• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نگراں وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک نے اچھا کیا کہ اقتدار سنبھالنے کے ابتدائی دنوں میں ہی ملک بھر میں جاری بجلی کی اس بدترین لوڈ شیڈنگ کا نوٹس لے لیا جس نے پچھلے دنوں موسم گرما کی شدت کے ساتھ مل کر لوگوں کو بے حال کئے رکھا ۔یہ صورتحال رمضان المبارک کے دوران بھی انتہائی پریشان کن رہی جبکہ مئی جون کے مہینوں میں رمضان المبارک آنے کے باعث اس برس روزوں کا دورانیہ دوسرے مہینوں میں آنے والے روزوںکے مقابلے میں زیادہ ہے۔ رمضان کی آمد سے قبل سحرو افطار کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہ کئے جانے کے اعلانات سے تاثر ملتا تھا کہ اس باب میں خاصی تیاریاں کی گئی ہیں۔ مگر ان اعلانات کے عملی نفاذ کے حوالے سے کراچی سمیت کئی شہروں کے باسیوں کے تجربات مختلف ہیں۔ وزیر اعظم ناصر الملک نے منگل کے روز پی ایم ہائوس اسلام آباد میں منعقدہ پاور سیکٹر کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں درست طور پر پانی و بجلی کی وزارت کو ہدایت کی کہ وہ برقی فراہمی یقینی بنانے کے فوری اقدامات ،پاور سیکٹر کے نقصانات کم کرنے کی تدابیر ،بجلی کے شعبے کو معتمد و پائیدار بنانے اور تقسیم کار کمپنیوں کے بھاری نقصانات میں کمی کی حکمت عملیوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ متعلقہ محکمے، ادارے، افسران اور اہلکار نگران وزیر اعظم کی ان ہدایات پر اسی جذبے سے عمل کریں، جس جذبے اور جن توقعات کے ساتھ یہ ہدایات دی گئی ہیں۔ برسوں ہی نہیں عشروں سے یہ معمول چلا آ رہا ہے کہ حکومتیں لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کی ڈیڈ لائن دیتی رہیں۔ ان میں سے جو حکومتیں قبل از وقت گھر بھیجی گئیں ان کا دعویٰ یہ رہا کہ انہوں نے تو قومی خزانے کو بھی بھرا ہوا چھوڑا جبکہ بجلی پانی، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں سمیت سب میں بہتری لائی جاچکی ۔آئینی میعاد مکمل کرنے والی حکومتوں کا موقف بھی اس سے مختلف محسوس نہیں ہوا۔ 31مئی کو سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ مذکورہ تاریخ کے بعد اگر لوڈ شیڈنگ ہوئی تو اس کی ذمہ دار نگراں حکومت ہو گی ۔ان کے دعوے کے بموجب دس ہزار میگا واٹ بجلی واقعی سسٹم میں شامل ہو چکی ہے تو یہ جائزہ لیا جانا چاہئے کہ ہمیں درحقیقت کتنی مقدار میں بجلی درکار ہے ۔مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف بھی سسٹم میں دس ہزار میگا واٹ بجلی کی شمولیت کا موقف دہرا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے جانے تک کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں تھی ،اب اگر بجلی پوری نہیں تو ذمہ دار نگراں حکومت ہے۔ منگل کے روز وزیر اعظم ناصر الملک کو دی گئی بریفنگ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ2013 میں ملک میں 18753میگا واٹ بجلی دستیاب تھی، جبکہ اس وقت 28704میگا واٹ بجلی دستیاب ہے۔ 10ہزار میگا واٹ کے اس اضافے سے یقیناً فرق پڑنا چاہئے تھا مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موسمی حالات اور پانی کی کم سپلائی کی وجہ سے اس سال مئی میں پن بجلی کی پیداوار 3090میگا واٹ کم رہی۔ اس اعتبار سے امید کی جا سکتی ہے کہ پہاڑوں پر برف پگھلنے اور دریائوں میں پانی کا بہائو بڑھنے کے بعد بجلی کی پیداوار میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ عام صارف کا تاثر یہ ہے کہ ملک میں بجلی تو دستیاب ہے مگر انتظامی خرابیوں پر قابو پانے کی بجائے گمراہ کن دعوے کئے جاتے رہے ہیں۔ ان سوالات کا جواب بہر طور دیا جانا چاہئے کہ کیا مطلوب مقدار میں برقی فراہمی یقینی بنانے کیلئے گیس دستیاب نہیں؟ کیا پن بجلی کے حصول میں کسی قسم کی مشکلات حائل ہیں؟ کیا آئی پی پی پیز کو ادا کرنے کے لئے مناسب فنڈز دستیاب ہیں؟کیا کچھ ایسی دشواریاں حائل ہیں جن کی بنا پر برقی پیداوار گنجائش کے مطابق حاصل نہیں کی جا رہی ہے ؟ ان تمام حقائق سے عوام کو آگاہ کیا جانا چاہئے تاکہ اگر برقی پیداوار اور ترسیل میں کسی قسم کی دشواریاں اب بھی موجود ہیں تو حالات کے بہتر ہونے کے وقت تک انتظار کے لئےعوام خود کو ذہنی طور پر تیار کر سکیں۔ حکومت کو بھی معاملات کے تمام پہلوئوں اور دشواریوں سے پوری طرح آ ٓگاہ رہنا چاہئے تاکہ خرابی کی اصل وجہ یا وجوہ دور کرنے میں غلطی کا امکان نہ رہے۔

تازہ ترین