• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آبادی کے اعتبار سے پاکستان کا شمار دنیا میں کم و بیش چھٹے درجے پر ہے تاہم اس میں تیزی سے اضافے کے باعث پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا گنجان آباد ملک بننے کے لئے پر تول رہا ہے۔ آبادی میں اضافے کے دوررس معاشی اور سیاسی اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن پھر بھی یہ اہم ترین مسئلہ نہ تو حکومت کی پالیسی ترجیحات میں جگہ حاصل کر پاتا ہے اور نہ ہی ملک میں ہونے والے سیاسی اور میڈیا مباحثوں کی زینت بنتا ہے۔ جب تک اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا اس وقت تک آبادی میں تبدیلی، معاشی جمود اور جنسی ناہمواری اور تعلیم کے درمیان موجود نقطہ انقطاع پاکستان کی بدحالی کا سامان لئے رہے گا بلکہ آنے والی دہائیوں میں یہ سماجی ٹوٹ پھوٹ کا بھی سبب بنے گا۔ ملک میں1998ء کے بعد مردم شماری نہیں کرائی گئی جبکہ اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق2020ء میں پاکستان کی آبادی20کروڑ پچاس لاکھ سے زائد اور2030ء میں24کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ نہ صرف پاکستان کی آبادی دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے بلکہ اس کا آبادیاتی خاکہ بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ اگلے بیس سالوں میں ملازمت پیشہ افراد کی تعداد دگنی ہونے کی توقع ہے۔ صرف نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر تقریباً30کروڑ60لاکھ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے کیوں کہ قریباً نصف آبادی ناخواندہ ہے۔ اسکول جانے کی عمر کے ڈھائی کڑور بچوں کو تعلیم تک رسائی حاصل نہیں۔ مطلب یہ کہ ناخواندگی لاکھوں نوجوان افراد کے روزگار کے حصول میں آڑے آئے گی جن میں66فی صد افراد تیس سال سے کم عمر کے ہیں اور یہ افراد معمولی محنت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ غیر تعلیم یافتہ یا قلیل ملازمتی آبادی اورملازمتوں کے یکساں موقعوں کی عدم موجودگی میں ملک کا مستقبل تابناک نہیں ہو سکتا۔ یہ سراسر زیادتی ہے۔ ان نوجوانوں کو تعلیم اور ملازمتیں فراہم کی جانی چاہئیں کیوں کہ اس کے نتیجے میں ملکی آبادیاتی ڈھانچے میں آنے والی تبدیلیاں پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کردیں گی۔ اس موضوع پر سامنے آنے والی ایک نئی کتاب کا پیغام بھی یہی ہے۔ مذکورہ کتاب پاکستان سمیت مسلم دنیا میں رونما ہونے والی آبادیاتی تغیر کا ایک جائزہ ہے جو مسلمان اقوام کے وسیع تجربے اور تقابلی جائزے پر محیط ہے اور جس میں قیمتی اسباق بھی ہیں۔ ’پاپولیشن ڈائنے مکس ان مسلم کنٹریز‘ نامی اس کتاب کو سوئٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے والے دو اسکالروں ہانس گروتھ اور الفونسو سوزا پوزا نے ترتیب دیا ہے۔ یہ کتاب مختلف مکاتب فکر کے تدریسی گروہوں کو یکجا کرکے اس بات کا احاطہ کرتی ہے کہ مسلم اقوام میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کے مستقبل میں کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس بات پر ضرور سوال کیا جاسکتا ہے کہ اسلامی معاشروں میں گنجان آبادی کا رجحان فطری ہے یا وہاں کی سماجی و معاشی تبدیلیاں، ثقافتی طور طریقے یا خطے کا مقام اسے سمجھنے میں زیادہ معاون ثابت ہوسکتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی مشترک پہلو موجود ہیں مثلاً نوجوانوں کی کثیر تعداد اور خواتین کا محدود کردار ایک حقیقت ہے۔ مذکورہ کتاب اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ مسلمان ممالک میں سماجی ومعاشی ترقی کی رفتار اور فیملی پلاننگ کی باضابطہ پالیسیوں کی بدولت افزائش نسل تیزی سے نیچے کی طرف جاسکتی ہے۔ کتاب کے مضامین وضاحت کرتے ہیں کہ کس طرح ان مسلمان ملکوں میں آبادیاتی تغیر وقوع پذیر ہو رہا ہے جہاں پیدائش اور اموات کی شرح گر رہی ہے اور آبادی کی کثیر تعداد معاشی غلامی سے نکل کر خود انحصاری کی راہ پر گامزن ہے۔ لیکن یہ ناگزیر نہیں کہ ملازمت کے قابل افراد کو معقول تعداد میں ملازمتوں کی فراہمی کا امر آبادیاتی ثمر ہی ثابت ہو۔ ایران کے حوالے سے لکھا جانے والا مضمون اسلامی ملک کی ایک ایسی نظیر فراہم کرتا ہے جہاں کم افرائش نسل، لڑکوں اور لڑکیوں میں یکساں تعلیم کے وسیع موقعوں کی فراہمی اور ملازمتوں میں خواتین کی زیادہ نمائندگی سے کامیاب آبادیاتی تغیر کا حصول ممکن ہوسکا۔ ایرانی معیشت کے بہت سے شعبوں میں خواتین کی نمائندگی ہی ملک میں آبادیاتی ثمر کی داغ بیل ڈال رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں آبادیاتی تبدیلی اور سیاسی تبدیلی کے ربط پر لکھی جانے والی تحریر اپنے اندر اہم بصیرت سموئے ہوئے ہے۔ کرسچن بلکن اسٹورفر ایسی کئی ساختیاتی ہم آہنگیوں کی نشاندہی کرتا ہے جو ’عرب اسپرنگ تحریک‘ کے لئے ساز گار ثابت ہوئیں اور اس کے مستقبل کا تعین بھی کریں گی۔ ’ان میں آبادیاتی تحرکات، لیبر مارکیٹ میں ایک مشکل صورتحال، بالخصوص خواتین پر اثرانداز ہونے والے سماجی ڈھانچے اور مذہبی قائدین کا غیر یقینی موقف جیسے تمام عوامل آخری نتیجے کے لئے بہت معنی رکھتے ہیں‘۔ اس مشکل صورتحال سے نمٹنے کے لئے سیاسی قائدین کو میدان عمل میں آ کر ساختیاتی حقائق سمجھنا ہوں گے اور متعلقہ اصلاحات کا نفاذ کرنا ہوگا۔ جمہوری تبدیلی کے لئے کوئی ’ان ہونا‘ حل میسر نہیں۔ ہر ملک کو اپنا راستہ خود تلاش کرنا پڑے گا اور شاید ترکی کو اس ضمن میں ایک ماڈل تصور کیا جا سکتا ہے۔گیون جونز نے اپنے چیپٹر میں واضح طور پر ان اجزا کا ذکر کیا ہے جن کی مدد سے آبادی کے ثمرات سے مستفید ہوا جا سکتا ہے۔ گیون کے مطابق ’کام کرنے کے قابل نوجوان تیار کرنے کے لئے تعلیم کو فروغ دیا جائے اور روزگار کے موقعوں میں بھی وسعت لائی جائے‘۔ اگر ان دو عوامل کی فراہمی ممکن نہ ہوسکی تو پھر آبادیاتی ثمر نہیں بلکہ سانحات ہی مقدر ہوں گے۔ پاکستان کی آبادی کے حوالے سے زیبا ستھار کی تحریر فطری طور پر دلچسپی کا باعث ہوگی۔ زیباستھار پاپولیشن کونسل کی کنٹر ی ڈائریکٹر ہیں اور آبادیاتی علوم میں مہارت رکھنے والی پاکستان کی صف اوّل کی خاتون ہیں۔ زیبا کی تحریر کے مطابق پاکستان آبادیاتی تغیر کے وسط میں کھڑا ہے، یہاں شرح پیدائش میں تنزلی ہمارے معاشرے کی عمر کی ساخت کو تبدیل کر رہی ہے۔ اب یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ آیا اس رونما ہونے والی تبدیلی سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے یا اس موقع کو ضائع کر دیا جاتا ہے۔ زیبا کے مطابق ’آبادی سے حاصل ہونے والے فوائد سے پاکستان کی ترقی کو جلا مل سکتی ہے۔ آبادی کو ایک نعمت کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے اور خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب کہ پاکستان کی لڑکھڑاتی معیشت کو اس سے واقعتاً فائدہ حاصل ہونے کی توقع ہو‘۔ زیبا نشاندہی کرتی ہیں کہ مشرقی ایشیاء کے مقابلے میں پاکستانی معاشرے میں آبادیاتی تغیر میں ’تاخیر‘ اور غیر موثر افرادی قوت عالمی معیشت میں کامیابی سے نبردآزما ہونے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہاں ترقی کے مواقع نہیں ہیں۔ یہاں ترقی کے مواقع ضرور ہیں۔ پچھلی دہائی سے اب تک شرح پیدائش میں تنزلی فیملی پلاننگ کی پالیسی کے باعث نہیں بلکہ معاشی مجبوریوں اور زیادہ عمر میں شادیوں کے حالیہ رجحان میں اضافے کی وجہ سے وقوع پذیر ہوئی۔ اس کی بدولت آبادی کی عمر کی ڈھانچے میں تبدیلی آئی اور خواتین کی معاشی میدان میں شمولیت کی شرح14سے22فی صد تک بڑھ گئی۔ پاکستان کو اگلے20سالوں میں کام کرنے کی عمر کا جم غفیر دستیاب ہوگا۔ ستھار کے مطابق نوجوانوں سے لے کر وسط عمر کے افراد تک کی آبادیاتی تبدیلی ملک کا مستقبل متعین کرے گی۔ جیسا کہ آج کل25سال سے کم عمر کے نوجوان ماضی کی نسبت سب سے زیادہ ملازمتوں کی جانب گامزن ہو رہے ہیں۔ یہ چیز بھی ایک بڑا چیلنج ہے اورموجودہ حالات کے پیش نظر حالیہ تناظر اطمینان بخش نہیں ہے۔ معاشی ترقی کی شرح اور ملازمت کے حصول کی شرح کے درمیان خلیج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ معیشت کی ترقی کی رفتار دو سے تین فی صد سالانہ ہے جب کہ ملازمت کے حصول کے متقاضی افراد کی تعداد چھ فیصد سالانہ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے اور یہ خلا بہت وسیع ہے۔ ملکی ترقی کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے کام کرنے کے قابل عمر کے افراد کی آبادی اور دستیاب ملازمتوں میں پائی جانے والی خلیج کو ختم کرنا ہوگا۔2030ء میں ملازمتوں اور ان کے حصول میں مشغول افراد کی تعداد8کروڑ تک جا پہنچے گی جب کہ اس وقت تک ملک میں کام کرنے والے افراد کی آبادی16کروڑ سے تجاوز کرجائے گی۔ اگر پاکستا ن کو آبادیاتی تغیر کے فوائد حاصل کرنے ہیں تو پھر معاشی ترقی کے تسلسل کے ذریعے لاکھوں ملازمتیں پیدا کرنی ہوں گی۔ تعلیم کی فراہمی اور معیار کو بہتر بنا کر پرائمری سطح پر ہر بچے کی اسکول سے وابستگی/انرولمنٹ یقینی بنانا ہوگی۔ اس کے ساتھ سیکنڈری اور یونیورسٹی کی سطح پر بھی طالب علموں کی انرولمنٹ کو وسعت دینا ہوگی اور ٹیکنیکل ٹریننگ اور اسکل ڈیولپمنٹ میں بھی سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ تعلیم نسواں کے موقعوں کو بڑھا کر خواتین کی معاشی میدان میں شرکت کی حوصلہ افرائی کرنا وہ ناگزیر عنصر ہے جس کی بدولت آبادیاتی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ ستھار کی تحریر آبادیاتی تبدیلی کے حصول کے لئے بجا طور پر خواتین کے کردار کو فیصلہ کن گردانتی ہے۔ حکمت عملی واضح ہے کہ تعلیم نسواں میں سرمایہ کاری کی جائے اور لڑکے لڑکیوں میں خواندگی کی خلیج کا خاتمہ کیا جائے۔ حقیقی تبدیلی کے لئے نوجوان طبقہ اور خواتین اہم ترین کردار ادا کرسکتے ہیں اور اس کے ثمرات سے مستفید بھی یہی طبقہ ہوگا۔ اگر پاکستان اپنی خراب طرز حکمرانی کے ریکارڈ کو بہتر بنانے میں ناکام رہا اور آبادیاتی تبدیلی کے فراہم کردہ موقعوں کو بھی ضائع کرتا رہا تو پھر ایک تاریک مستقبل اس کا مقدر ہے۔ اہم چیزوں کو قسمت اور ایڈہاک ازم کے سپرد کر دینے سے سانحات سے بچنا ممکن نہیں ہوگا۔
تازہ ترین