• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقسیم کی صورت میں یہ شکست کھا جاتی ہیں اور متحد ہو کر بھی بڑی مشکل سے جیت پاتی ہیں۔ یہ پاکستان کی قومی دھارے میں مذہبی جماعتوں کی دوہری مشکل ہے۔ اب انہوں نے آئندہ 25 جولائی کو طے عام انتخابات کیلئے کمر کس لی ہے ، کسی بھی سیاسی مذہبی جماعت نے تنہا اپنے بل بوتے پر آج تک کوئی انتخاب نہیں جیتا، گو کہ 1970 میں مفتی محمود کی جمعیت علماء اسلام نے خیبر پختونخوا ( شمالی مغربی صوبہ سرحد ) نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی اور 2002 میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کی وہاں حکومت رہی لیکن سوال یہی اٹھتا ہے کہ لوگ مسلم لیگ ( ن) ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی طرح دینی و مذہبی جماعتوں کو ووٹ کیوں نہیں دیتے۔ جیسا کہ 25 جولائی 2018 کو عام انتخابات کیلئے ہم تیار ہیں۔ اس موقع پر ایک سے زائد مذہبی جماعتوں کے اتحاد میدان میں ہوں گے ۔ ان میں نمایاں متحدہ مجلس عمل ہے جس کی دو بڑی اور نمایاں جماعتیں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام ( ف) ہیں۔ 2002 میں افغانستان کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال اور ملک میں امریکا مخالف جذبات کے باعث ایم ایم اے اس وقت جیت گئی لیکن اب حالات بڑے مختلف ہیں۔ اس بار ایم ایم اے کا جیتنا دشوار دکھائی دیتا ہے کیونکہ اب وہاں عمران خان کی تحریک انصاف بڑی سیاسی قوت کی صورت میں موجود ہے اور اس کی صوبائی حکومت نے اپنی آئینی مدت کامیابی سے مکمل کی ہے ۔ وہاں عمران خان کا بیانیہ بھی بڑا مقبول عام ہے ۔ جماعت اسلامی یہاں تحریک انصاف کے ساتھ اقتدار میں شریک رہی ، جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) کو بہتر انتخابی تجربہ حاصل ہے ، لیکن اب انہیں تحریک انصاف کی صورت بڑے چیلنج کا سامنا ہوگا۔ جماعت اسلامی نے جب بھی اپنے بل بوتے پر الیکشن لڑا، اس کا ریکا رڈ بڑا خراب رہا ہے ۔ لہٰذا ان دونوں مذہبی و سیاسی جماعتوں نے اپنی گزشتہ ناکامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ادراک کر لیا ہے کہ وہ علیحدہ رہتے ہوئے انتخابات نہیں جیت سکتے۔ تقریباً دو سال تک مذاکرات کے بعد دونوں جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل کے احیاء کا فیصلہ کیا۔ 2002 کی انتخابی کامیابی کے دہرائے جانے کے امکانات بہت کم ہیں، تاہم ایم کیو ایم کی شکست و ریخت کے بعد کراچی انہیں جیت کے مواقع دستیاب ہوں گے ۔ مسلم لیگ ( ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مذہبی جما عتو ں کے پیچھے رہ جانے کی بڑی وجہ ان کا نظریاتی تشخص ہے ۔جس کی وجہ سے وہ آزاد خیال ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ نہیں کر پاتے۔ ان کی قوت ان کے متعلقہ ووٹ بینک تک ہی محدود ہے ۔ لہٰذا ان کی کامیابی کا تناسب اتحاد کی صورت میں بہتر ہو جاتا ہے ۔ ان جماعتوں کو اپنی سیاست اور حکمت عملی کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ گزشتہ 70 برسوں کے دوران مذہبی جماعتوں نے بائیں بازو کی سیکولر جماعتوں جیسےنیشنل عوامی پارٹی اور 2013 میں کسی حد تک پیپلز پارٹی کے زوال سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ جمہوری اور انتخابی عمل کے ذریعہ تبدیلی پر یقین رکھتی ہیں،ان کا 1973 کا ملکی آئین مرتب کرنے میں تاریخی کردار رہا ہے ۔ خصوصاً دو افغان جنگوں کے بعد گزشتہ تین دہائیوں میں ان کا بیانیہ بڑا مضبوط ہوا ہے ۔ اس کے باوجود وہ ووٹرز کی انتخابی ذہنیت تبدیل نہیں کر سکے۔ مذہبی جماعتیں اور گروپس درجنوں میں تقسیم ہیں لیکن ان کی پریشان کن اور نقصان دہ اہمیت اپنی جگہ موجود ہے ، وہ اسٹریٹ پاور کے ذریعہ کسی بھی حکومت کا تختہ الٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام اور کسی حد تک جمعیت علماء پاکستان کو تحریک انصاف کے عروج کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ، جو 2013 میں ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔اکثر مذہبی جماعتیں الجھن کا شکار ہیں،وہ ووٹ کے ذریعہ تبدیلی پر یقین نہیں رکھتیں۔ جما عت الدعوۃ نے تو گزشتہ انتخابات میں اپنے حامیوں کوووٹ نہ ڈالنے کو کہا تھا۔ اب اس نے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کی ہے ۔ اس نے عملی طور پر اپنی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ قائم کرلی ہے ۔ کچھ گروپ اب بھی اپنی پالیسیوں میں بڑے سخت ہیں، وہ ٹیلی وژن پر آنے کیلئے آمادہ نہیں اور تصاویر سے بھی گریز کرتے ہیں، لیکن جماعت اسلامی ، جے یو آئی اور جے یو پی کا کیس مختلف ہے ۔

تازہ ترین