• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ پنجاب میں دس سالہ اقتدار مکمل کرچکی ہے۔نامساعد حالات اور آزمائشی صورتحال کے باوجود مسلم لیگ ن کے اکابرین پرامید نظر آتے ہیں۔مسلم لیگ ن عام انتخابات میں تاریخی کامیابی کی توقع لگائے بیٹھی ہے۔عوامی رائے کا کوئی بھی سروے دیکھ لیں،ہر طرف سے مسلم لیگ ن کو فیورٹ قرار دیا جارہا ہے۔بین الاقوامی جریدے دی اکانومسٹ کو دنیا میں مستند ترین میگزین سمجھا جاتا ہے۔دی اکانومسٹ جیسا جریدہ کبھی بھی کسی سیاسی جماعت کی خاطر اپنی ساکھ داؤ پر نہیں لگا سکتا۔مگر حالیہ حالات کے باوجود دی اکانومسٹ جیسے ادارے نے بھی مسلم لیگ ن کو فیورٹ قرار دیا ہے۔یو این کی رپورٹ ہو یا پھر گیلپ سروے ہر کوئی مسلم لیگ ن کو ہی سب سے مضبوط سیاسی جماعت قرار دے رہا ہے۔سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار حیران ہیں کہ پاناما کی ڈیڑھ سالہ مہم،متواتر دھرنے،نیب کیسز،تاحیات نااہلی اور مضبوط منتخب نمائندوں کا پارٹی کو خیر باد کہہ جانے کے باوجود مسلم لیگ ن کی مقبولیت کا گراف کم ہوکر نہیں دے رہا۔جتنا مسلم لیگ ن کے خلاف فیصلہ آتا ہے عوامی مقبولیت میں اسی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ایسی کونسی وجہ ہے کہ پانچ سالہ اقتدار مکمل ہوچکا ہے،حکومت کے دوران لوگ ناراض بھی ہوتے ہیں،فطری بات ہے کہ لوگ ہر آنیوالے کو خوش آمدید اور جانیوالے سے منہ موڑتے ہیں۔مگر ملکی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اتنی کوششوں کے باوجود ایک سیاسی جماعت کمزور ہونے کا نام نہیں لے رہی۔آج پوری کوششوں کے باوجود مسلم لیگ ن اپنی جگہ پر کھڑی ہے تو اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ شہباز شریف کی کمال کارکردگی ہے۔شہباز شریف مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کے درمیان اپنی انفرادیت رکھتے ہیں۔
اس خاکسار نے ہمیشہ حکومت وقت پر کڑی تنقید کی ہے۔پنجاب حکومت کے کئی منصوبے ایسے ہیں جن پر برملا اپنی تنقیدی رائے دی ۔مگر حق بات کہنے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ترقی اور شفافیت کے جو بھی معیار مقرر کرلیں ،شہباز شریف کو صدیوں یاد رکھا جائے گا۔شہباز شریف کی ذات میں بہت خامیاں ہوں گی۔عین ممکن ہے کہ بہت سے منصوبوں سے حوصلہ افزا نتائج بھی حاصل نہ ہوسکے ہوں۔مگر ہم میں سے کوئی بھی اصحاب کرام ؓ کے اوصاف نہیں رکھتا۔ اسلئے ہمیں اپنے معروضی حالات دیکھ کر موازنہ کرنا چاہئے ۔شہباز شریف کا پاکستان کے کسی بھی سیاستدان سے موازنہ کرلیں۔آج عمران خان اور آصف زرداری بھی جب لاہور یا پنجاب کے دوسرے کسی شہر جاتے ہونگے تو دل میں ضرور اس مرد طرح دار کی کارکردگی کا اعتراف کرتے ہونگے۔چند دن پہلے شہباز شریف نے اپنے ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کیا کہ انہوں نے دس سال کے دوران اپنی سرکاری گاڑی کا پٹرول بھی ذات جیب سے ڈلوایا ہے۔قارئین کو شاید یہ بات غیر معمولی لگی ہو مگر آج ایک سچا واقعہ قارئین کے گوش گزار کردیتا ہوں۔چند سال قبل خاکسار نے مسلم لیگ ن کی حکومت کے حوالے سے چند تحقیقاتی خبریں نشر کیں۔جس میں کچھ بیوروکریٹس کی وجہ سے بے ضابطگیوں کی شکایات سامنے آئی تھیں۔اسی دوران مجھے ذاتی کام کے سلسلے میں یورپ جانا پڑا۔میں یورپ کے حسین ملک سوئٹزرلینڈ میں موجود تھا ،شام کی خوبصورتی کا انٹر لاکن میں بیٹھ کر لطف اٹھا رہا تھا۔اس دوران پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف سے رابطہ ہوگیا۔شہباز شریف نے پوچھا کہ آپ کہاں ہیں؟ اس خاکسار نے اپنی لوکیشن کے بارے میں تفصیل سے بتانا شروع کیا تو شہباز شریف مجھے اس علاقے کے بارے میں ایسے سمجھانے لگے جیسے لاہور چوبرجی کی کوئی گلی ہو۔بعد میں پتہ چلا کہ یورپ کے تمام مقبول شہر شہباز شریف نے اپنی جوانی میں بزنس ٹرپس کے دوران بہت گھومے ہیں۔بہر حال شہباز شریف نے بتایا کہ وہ کل صبح لندن آرہے ہیں ،آپ بھی وہاں آجائیں۔خاکسار صبح پہلی فلائٹ سے لندن پہنچ گیا۔شہباز شریف سے ہوٹل کی لابی میں ملاقات ہوئی۔اس دوران شہباز شریف کا پی ایس او سمیر سید نمودار ہوا۔شہباز شریف نے جیب سے کوئی کارڈ نکالا اور اپنے پی ایس او کو دیتے ہوئے کہا کہ میرا تمام خرچہ اس کارڈ سے ادا کرنا ہے۔مجھے لگا کہ شاید شہباز شریف نے کوئی سرکاری کریڈٹ کارڈ دیا ہے۔شہباز شریف لابی سے باہر نکلے اور پاکستانی ہائی کمشنر کی گاڑی میں بیٹھ کر میٹنگ کیلئے روانہ ہوگئے۔میں نے میٹنگ کے بعد سمیر سید سے کارڈ کی رو داد پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ شہباز شریف جب بھی کسی سرکاری دورے پر ملک سے باہر جاتے ہیں تو اس خرچ کی ادائیگی اپنے ذاتی کریڈٹ کارڈ سے کرتے ہیں اور اس حوالے سے انکی سخت ہدایت موجود ہے کہ سرکار کا ایک پیسہ بھی میری ذات پر خرچ نہیں ہونا چاہئے۔لندن کے اس ٹرپ میں مسلم لیگ ن کو خیر باد کہنے والے خسرو بختیار،ایڈیشنل آئی جی رائے طاہراور چیئرمین پی این ڈی جہانزیب خان سمیت متعدد لوگ شامل تھے ۔شاید کچھ لوگ بالا حقائق کی تصدیق بھی کریں گے۔
شہبا زشریف مستقبل میں کسی عہدے پر رہیں نہ رہیں،مگر انکی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔گڈ گورننس اور میرٹ کے حوالے سے انکے معیار آنیوالوں کیلئے مثال ہونگے۔آج اگر ملک میں لوڈشیڈنگ پر قابو پایا گیا ہے اور ہم سب سخت گرمی میں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر مزے لوٹتے ہیں تو اس کا سہرا بھی شہباز شریف کو جاتا ہے کہ اس نے بجلی کے نئے منصوبے لگائے۔مگر افسوس تب ہوتا ہے جب ہم کسی کو اسکے اچھے کام پر شاباش دیتے ہوئے بھی کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔شہباز شریف کو شاید تعریف کی ضرورت نہ ہو مگر ناجائز تنقید کرنا بھی نامناسب ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین