• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی سب سے بڑی عدالت نے آئین کے آرٹیکل184(3) کے تحت انتخابات کا بروقت انعقاد یقینی بناتے ہوئے امیدواروں سے ضروری معلومات کے حصول کا طریقہ وضع کرلیا ہے اور اب انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند افراد الیکشن ایکٹ 2017ء کے متعین کردہ انتخابی فارم کے علاوہ ایک بیان حلفی دینے کے بھی پابند ہیں جس کا مسودہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر مختصر وقت میں تیار کیا ہے۔ اس بیان حلفی کے ذریعے کاغذات نامزدگی داخل کرانے والے افراد کو اثاثوں سمیت تمام مطلوب معلومات تین روز میں دینا ہوں گی۔ بدھ کے روز چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سرکردگی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اپیلوں کی سماعت کے بعد الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت بنایا گیا نامزدگی فارم برقرار رکھتے ہوئے امیدواروں کو حکم دیا کہ وہ فارم میں غیر موجود تمام مطلوب معلومات الگ سے بیان حلفی کی صورت میں جمع کرائیں۔ چیف جسٹس کے ریمارکس کے مطابق امیدواروں کے بارے میں جاننا ووٹروں کا حق اور عام انتخابات کی ضرورت ہے، الیکشن کمیشن ان مطلوب معلومات کو اخبارات میں چھپوا دے جنہیں نئے نامزدگی فارم میں حذف کر دیا گیا ہے، حقائق چھپائے گئے تو جعلسازی اور توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔ فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے کیلئے الگ بنچ بنایا جائے گا جو دیکھے گا کہ الیکشن کیسے کرائے جائیں۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ عدالت عظمیٰ کے مذکورہ آرڈر کے ذریعے اداروں کے تقدس کو برقرار رکھتے ہوئے انتخابی عمل کی شفافیت یقینی بنانے کی موثر تدبیر کی گئی ہے۔ دوران سماعت جسٹس عظمت سعید نے اس پہلو کی نشاندہی کی کہ لاہور ہائیکورٹ میں الیکشن ایکٹ 2017ء چیلنج کئے جانے کے بعد وفاق کی طرف سے معاملے کو 7ماہ تک طول دیا گیا جبکہ عدالت عظمیٰ اس حوالے سے 2011ء میں فیصلہ دے چکی تھی۔ چیف جسٹس کے ریمارکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو معلومات الیکشن لڑنے والے امیدواروں سے طلب کی جارہی ہیں وہ مکمل انصاف کی ضرورت ہیں۔ اب نامزدگی فارم کیساتھ الیکشن کمیشن کے تیار کئے گئے مسودہ کے مطابق امیدوار کو جو بیان حلفی دینا ہوگا اس میں امیدوار اور اس سے تعلق رکھنے والے افراد کے بارے میں بلاشبہ ایسی معلومات طلب کی گئی ہیں جن سے انتخابات کو شفاف اور منصفانہ بنانے کے تقاضے تو پورے ہوتے محسوس ہورہے ہیں اور اس بات کا جائزہ لینے میں بھی مدد ملے گی کہ امیدوار آرٹیکل 62، 63کے معیارات کے مطابق کس حد تک عوامی نمائندگی کا حامل ہے۔ مگر بعض حلقوں کا خیال ہے کہ 11جون تک کے مختصر عرصے میں اتنی ساری معلومات کا متعلقہ دستاویزات کیساتھ فراہم کیا جانا خاصا محنت طلب کام ہے بعض دیگر حلقوں کی رائے میں بیشتر انتخابی امیدواروں کےپاس جائیدادوں اور دیگر امور کا حساب رکھنے والا عملہ موجود ہے جس کی بناء پر ان کیلئے اپنے فارم اور حلف نامے بھرنا مشکل نہیں۔ یہ رائے بھی سامنے آئی ہے کہ جو لوگ مالی وسائل نہ ہونے کے باوجود قومی خدمت کا جذبہ لے کر ایوانوں میں پہنچنے کی تگ و دو کرتے ہیں ان کیلئے سرمائے کی طاقت کا مقابلہ کرنا کتنا ہی مشکل ہو، انہیں امیدوار بن کر ووٹروں کو اپنے حق میں قائل کرنے اور مشکل حالات میں راستہ بنانے کا موقع ضرور ملنا چاہئے۔ جولوگ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی طرح اپنا ہر ریکارڈ فائلوں کی صورت میں ہر وقت تیار رکھنے کی پوزیشن میں نہیں، انہیں بکھرے ہوئے کاغذات یکجا کرنے میں مشکل ضرور پیش آسکتی ہے مگر چونکہ ان کیساتھ جائیدادوں، ٹیکسوں، غیر ملکی دوروں، قرضوں وغیرہ کے معاملات وابستہ نہیں ہوتے اسلئے وہ بھی کسی نہ کسی طرح اپنے کاغذات بروقت جمع کراسکتے ہیں۔ وطن عزیز میں ان دنوں سیاسی بیداری کی جو لہر نظر آرہی ہے اس کی بناء پر یہ توقعات بے محل نہیں کہ 2018ء کے انتخابات جمہوری عمل کو بہتر طور پر پروان چڑھانے اور فلاحی مملکت کے ان خوابوں کی عملی تعبیر کی طرف بڑھنے کا ذریعہ ضرور بنیں گے جن کا سات عشروں سے بے چینی سے انتظار کیا جارہا ہے۔

تازہ ترین