• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کو باہر سے دیکھنے والوں کی تمام تر توجہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی غیر منظقی پالیسیوں پر ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ امریکہ پر ایک ایسے نادان اور ناعاقبت اندیش شخص کی حکومت ہے جو نہ صرف دنیا میں فساد پھیلانے پر تلا ہوا ہے بلکہ ملک کے اندر بھی انسانی حقوق، بالخصوص اقلیتوں کو ملیا میٹ کرنے کے درپے ہے۔ امریکہ کے بارے میں اس طرح کا تاثر کافی حد تک درست ہے کیونکہ صدر ٹرمپ امیر طبقے کو فائدہ پہنچانے اور مذہبی بنیاد پرستی کو بڑھاوا دینے کے لئے پچھلے ساٹھ سالوں میں کی گئی ترقی کو ختم کرکے امریکہ کو ایسے عہد میں لے جانا چاہتے ہیں جس میں سفید فام لوگوں کے علاوہ کسی کے کوئی حقوق نہ ہوں ۔ وہ خواتین اور دوسرے کمزور حلقوں کے حاصل کئے گئے حقوق کو بھی حرف غلط کی طرح مٹا دینا چاہتے ہیں۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے جس کا زمینی حالات کے ساتھ جزوی تعلق ہے۔
اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں: امریکہ کی ریاست ورجینیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غریب عوام کوصحت کی سہولتیں فراہم کرنے کا قانون منظور ہوا ہے۔ اگرچہ صدر اوباما نے وفاقی سطح پر ہر امریکی کوصحت کی سہولتیں فراہم کرنے کا قانون منظور کروا لیا تھا لیکن اس کی بہت ساری شقوں کا اطلاق ریاستی یا صوبائی حکومتوں کی صوابدید پر تھا۔ اس لئے ورجینیا سمیت امریکہ کی بہت سی ایسی ریاستوںمیں صحت کے قانون پر عملدرآمدروک دیا گیا تھا جن میں ریپبلکن پارٹی کے قدامت پرستوں کی حکومت تھی۔ لیکن صدر ٹرمپ کی حکومت آنے کے بعد ان کے خلاف ایسا ردعمل سامنے آیا کہ پچھلے نومبر میں ورجینیا میں بہت سے قدامت پرستوں کو شکست ہوئی اور ایسی اسمبلیاں وجود میں آئیں جو عوام کو مزید سہولتیں فراہم کرنے کے حق میں تھیں۔
اگر اس پہلو سے دیکھیں تو عوامی مفاد کا وہ کام جو صدر اوبامہ کے زمانے میں بھی نہ ہو سکا وہ اب ہو گیا جبکہ امریکہ کا صدر اس کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ اسی طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکومت میں آنے کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی ایسے قدامت پرست حلقوں میں بھی الیکشن جیت رہی ہے جس کا چند سال پہلے وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اگر اس کو تین چار دہائیوں کے وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو بظاہر یہ لگتا ہے کہ صدر رونلڈ ریگن کے رد انقلاب سے شروع ہونے والی قدامت پرستی دن بدن بڑھتی گئی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی عرصے میں ہم جنس شادیوں کے قوانین منظور ہوئے اور خواتین کے حقوق کے بارے میں بہت سی پیش قدمی ہوئی:می ٹو (Me Too)تحریک نے بڑے بڑے برج الٹا دئیے ہیں اور اب عورتوں کو جنسی ہراسگی کا نشانہ بنانے والے مردوں کا یوم حساب آگیا ہے۔ اس ساری بحث کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ تاریخ میں جو کچھ بظاہر نظر آرہا ہوتا ہے وہی سچ نہیں ہوتا بلکہ اکثر اوقات اندر ہی اندر اس کی متضاد طاقتیں بھی مضبوط ہو رہی ہوتی ہیں۔ تاریخ کے اسی جدل کو مد نظر رکھتے ہوئے سچل سرمست نے کہا تھا کہ
آہیاں وچوں ناہیاں تھیندیاں ، ناہیاں وچوں آہیاں
(مثبت سے منفی پیدا ہو جاتا ہے اور منفی میں سے مثبت)
اسی موضوع پر طبع آزمائی کرتے ہوئے سلطان باہو کا کہنا ہے کہ ’نفی اثبات دا پانی ‘ ملیا یعنی تکمیل شخصیت (یا تاریخی حقیقت) کے لئے منفی اور مثبت رجحانات ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
پاکستان میں بھی ’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘ ۔ پچھلے ایک سال کے حالات و واقعات گواہ ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ بظاہر دانشورانہ بیانیے کا حصہ نہیں تھا۔ مثلاً جو کچھ قبائلی علاقوں میں ہوا وہ عمومی تاثر کا حصہ نہیں تھا۔ عام طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ قبائلی علاقے مذہبی طور پر روایت پرست، جنگجو اوراپنی آزادی اور روایات میں رہتے ہوئے مطمئن ہیں۔ عمران خان جیسے سیاسی رہنما بھی قبائلی جرگوں کو انصاف کے مثالی ادارے قرار دیتے تھے۔ لیکن مذہبی جنونیت کے مسلح غلبے سے گزرنے کے بعد قبائلی عوام نے برملا اعلان کیا کہ وہ بھی باقی پاکستانیوں کی طرح امن، انصاف اور آئینی حقوق کے طالب ہیں۔ وہ مقامی سرداروں اور ملکوں کے جرگوں کی بجائے ریاست کے جدید انصاف کے نظام کو ترجیح دیتے ہیں۔ چنانچہ ریاست کو مجبوراً قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوامیں ضم کرکے ریاست کے جدید قوانین کو نافذ کرنا پڑا۔ چند سال پیشتر اس طرح کا تصور کرنا بھی محال تھا لیکن قبائلی عوام نے تاریک راہوں سے گزرتے ہوئے روشنی تلاش کر لی۔
اسی طرح اگر پنجاب کے سیاسی ارتقاکو دیکھیں تو یہ سوچنا محال تھا کہ پنجاب کی اشرافیہ اور حکمران طبقوں میں ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ چھوٹے صوبے عام طور پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بر سر پیکار رہتے تھے اور وہ پنجاب کو زبردستی غلبہ حاصل کرنے کا طعنہ دیتے تھے۔ ان کا پختہ یقین تھا کہ پنجابی وزیر اعظم کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو سکتا جو سندھی وزیر اعظموں (ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو) کے ساتھ روا رکھا گیا۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ پنجاب سے تین دفعہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم کا نہ صرف احتساب ہو رہا ہے بلکہ ان کی پارٹی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی تدبیریں ہو رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ وزیر اعظم میاں نواز شریف پنجاب میں مقبول بھی نظر آتے ہیں۔ گویا ان کے مزاحمتی بیانیے کی پنجاب کے عوام میں بھی حمایت نظر آرہی ہے ۔ اگرچہ پنجاب کی تاریخ دیکھیں تو وہاںماضی میں اس مزاحمتی بیانیے کو کبھی بھی عوامی سطح پرپسند نہیں کیا گیا۔حالیہ سمت کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔اب بظاہر یہ لگتا ہے کہ کھیل بیانیے کے مخالفین کی منشا کے مطابق چل رہا ہے لیکن اوپری سطح سے نیچے جھانکیں تو تاثر ملتا ہے کہ پنجاب سے جس مزاحمتی بیانیے کی جنگ لڑی جا رہی ہے اس کےنتائج سیاسی بٹیر بازوں کی توقعات کے خلاف ہوں گے۔ تاریخ خاموشی سے اپنا کھیل کھیل رہی ہے اور بقول علامہ اقبال:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین