• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نہ آنکھوں پر نہ کانوں پر یقین آ رہا ہےمیں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا؟خود کو چٹکی کاٹتا ہوں تو حسب چٹکی درد بھی محسوس ہوتا ہے لیکن پھر بھی یقین نہیں آ رہا کہ دھن، دھونس، دھاندلی کی ماری سرزمین پر انصاف سربلند دکھائی دے رہا ہے۔یہ کیا ہو رہا ہے؟کوا کالا اور طوطا ہرا ہو رہا ہے؟ورنہ یہاں تو مردار خور گدھ عقاب بنے پھرتے تھے ، گدھے زیبروںکے طور پر رجسٹرڈ ہو چکے تھے،گندی نالیاں دریائوں کے روپ دھارے پھر رہی تھیں، کوڑھی مقابلہ حسن کے منصف کہلاتے تھے، اندھے ٹریفک کنٹرول کرنے پر مامور تھے، چارے کی رکھوالی بوبکروں کے سپرد تھی اور دودھ کی حفاظت باگڑ بلے فرما رہے تھے، ہر گنگا الٹی بہہ رہی تھی ، بریلی میں بانس امپورٹ ہو رہے تھے، گونگے تان سین اور بیجو باورے کے طور پر حسن کارکردگی کے تمغے سجائے پھرتے تھے، ٹانگوں سے معذور میرا تھن میں شریک تھے۔دوستو!انڈے سے لیکر اونٹ تک جو افورڈ کر سکتے ہو اس کا صدقہ دو، لال مرچیں وارو تاکہ اس دھرتی کے کسی دشمن یا حاسد کی نظر نہ لگے اور ہماری آئندہ نسلوں کو محفوظ کرنے کا یہ پراسیس یونہی جاری رہےریحام زدگیاں تو چلتی رہیں گی، انہیں انیرٹینمنٹ یا زیادہ سے زیادہ انفوٹینمنٹ سمجھ کر انجوائے کرو کہ یہ ہمارے سٹیج ڈراموں سے بہرحال بہتر ہوں گی۔اصل توجہ اس پر دو کہ ہمارے تمہارے لئے ہو کیا رہا ہے ۔ ننگے پائوں بے نوا مسافروں کے خارزار راستوں سے زہریلے کانٹے کس کس طرح چنے جا رہے ہیں۔ اپنی سپریم کورٹ کے لارجز بنچ کو دعائیں دو کہ کس طرح سردار ایاز صادق اور دوسرے سیاسی صادقین کی عوام دشمن سازش کے تحت تیار کردہ فارم کے ساتھ 14نکات پر مشتمل بیان حلفی بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔ 14اگست کے بعد 14نکات!’’مزے تے ماہیا ہن آون گے‘‘ کہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو ایم این اے، ایم پی اے کے امیدوار ملنے مشکل ہو جائیں گے۔میں موسیقی کا اعلیٰ ذوق رکھتا ہوں لیکن ایسا مسحور کن نغمہ کبھی نہ سنا یعنی۔۔۔۔۔۔’’امیدوار عوام کو معلومات دینے کے معاملہ میں شرمندہ کیوں ہیں؟ امیدواروں سے متعلق معلومات ملنے میں آخر مسئلہ کیا ہے؟ امیدواروں کو قرضہ معافی، تعلیمی قابلیت ، ٹیکس و تعطیلات ،تفصیلات، اہلیہ بچوں کے نام جائیداد، دوہری شہریت، مقدمات، بینک اکائونٹس کی تفصیلات بھی دینا ہوں گی، قانون سازوں نے چالاکیاں کر کے قوم کو مصیبت میں ڈالا۔ ووٹر کو معلوم ہونا چاہیے لیڈر کس قسم کے ہیں ایاز صادق کیا چھپانا چاہتے ہیں؟ بیان حلفی جھوٹا ثابت ہونے پر کارروائی ہو گی۔قارئین!مندرجہ بالا بیانات ارشادات و فرمودات سے بڑھ کر کسی لازوال لافانی گیت کی مانند ہیں جسے سن کر بنارسی ٹھگوں، سیون سٹار وارداتیوں کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہیں، پیٹوں میں مروڑ اٹھ رہے ہیں اور ’’دلو ں میں درد جگر‘‘ جاگ اٹھا ہےپیارے پاکستانیو!یہ تو ’’پروموز‘‘ ہیں ، سوچو تو سہی پورا سیریل کیا ہو گا؟ میری تو ’’چودہ اگست‘‘ ہی ان ’’چودہ نکات‘‘ کے ساتھ شروع ہو ئی جو چوروں کی بارات کے لئے چورن نہیں ’’چرایتا‘‘ جیسے لذیذ ہوں گے، ہاضمے کے لئے ایسے لاجواب کہ خوراک کیا، معدہ بھی گل جائےغیبی مدد کو غیبی مدد سمجھوہم جیسے غیر ذمہ داروں اور گنہگاروں کےلئے یہ سب زمینی نہیں، آسمانی الہامی مدد ہے ورنہ گزرے کل تک کے ’’نیب‘‘ میں اتنی جرأت تھی کہ اطلس و کمخواب کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال سکے کہ اس میں تو ان پر نگاہ ڈالنے کی بھی سکت نہ تھی اور اب ’’نیب‘‘ کا یہ ’’اعلانیہ‘‘ نہیں، کئی سال پر محیط میری تپسیا کا ’’العامیہ‘‘ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’ایل این جی سکینڈل:نیب کا نواز شریف، شاہد خاقان عباسی کے خلاف انکوائری کا فیصلہ، شہباز شریف کے خلاف بھی تحقیقات ہو ں گی‘‘ گیہوں کے ساتھ تھوڑا سا گھن بھی پس جائے تو خیر ہے کہ باقی لوگ ’’گھن ‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں’’ات خدادا ویر‘‘۔ یہ بھول گئے کہ قانون کی لاٹھی کو تو گھن لگ سکتا ہے، اللہ کی بے آواز لاٹھی گھن سے بے نیاز و ماورا ہے۔’’بیان حلفی‘‘ سے ایل این جی تک اور 400کروڑ میں پڑی پانی کی پیاسی سوکھی کمپنیوں سے گلف اسٹیل کے اصل مالک تک پہنچنے سے لیکر آمدنی کے ذرائع ثابت نہ کر سکنے تک ’’یہ ہیں وہ ذرائع جناب سپیکر‘‘ ! جن کی وجہ سے نوبت وہاں تک جا پہنچی جہاں تک اسے پہنچنا چاہئے تھا۔حقیقت و صداقت پر مبنی یہ سب’’ کہانیاں‘‘ اپنے اپنے منطقی انجام اور منزلوں تک پہنچ جائیں تو یہ تھکا ہارا ، ہانپتا کانپتا ، رینگتا سسکتا ملک وہاں پہنچ جائے گا کہ اک عالم اسے حیرت و حسرت سے دیکھے گا کہ اگر’’گراں خواب چینی سنبھلنے لگے‘‘ بلکہ سنبھل چکے تو ہمیں کیا پرابلم ہے؟تب تک دعائیں مانگو، صدقے دو، مرچیں وارو اور ہر قسم کی شخصیت پرستی سے دور رہو کہ یہ بت پرستی کی بھی بدترین شکل ہے۔

تازہ ترین