• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں زکوٰۃ اور خیرات دینے کا سلسلہ یوں تو سال بھر جاری رہتا ہے مگر رمضان المبارک میں اِس میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے اور لوگ اِس مقدس ماہ میں دل کھول کر زکوٰۃ اور عطیات کی مد میں ایک بڑی رقم غریبوں اور مستحقین میں تقسیم کرتے ہیں۔ واضح ہو کہ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں انفرادی طور پر سب سے زیادہ عطیات دیئے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ماہ رمضان میں تقریباً 60فیصد پاکستانی مخیر حضرات غریبوں اور مستحقین کیلئے زکوٰۃ اور خیرات مختص کرتے ہیں یا پھر فلاحی اداروں کی مالی مدد کرتے ہیں۔ Pakistan Centre of Philanthropy کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں خیرات اور زکوٰۃ کی مد میں سالانہ تقریباً 200 ارب روپے دیئے جاتے ہیں جو ایک خطیر رقم ہے اور اگر اسے صحیح معنوں میں غریبوں اور مستحقین میں تقسیم کیا جائے تو ملک میں غربت میں کئی گنا کمی لائی جاسکتی ہے۔
حکومت بھی یکم رمضان المبارک کو بینکوں میں عوام کے کھاتوں میں موجود رقوم سے زکوٰۃ کی مد میں اربوں روپے حاصل کرتی ہے لیکن افسوس کہ اس کا ایک بڑا حصہ مستحقین تک نہیں پہنچ پاتا اور کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے جس کے باعث کچھ لوگ بینکوں میں موجود اپنے کھاتوں پر زکوٰۃ کی کٹوتی سے بچنے کیلئے رمضان المبارک کی آمد سے کچھ روز قبل ہی مختلف بہانوں سے بینکوں سے اپنا سرمایہ نکلوالیتے ہیں یا پھر جعلی زکوٰۃ ڈکلیئریشن بینک میں جمع کروادیتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے غرباء و مساکین میں زکوٰۃ و خیرات تقسیم کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں جو یقیناََ حکومت پر عوام کے اعتماد میں کمی کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں موجود ہزاروں این جی اوز اور فلاحی ادارے جو خدمت خلق اور دکھی انسانیت کیلئے سرگرم عمل ہیں اور لوگوں کے عطیات، زکوٰۃ اور خیرات پر چل رہے ہیں، کی بھی رمضان المبارک میں یہ کوشش ہوتی ہے کہ اُنہیں زیادہ سے زیادہ عطیات ملیں۔
اسلام ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ آپ جب کسی غریب یا مستحق کی مدد کریں تو دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو مگر افسوس کہ آج کل یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ مخیر حضرات اسلامی احکامات کے برخلاف غریبوں اور مستحقین میں خیرات اور زکوٰۃ تقسیم کرتے وقت اپنی شہرت اور نمود و نمائش کیلئے ٹی وی چینلز اور اخبارات کے نمائندوں کو ساتھ لے جاتے ہیں جس سے نہ صرف غریبوں اور مستحقین کی تضحیک ہوتی ہے بلکہ ایسے اندوہناک حادثات اور واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جن میں خیرات اور زکوٰۃ کے حصول کے دوران کئی غریب اور مستحق افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ ماضی میں راشن تقسیم کے دوران بھگدڑ کے نتیجے میں ہلاکتوں کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں اور ہر سال اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں مگر آج تک حکومت نے ان واقعات کی روک تھام اور سدباب کیلئے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کئے۔ نمود و نمائش کے حوالے سے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں 6افراد ایک غریب عورت کو راشن دیتے ہوئے راشن کے تھیلے پر ہاتھ رکھ کر تصویر بنوارہے تھے جبکہ غریب عورت کے چہرے سے شرمندگی عیاں ہورہی تھی۔ مجھے یہ تصویر دیکھ کر بہت دکھ اور افسوس ہوا کہ آج کل غریبوں کی مدد کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر تصویریں پوسٹ کرنا ایک فیشن بنتا جارہا ہے جس کی اسلام میں قطعاً اجازت نہیں۔
رمضان المبارک میں افطار ڈنر کے نام پر بھی پیسوں کا بے دریغ ضیاع کیا جاتا ہے۔ فائیو اسٹار ہوٹلوں اور کلبوں جہاں ایک فرد کے افطار ڈنر کا خرچ 3 ہزار روپے آتا ہے، اس کے باوجود فائیو اسٹار ہوٹلز لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب میں اسی طرح کے ایک افطار ڈنر میں مدعو تھا تو فائیو اسٹار ہوٹل میں بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے اور بے دردی سے کھانا ضائع کررہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر میں سوچنے لگا کہ اگر ہم ایک دن کے افطار ڈنر کے خرچ سے کچھ غریبوں کو روزہ کھلوادیں یا اُن پیسوں سے مدد کردیں تو اس سے جو دلی تسکین حاصل ہوگی، وہ ناقابل بیان ہے۔ پاکستان میں غربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میرے ادارے میک اے وش فائونڈیشن پاکستان جو لاعلاج مرض میں مبتلا بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل کرتا ہے، میں موذی مرض میں مبتلا ایسے کئی بچے ہیں جنہوں نے رمضان المبارک اور عید کے موقع پر اچھے کھانے، نئے کپڑے اور جوتے پہننے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ ادارے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ رمضان المبارک اور عید کے موقع پر زیادہ سے زیادہ بچوں کی خواہشات کی تکمیل کی جائے تاکہ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں اور ان کی زندگی میں خوشیاں بکھیری جاسکیں۔
کاش کہ ہم اپنے اندر کی تلخیوں اور نفرتوں کو نکال کر ایثار و محبت بانٹیں، آگ لگانے کے بجائے آگ بجھانے والے بنیں، تاریکیوں کا شکوہ کرنے اور مایوسی پھیلانے کے بجائے خاموشی سے ایسے کام کریں جو دوسروں کی زندگی میں خوشیاں لاسکتے ہوں۔ آج ملک میں چاروں طرف چھائے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اگر ہم اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں تو تاریکی میں ضرور کمی واقع ہوگی۔ اپنے کالم کے توسط سے مخیر حضرات اور قارئین سے میری درخواست ہے کہ وہ میک اے وش فائونڈیشن پاکستان کے اس نوبل مشن میں ہمارا ساتھ دیں کیونکہ ہم نے جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے،اس میںآپ کا تعاون اور مدد ضروری ہے۔ ادارے کی ویب سائٹwww.makeawish.org.pk پر اُن لاعلاج بچوں کی خواہشات کی فہرست موجود ہے جو اپنی آخری خواہشات کی تکمیل کا انتظار کررہے ہیں۔ آپ بھی کسی بیمار بچے کی خواہش کو پورا کرنے کی ذمہ داری لے سکتے ہیں اور اپنے عطیات میک اے وش فائونڈیشن پاکستان بینک الفلاح لمیٹڈ سائٹ ایریا برانچ کے اکائونٹ نمبر 0019-1003279804میں جمع کرواسکتے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ اگر ملک کا ہر مخیر شخص یہ ذمہ داری لے لے کہ وہ ایک لاعلاج بچے کی آخری خواہش پوری کرے گا تو پاکستان کا کوئی بچہ اپنا خواب یا کوئی حسرت لئے اس دنیا سے رخصت نہیں ہو گا اور شاید ہمارا یہی عمل آخرت میں ہماری نجات کا سبب بن جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین