• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایم اے او کالج میں کوئی ایک قابل ذکر شخصیت نہیں تھی، ایک سے کہیں زیادہ تھیں لیکن اگر ان کے تذکرے میں زیادہ پڑگیا تو گفتگو کا مزا جاتا رہے گا، لہٰذا چلتے چلتے ان کا ذکر آتا رہے گا۔ لاہوریوں کے علم میں یہ بات یقیناً ہوگی کہ ایم اے او کالج کے عین سامنے لیڈی میکلیگن کالج تھااور کسی زمانے میں ایک بہت بڑا رائونڈ ابائوٹ بھی تھا۔ کالج میں مخلوط تعلیم کہاں سے ہونا تھی، کالج کے سامنے سے کوئی لڑکی گزر جاتی تو لڑکوں میں ایک کہرام سا مچ جاتا۔ لڑکے کالج کے گیٹ پر کھڑے رہتے اور ان کی نظر یں سامنے لیڈی میکلیگن کالج کے گیٹ پر ہوتیں۔ یہ میں دوسرے لڑکوں کی بات کررہا ہوں، اگر میں بھی وہاں کھڑا ہوتا تھا تو میں تو دھوپ سینکنے کی غرض سے کھڑا ہوتا تھا، ورنہ میرا وہاں کیا کام تھا۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ اس زمانے میں بڑے بڑے لوگ سائیکل پر یا بسوں میں سفر کرتے تھے۔ خواہ وہ گورنمنٹ کالج کے ہردلعزیز پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد ہوں یا ہمارے ایم اے او کالج کے مشہور زمانہ پرنسپل ڈاکٹر دلاور حسین، یہ دونوں سائیکل پر کالج آتے۔ ہم لڑکے کالج کے گیٹ پر کھڑے ہوتے(’’اپنے کھڑے ہونے کی وضاحت میں پہلے کرچکا ہوں‘‘) تو لحیم و شحیم ڈاکٹر دلاور حسین سائیکل پر کالج کی طرف آتے دکھائی دیتے، ان کے چہرے پر تبسم ہوتا اور وہ دور ہی سے کہتے ’’میرے بچے ماشاء اللہ صبح صبح کالج پہنچے ہوئے ہیں‘‘ چنانچہ ان کی محبت بھرے الفاظ سن کر ہم ان کے قریب آنے کا انتظار کرتے اور جونہی وہ قریب پہنچتے وہ جیب سے کاغذ قلم نکالتے اور گرجتے ہوئے کہتے’’اوئے بدمعاشو!اپنا رول نمبر اور کلاس بتائو‘‘ جس پر ہم وہاں سے ’’دڑکی‘‘ لگادیتے۔
ایک دفعہ لیڈی میکلیگن کی پرنسپل ڈاکٹر صاحب کے آفس میں آئیں اور شکایت کی کہ’’ آپ کے لڑکے میری لڑکیوں کو چھیڑتے ہیں‘‘دلاور صاحب نے جواب نہیں دیا اور اپنا کام کرتے رہے، تھوڑی دیر بعد پھر پرنسپل نے اپنے الفاظ دہرائے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا’’ابھی عرض کرتا ہوں‘‘ پندرہ بیس منٹ گزر گئے، مگر جب جواب نہ آیا تو پرنسپل نے کہا’’ٹھیک ہے اگر آپ جواب نہیں دینا چاہتے تو میں چلتی ہوں‘‘۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا’’بہن آپ تشریف رکھیں، میں جواب دیتا ہوں۔ آپ تقریباً آدھے گھنٹے سے اکیلے کمرے میں میرے ساتھ بیٹھی ہیں، میں نے آپ کو چھیڑا ہے؟محترمہ جب تک لڑکی کی مرضی نہ ہو لڑکا کبھی نہیں چھیڑتا اور میرے برخوردار تو ایسے ہیں ہی نہیں ‘‘ اس کے بعد راوی خاموش ہے۔ میں آپ کو یہ بتانا بھول گیا تھا کہ ڈاکٹر دلاور حسین متحدہ ہندوستان کی کرکٹ ٹیم کے نہ صرف رکن تھے بلکہ بہت عالم فاضل شخصیت بھی تھے، مگر ستم ظریفی میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، یہ ایک علیحدہ باب ہے جس کی تفصیل آگے چل کر بیان ہوگی اور ایک دلچسپ بات جس کالج کے لڑکے جنس مخالف کی شکل دیکھتے کو ترستے تھے آج وہاں مخلوط تعلیم ہے، ایم اے کی کلاسیں ہورہی ہیں اور سینکڑوں طالبات تعلیم حاصل کررہی ہیں مگر مجال ہے کبھی کسی لڑکی کو کسی لڑکے سے شکایت پیدا ہوئی ہو، بلکہ کسی شرمیلے لڑکے کو کسی لڑکی سے بھی کبھی کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔
کالج چونکہ’’بھرے بازار‘‘ میں واقع تھا، اسے چار طرف سے سڑکیں لگتی تھیں ، بسوں اور ویگنوں کی بھرمار ہوتی تھی، چنانچہ کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی رونما ہوتا، کوئی معمولی سا لڑائی جھگڑا بھی ہوتا تو الزام سارے کالج پر لگتا اور یوں دیال سنگھ کالج کے بعد یہ دوسرا کالج تھا جو بہت بدنام تھا۔ ایک دفعہ مجھے ممتاز دانشور اعجاز بٹالوی کا ایک رقعہ داخلے کے خواہشمند طالبعلم کی وساطت سے ملا۔ اس مختصر رقعے کی عبارت یہ تھی’’محترم قاسمی صاحب، حامل رقعہ ، ہذا کا خیال ہے کہ انسان کو علم ضرور حاصل کرنا چاہئے، خواہ اس کے لئے ایم اے او کالج ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘ ۔ ظاہر ہے اس کے بعد مجھ پر لازم ہوگیا تھا کہ میں اس طالبعلم کو لاہور میں واقع چین میں داخلہ لازمی طور پر دیتا۔ ایک بہت دلچسپ واقعہ ہے مگر بہت نازک سا ہے۔ ہمارے انگریزی کے پروفیسر اعجاز دبلے پتلے تھے اور وہ ثابت کرنے میں لگے رہتے تھے کہ ان کے دبلے پتلے جسم پر نہ جائیں، ان کے اندر ایک بہت طاقتور جسم ہے، چنانچہ ثبوت کے طور پر وہ کپکپاہٹ طاری کردینے والے موسم سرما میں کالج کے گیٹ پر کھڑے ہوجاتے اور ہر آنے والے کولیگ سے ہاتھ ملاتے۔ ہاتھ ملانا شاید بیان کا مناسب پیرا یہ نہیں ، بلکہ یہ کہا زیادہ مناسب ہے کہ اس کے ہاتھوں کی بےخبر انگلیوں کو اپنی انگلیوں میں اس بری طرح شکنجے میں کستے کہ ان کے کولیگ بمشکل اپنی تکلیف کے اظہار پر قابو پاتے۔ ایک دفعہ صوفی تبسم کے بڑے صاحبزادے اور طنز و مزاح کے زبردست ڈرامہ نگار صوفی نثار کی بدقسمتی کہ وہ کالج کسی کام کے لئے آئے ان کی پہلی ملاقات پروفیسر اعجاز صاحب سے ہوئی جو’’ڈیوٹی‘‘ پر کھڑے تھے چنانچہ اعجاز صاحب نے صوفی نثار سے پوری ’’گرم جوشی‘‘ سے ہاتھ ملایا، اس کے بعد صوفی نثار کتنی دیر تک اپنی انگلیوں پر اپنے گرم سانسوں کا’’دم‘‘ کرتے رہے جب کچھ دیر بعد انگلیوں کو ہوش آیا تو انہوں نے اعجاز صاحب کو مخاطب کیا اور کہا’’اعجاز صاحب، میں آپ سے عمر میں بڑا ہوں، اس لئے ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں‘‘ اعجاز صاحب نے بہت مؤدب لہجے میں کہا’’کیوں نہیں، کیوں نہیں، فرمائیے‘‘ صوفی نثار نے کہا’’مشورہ صرف یہ ہے کہ آپ اس ہاتھ سے کبھی کوئی نازک کام نہ کیجئےگا‘‘ میں اس مشورے میں چھپی تہہ در تہہ تفصیلات میں نہیں جائوں گا کہ اس میں کچھ نازک مراحل بھی آتے ہیں۔(جاری)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین