچاس کے پیٹے میں ہے، چہرے پر ہلکی سفید فیشنی داڑھی، پینٹ شرٹ میں ملبوس قیمتی گاڑیوں کے ساتھ کھڑا ہے، کہیں وہ اپنی بیوی یا دوستوں کے ساتھ کسی کھانے کی دعوت یا شاپنگ مال میں دکھائی دے رہا ہے، ان تصویروں کے ساتھ جو تحریر وائرل ہوئی وہ کچھ یوں تھی کہ یہی وہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر ہے جس نے پچاس لاکھ ڈالر کے عوض امریکیوں کو اسامہ کا پتہ بتایا اور آج کل یہ شخص نئی شناخت کے ساتھ امریکہ کی فلاں ریاست میں مقیم ہے۔ تقریباً ڈیڑھ درجن سوالات یہاں جنم لیتے ہیں، مثلاً، ان تصاویر کی صداقت کا کیا ثبوت ہے، کروڑوں فیس بک اکاؤنٹس میں سے کسی فردکی بھی تصویریں اٹھا کر کسی بھی کیپشن کے ساتھ شیئر کی جا سکتی ہیں تو کیسے مان لیا جائے کہ یہ وہی شخص ہے جس نے اسامہ کی معلومات دیں، کیا اِس نے اپنی پروفائل میں یہ لکھ رکھا تھا؟ جنرل درانی کی کتاب کے فوراً بعد یہ تصاویر کس کے بطن سے یکایک پیدا ہو گئیں؟ جنرل درانی نے کتاب میں صرف ایک افسر کا ذکر کیا تھا وہ ازخود ریٹائرڈ بریگیڈیئر کیسے ہو گیا؟ انعامی رقم کے بارے میں بھی جنرل صاحب کو کچھ پتہ نہیں مگر ہم نے اسے پچاس لاکھ ڈالر انعام بھی دے دیا، جنرل صاحب نے یہ بھی نہیں بتایا کہ یہ شخص کہاں مقیم ہے مگر ہم نے کھوج لگا لیا اور اُس کے گھر میں گھس کر پوری فیملی کا کچا چٹھا کھول دیا، یہ کام کسی کو سات سال بعد کیوں یاد آیا؟ 2015میں دی ٹیلی گراف نے ایک خبر دی کہ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کے بارے میں شک ہے کہ انہوں نے اسامہ کے بارے میں امریکیوں کو معلومات فراہم کیں مگر اُن کے خاندان والوں نے اسی خبر میں سختی سے تردید کی اور بتایا کہ بریگیڈیئر صاحب گزشتہ پینتیس برس سے برطانیہ میں مقیم تھے اور بالآخر 79برس کی عمر میں کینسر سے اُن کا انتقال ہوا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ نئے صاحب کہاں پیدا ہوئے اور کیسے امریکہ میں نمودار ہو گئے؟ سوالات کو فی الحال ختم کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمارا موضو ع نہیں۔ موضوع یہ ہے کہ ہم کیوں آنکھیں بند کر کے ایسی تمام خبروں کے بارے میں ایمان کی حد تک یقین لے آتے ہیں؟ کیا موبائل فون پر موصول ہونے والی ہر بات محض اس لئے مستند مانی جائے کہ وہ ایک ڈیجیٹل فارمیٹ میں ٹائپ شدہ کیپشن کے ساتھ ہم تک پہنچتی ہے؟ کیا کسی چیتھڑے میں چھپا ہوا ہر لفظ معتبر مانا جائے؟ کیا کسی غیر مستند بات کو ویڈیو کلپ میں ڈھالنے سے وہ بات مستند ہو جاتی ہے؟ کیا ایسی خبروں پر ایمان لانے سے پہلے اُن کی تصدیق نہیں کرنی چاہئے؟ فرض کریں کہ یہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر والی بات سچ ہو مگر وہ سوالات بہرحال اپنی جگہ موجود رہیں گے کہ کیسے یکایک کوئی مرد عاقل امریکہ سے اُس کا کھرا نکال کر لے آیا!
بھارتی لکھاری ارن دھتی رائے، جو ہندوستان کی پالیسیوں بشمول کشمیر پالیسی کی ناقد رہی ہیں، نے کچھ عرصہ پہلے ایک بیان دیا کہ ’’ستّر لاکھ بھارتی فوجی مل کر بھی کشمیر کے آزادی گینگ کو شکست نہیں دے سکتے۔‘‘ یہ بات انہوں نے ایک انٹرویو میں کہی۔ اس بیان کے بعد انڈین میڈیا میں گویا بھونچال آ گیا۔ ری پبلک ٹی وی اور سی این این 18نے اپنے پرائم ٹائم میں اس پر پروگرام کئے اور مس رائے کے خوب لتے لئے، اداکار پاریش راول بھی میدان میں کودے اور ایک ٹویٹ کر ڈالی کہ مس رائے کی جنم پرچی دراصل زچگی وارڈ کا اظہار ندامت تھا۔000،6لوگوں نے اسے پسند کیا او ر300 ، 3 مرتبہ اسے ری ٹویٹ کیا گیا۔ بھارتی ٹی وی اینکر ارنب گوسوامی، جو اپنے الٹرا نیشنلسٹ عقیدے کی بنا پر خاصی ریٹنگ سمیٹتے ہیں، نے بھی اس موقع کا فائدہ اٹھا کر ارن دھتی رائے کو دھو ڈالا۔ اس سارے مسئلے میں مگر ایک بات نظر انداز کر دی گئی کہ یہ خبر جعلی تھی، مس رائے نے کبھی کوئی انٹرویو دیا اور نہ ہی ایسا کوئی بیان جاری کیا۔ یہ نام نہاد بیان کسی غیر معروف پاکستانی ویب سائٹ پر ڈالا گیا تھا جس کا کوئی والی وارث نہیں تھا، یہ ’’خبر‘‘ اڑتی اڑتی بھارت پہنچی اور پھر ارن دھتی رائے کو آن ہی آن میں ملک دشمنی کا تمغہ مل گیا۔ خبر کے جعلی ثابت ہونے کے بعد کسی نیوز چینل یا اینکر نے مس رائے سے معذرت کی زحمت نہیں کی۔
ہمارے موبائل فون پر روزانہ درجنوں پیغامات موصول ہوتے ہیں جنہیں پڑھ کر ہم خواہ مخواہ سچ مان لیتے ہیں بشرطیکہ وہ ہمارے اپنے بارے میں کوئی جعلی خبر نہ ہو۔ یہ رجحان صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا میں یہی چلن ہے، دراصل ہماری نفسیات یہ ہے کہ ہم کتاب میں چھپے ہوئے حرف کو معتبر سمجھتے ہیں، اخباری خبر کو سچ مانتے ہیں اور ٹائپ شدہ عبارت ہمیں مستند لگتی ہے، سو موبائل فون یا کسی ویب سائٹ پر جو بھی مواد ہمیں نظر آتا ہے وہ ہمیں تصدیق شدہ لگتا ہے کیونکہ وہ نہایت خوبصورت انداز میں موٹے موٹے حروف میں ٹائپ ہوتا ہے، ہم یہ جاننے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ اس میں کتنی صداقت ہے۔ فیک نیوز بنانے والے اسی نفسیات کو استعمال کرتے ہیں۔ ریٹائرڈ بریگیڈیئر والے معاملے میں مجھے ایک دن میں کم از کم بیس لوگوں نے وہ تصاویر فارورڈ کیں اور میں نے جس سے بھی پوچھا کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ خبر درست ہے تو نصف لوگوں نے جواب دیا کہ انہیں تو کہیں سے آئی تھیں سو یونہی فارورڈ کر دیں اور باقی نصف نے جواب دیا کہ پورا سوشل میڈیا یہی کہہ رہا ہے، غلط کیسے ہو سکتی ہیں! چند سال پہلے روہنگیا کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی جعلی تصاویر بھی ہم نے اسی طرح اندھا دھند شیئر کی تھیں۔ (اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُن پر ظلم نہیں ہوا تھا)۔
ہم ایک خطرناک دور میں زندہ ہیں، یہاں کسی کی عزت محفوظ ہے اور نہ پرائیویسی، ہم چسکے لینے کے لئے ایک دوسرے کو جعلی خبریں فارورڈ کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ آگ کا یہ کھیل کتنا خطرناک ہے، کوئی دن جاتا ہے کہ اس کی لپیٹ میں ہم سب آ جائیں گے، فیک نیوز کا جن بوتل سے باہر آ چکا ہے اسے اندر ڈالنا اب ممکن نہیں۔ فی الحال اِس کی زد میں وہ لوگ ہیں جو قدرے معروف ہیں لیکن وہ دن دور نہیں جب غیر معروف لوگ بھی اس کا نشانہ بنیں گے، اُس دن سے ہم سب کو ڈرنا چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین