• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں تو یہ اچنبھے کی بات نہیں کہ کسی سیاستدان سے متعلق کوئی کتاب شائع ہو اور وہ تباہ و برباد ہو جائے کیونکہ وہاں کتب بینی کا رجحان ہے مگر پاکستان میں چند روز پہلے تک مجھے یہ بات نہایت فضول محسوس ہوتی تھی ۔وجہ صاف ظاہر ہے ،تہمینہ دُرانی جو اب تہمینہ شہباز ہیں انہوں نے اپنے سابقہ شوہر غلام مصطفی کھر کے بارے میں ’’مائی فیوڈل لارڈــ‘‘ نامی کتاب لکھی جو ــ’’میڈا سائیں ‘‘ کے نام سے اردو میں بھی شائع ہوئی مگر کوئی ہاہاکار نہیں مچی ۔لیکن پہلے جنرل (ر)اسد درانی اور اب ریحام خان کی مبینہ کتاب میں جس قدر دلچسپی لی جارہی ہے اس سے یہ تاثر غلط محسوس ہوتا نظر آرہا ہے کہ ہمارے ہاں لوگ کتابیں نہیں پڑھتے ۔یہ شاید دنیا کی پہلی کتاب ہو گی جس نے شائع ہونے سے پہلے ہی دھوم مچا دی ۔فوادچوہدری کا خیال ہے کہ اس کتاب کی اشاعت پری پول رگنگ یعنی قبل از انتخابات دھاندلی ہے اور اس کے پیچھے رائے ونڈ نیٹ ورک ہے ۔فواد چوہدری یہ بھی فرماتے ہیں کہ ریحام خان کا کریکٹر ڈھیلا ہے اور وہ فحش باتیں اپنے بچوں سے لکھواتی رہی ہیں۔ طرفہ تماشا دیکھیں جب ریحام خان نے عمران خان سے شادی کی تو تب یوتھیئے ان کے ماضی پر سوال اٹھانے والوں کو ماں بہن کی گالیاں دیاکرتے تھے اور اب اسی مادرملت کی باجماعت کردار کشی کی جا رہی ہے۔ اگر فواد چوہدری اور ان کے ہمنوائوں کی یہ بات درست تسلیم کر لی جائے کہ ریحام خان مسلم لیگ(ن) کی ایجنٹ ہیں اور ان کے ذریعے عمران خان کی کردار کشی کی جا رہی ہے تو پھر یہ کہانی بہت دلچسپ ہو جاتی ہے۔
فسانہ گھڑنے کو کہا جا سکتا ہے کہ ریحام خان کا تعلق مانسہرہ سے ہے اور یہ علاقہ ہمیشہ سے مسلم لیگ (ن) کا گڑھ رہا ہے اس لئے اس سازش کا کھرا رائے ونڈ کی طرف جاتا ہے ۔ریحام کے والد ڈاکٹر نیئر رمضان 1960ء میں لیبیا منتقل ہو گئے جہاں ان کی پیدائش ہوئی۔1993ء میںگریجوایشن کے بعد ریحام کی شادی اوائل عمری میں ہی ان کے کزن ڈاکٹراعجاز رحمان سے ہو گئی اور وہ لندن منتقل ہو گئیں ۔ طفلان انقلاب کی سوچ مستعار لیکر فرض کریں تو کہانی کچھ یوں ہے کہ دونوں ہنسی خوشی رہ رہے تھے ،چھوٹی موٹی لڑائیاں اور معمولی نوعیت کے جھگڑے تو ہر گھر میں ہوتے ہیں مگر مجموعی طور پر ان دونوں کی ازدواجی زندگی خوشگوار تھی ۔یہ وہ دن تھے جب شریف خاندان سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا اور 2005ء میں حسن نواز کے علاج کے پیش نظر انہیں لندن منتقل ہونے کی اجازت دی گئی ۔نوازشریف بظاہر بہت سادہ آدمی نظر آتے ہیں مگر درحقیقت بہت کایاں اور دوراندیش ہیں ۔انہیںتب ہی یہ اِدراک ہو گیا تھا کہ مستقبل میں جب وہ جلاوطنی ختم ہونے پر پاکستان واپس پہنچیں گے اور انتخابات جیت کر اقتدار میں آئیں گے تو عمران خان ان کے لئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے اس لئے نوازشریف نے شہباز شریف کو یہ ٹاسک دیا کہ جمائما سے طلاق کے بعد عمران خان کی زندگی میں کسی ایسی خاتون کو داخل کرو جو اس کا سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دے ۔ظاہر ہے میاں بیوی کا رشتہ ایسا ہے کہ اس میں کوئی پردہ نہیں ہوتا ۔ یہ بھی فرض کرنا پڑے گا کہ شہباز شریف نے خفیہ طور پر ایک اسٹڈی کروائی کہ کس طرح کی خاتون کو اس منصوبے کے لئے بروئے کار لایا جا سکتا ہے اور اس اسٹڈی کے نتیجے میں انکشاف ہوا کہ مانسہرہ کا پس منظر رکھنے والی ریحام خان میں تمام مطلوبہ اوصاف بدرجہ اتم موجود ہیں۔ چنانچہ شہباز شریف نے ریحام خان کو اپنے کزن ڈاکٹر اعجاز رحمان سے طلاق لینے پر اکسایا ۔2005ء میں ان دونوں کے درمیان علیحدگی ہو گئی ۔شریف برادران چونکہ بہت منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اس لئے جلد بازی کے قائل نہیں بلکہ حالات سازگار ہونے کے لئے سالہا سال انتظار کرتے ہیں اور لوہا گرم ہونے پر وار کرتے ہیں۔ ریحام خان کی شخصیت مزید نکھارنے کی غرض سے اس کی برطانوی نشریاتی ادارے میں ملازمت کا بندوبست کیا گیا ۔جب ریحام خان نے ’’ویدر گرل ‘‘ کے طور پر شہرت حاصل کر لی تو اس دل موہ لینے والی شخصیت کو منصوبے کے عین مطابق پاکستان لایا گیا اور یہاں الیکٹرانک میڈیا میں بطور اینکر متعارف کروایا گیا کیونکہ عمران خان فیمیل اینکر ز پر خاصے مہربان تھے اور ان کی زندگی میں داخل ہونے کا یہی سب سے آسان راستہ تھا ۔
عمران خان کی ذاتی زندگی کے حوالے سے کئی قصے اور کہانیاں زبان زدعام تھیں ۔عمران خان کی مالی کرپشن کی بات ہوتی تو ان کے مخالفین بھی ماننے سے انکار کر دیتے لیکن اخلاقی حوالے سے کوئی جھوٹی بات بھی بتائی جاتی تو ان کے چاہنے والے اختلاف کئے بغیر ہنسنے لگتے کیونکہ انہیں بھی یقین تھا کہ اس حوالے سے کپتان کسی بھی حد تک جا سکتا ہے مگر یہ سب سینہ گزٹ باتیں تھیں ،کسی کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ریحام خان کو بنی گالا میں پلانٹ کیا گیا تاکہ عمران خان کی ذاتی زندگی کے حوالے سے ثبوت جمع کئے جا سکیں ۔ریحام خان مختلف سیاستدانوں کے انٹرویو کرتی رہیںمگر ان کا اصل ہدف عمران خان کو اپنے روبرو کرنا تھا اور وہ ایک دن اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گئیں۔ انٹرویو کے دوران ہی عمران خان ریحام خان پر دل و جان سے فدا ہو گئے اور کیمرہ آف ہونے پر بے اختیار کہہ اٹھے ’’بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ‘‘انٹرویو کے بعد بات چل نکلی اور عمران خان یہ سوچے بغیر ریحام کی زلف ِ گرہ گیر کے اسیر ہوتے چلے گئے کہ یہ ان کے سیاسی مخالفین کی کوئی چال ہو سکتی ہے۔دھرنے کے دنوں میں جب عمران خان اپنی سیاسی زندگی کی سب سے خطرناک مہم جوئی پر نکلے ہوئے تھے تو مسلم لیگ (ن) نے ریحام خان کے ذریعے بازی پلٹ دی۔ چند ہی روز میں دونوں کی شادی ہو گئی ، عمران خان کا خیال تھا کہ اس رشتے کا اعلان کسی مناسب وقت پر کیا جائے گا لیکن مسلم لیگ (ن) نے ایک اور گھٹیا چال چلتے ہوئے عمران خان کو تب اس شادی کااعلان کرنے پر مجبور کیا جب سانحہ اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچوں کی قبروں کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی تھی اور پھر ستم بالائے ستم یہ کہ بنی گالا میں فوٹو شوٹ کی تصویریں بھی میڈیا کو جاری کر دیں ۔ ایک دن جہانگیر ترین نے عمران خان کو دبے لفظوں میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ ریحام خان ہمارے سیاسی مخالفین کی ایجنٹ ہیں مگر کپتان نے بہت ناراضگی کا اظہار کیا اور علامتی طور پر ایک دن کے لئے ترین کے ہیلی کاپٹر کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر دیا۔عمران خان کا خیال تھا کہ ریحام خان شریک زندگی بن کر ان کے دکھ سکھ بانٹ سکتی ہیں مگر وہ تو منصوبے کے عین مطابق ایک دن عمران خان کا بلیک بیری سیٹ اور دیگر ثبوت لیکر رفو چکر ہو گئیں اور اب اپنی کتاب کے ذریعے ان کی سیاسی زندگی تباہ کرنا چاہتی ہیں ۔
اگریہ کہانی درست ہے ،شریف برادران واقعی اتنے بڑے منصوبہ ساز ہیں اور عمران خان اس قدر بے وقوف ہیںکہ کوئی خاتون اس عمر میں بھی انہیں چکمہ دے سکتی ہے تو پھر ان کی رہبری پر فخر کرنے والوں کے حق میں دعا ہی کی جا سکتی ہے۔اور کتاب آنے سے پہلے ہی تحریک انصاف کی صفوں میں جو کھلبلی اور ہڑبونگ دکھائی دے رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریحام لیکس پانامہ لیکس کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک اور تباہ کن ثابت ہو گی ۔

تازہ ترین