• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مراکش سے میرا لگاؤ بچپن میں اس وقت شروع ہوا جب سونے سے قبل میری والدہ محترمہ مجھے تاریخی کہانیاں سنایا کرتی تھیں جن کے کردار اکثر اسلامی مشاہیر ہوتے تھے۔ ان کہانیوں میں مجھے جس کہانی نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ مراکش سے تعلق رکھنے والے عظیم سپہ سالار طارق بن زیاد کی کہانی تھی جو 711ء میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کشتیوں میں سوار ہو کر مراکش سے اسپین کو فتح کرنے کیلئے روانہ ہوا۔ اس نے اسپین سے ملحق جبل الطارق (جبرالٹر) پر پڑاؤ ڈالا۔ دشمن کی ایک لاکھ سے زیادہ فوج کے مقابلے میں طارق بن زیاد کے ساتھیوں کی تعداد کم تھی لیکن وہ اور اس کے ساتھی پُرعزم اور جذبہ اسلام سے سرشار تھے۔ اس موقع پرطارق بن زیاد نے ان کشتیوں کو جن پر سوار ہو کر وہ آئے تھے کو جلانے کے بعد اپنی تاریخی تقریر میں کہا کہ ”دشمن ہمارے سامنے اور پشت پر سمندر ہے، ہم اپنی کشتیاں جلا چکے ہیں، اس لئے اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں“۔ طارق بن زیاد کے ان الفاظ کو اس کے ساتھیوں نے شہادت یا فتح سے تعبیر کیا اور میدان کارزار میں ہمت و شجاعت کی وہ داستانیں رقم کیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ طارق بن زیاد کی یہ فتح یورپ میں اسلام کی آمد کا سبب بنی اور مسلمانوں نے اندلس جو آج اسپین اور پرتگال پر مشتمل ہے پر تقریباً 800 سال تک حکمرانی کی۔ آج بھی اسپین میں مسجد قرطبہ، غرناطہ کے محل اور اسلامی طرز تعمیر کا شاہکار عمارتیں مسلمانوں کے اس سنہری دور کی یاد تازہ کرتی ہیں۔
اسی طرح کی مراکش کے بارے میں ایک اور کہانی مراکش سے تعلق رکھنے والے عظیم سیاح ابن بطوطہ کی تھی جس نے پوری دنیا کا سفر کیا۔ یہ کہانیاں سن کر مجھے بچپن سے ہی مراکش سے انسیت ہوگئی اور اس وقت میں نے یہ فیصلہ کیا کہ حصول تعلیم کے بعد سب سے پہلے میں طارق بن زیاد اور ابن بطوطہ کے ملک اور جبل الطارق (جبرالٹر) بھی جاؤں گا۔ اس طرح جب میں پہلی بار مراکش گیا تو وہاں سے بذریعہ بحری جہاز جبل الطارق بھی گیا۔ واضح ہو کہ اس پہاڑ پر آج ایک شہر آباد ہے جو برطانیہ کے زیر انتظام ہے۔ مراکش اور وہاں کے لوگ مجھے اتنے پسند آئے کہ میں نے وہاں کی مقامی زبان عربی سیکھی اور یہاں بزنس شروع کر دیا جو آج تک کامیابی سے جاری ہے اور سال میں کئی بار میرا مراکش آنا جانا رہتا ہے، اس طرح مراکش ایک طرح سے میرا دوسرا گھر بن گیا جہاں میرا ذاتی گھر بھی ہے۔ مراکش سے میری وابستگی اور خدمات کے پیش نظر مراکشی حکومت نے مجھے کئی سال قبل پاکستان میں اپنا اعزازی قونصل جنرل مقرر کیا جو میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے اور یہ میرے فرائض منصبی میں شامل ہے کہ دونوں ممالک کے مابین سفارتی اور باہمی تجارتی تعلقات کو فروغ دوں۔ یہی وجہ ہے کہ میرے قونصل جنرل بننے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان باہمی و تجارتی تعلقات میں مزید بہتری آئی اور جنگ اخبار میں مراکش کے بارے میں لکھے گئے میرے کئی کالمز مراکش کی سیاحت میں اضافے کا سبب بنے اور بے شمار پاکستانیوں نے یورپ کے بجائے مراکش جانے کو ترجیح دی جس سے سیاحت کو فروغ حاصل ہوا اور دونوں ممالک کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملا۔
مراکش کے شاہی خاندان کا تعلق علاوی سلسلہ نسب Denisty سے ہے جس کا شجرہ حضور اکرمﷺ سے ملتا ہے، اسی لئے دنیا بھر کے مسلمان علاوی خاندان کو بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مراکش کے بادشاہ محمد ششم نے اپنی تخت نشینی کی تیرہویں سالگرہ پر جن شخصیات کو مراکش کے قومی اعزاز سے نوازا ان میں میرا نام بھی شامل تھا۔ مراکش کا قومی ایوارڈ ”الاوت وسام “ مجھے مراکش کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے میری خدمات کے اعتراف میں دیا گیا۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں پاکستان میں قائم مراکش کے سفارتخانے نے مقامی ہوٹل میں ایک پُروقار تقریب کا انعقاد کیا جس میں مختلف طبقے سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ شخصیات کے علاوہ سفارتکاروں، بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی جبکہ حکومت سندھ کی نمائندگی قائم مقام گورنر نثار کھوڑو نے کی۔ پاکستان میں مراکش کے سفیر عزت مآب محمد ردا الفاسی نے مراکش کا قومی ایوارڈ یہ کہتے ہوئے مجھے پہنایا کہ ”مراکش کے شاہ نے مراکش کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو اس ایوارڈ سے نوازا ہے اور میں مراکش کے بادشاہ کا سفیر ہونے کی حیثیت سے ان کے Behalf پر آپ کو یہ ایوارڈ عطا کررہا ہوں“۔ اس موقع پر خوشی سے میری آنکھیں نم ہوگئیں۔ میں پہلا پاکستانی ہوں جسے مراکش کے بادشاہ نے قومی ایوارڈ سے نوازا۔ اس لئے یہ ایوارڈ نہ صرف میرے لئے بلکہ ملک و قوم کیلئے بھی اعزاز ہے۔ ”الاویت وسام“ ایوارڈ اس لحاظ سے بھی میرے لئے مقدس ہے کیونکہ یہ حضور اکرمﷺ کے خاندان ”الاویت“ سے منسوب ہے۔ 2012ء میرے لئے اس لحاظ سے بڑا خوش قسمت سال ہے کہ اسی سال 23 مارچ کو ایوان صدر میں میک اے وش پاکستان کا بانی صدر ہونے کی حیثیت سے سماجی شعبے میں میری خدمات کے اعتراف میں صدر پاکستان نے مجھے ”تمغہ امتیاز“سے بھی نوازا۔
میری بڑی خواہش تھی کہ میری والدہ محترمہ بھی خوشی کے اس موقع پر تقریب میں موجود ہوتیں مگر شدید علالت کے باعث وہ شرکت نہ کر سکیں۔ تقریب ختم ہونے کے بعد ایوارڈ گلے میں پہنے میں سیدھا اپنی والدہ محترمہ کے پاس پہنچا، انہوں نے میرے ماتھے کو چوما اور دعاؤں سے نوازا۔ اس موقع پر میں نے اپنی والدہ محترمہ کو ان کی مجھے مراکش کے بارے میں سنائی گئی کہانیوں کے بارے میں یاد دلایا اور کہا کہ آج اسی ملک کے بادشاہ نے مجھے مراکش کے قومی اعزاز سے نوازا ہے لیکن مجھ سے زیادہ اس ایوارڈ کی حقدار آپ ہیں کیونکہ آپ کی سنائی گئی کہانیوں کے باعث میرے دل میں مراکش جانے کی خواہش نے جنم لیا اور مراکش سے میرا ایک رشتہ قائم ہوا“۔یہ کہتے ہوئے میں نے یہ اعزاز اپنی والدہ کے گلے میں ڈال دیا۔
تازہ ترین